اتحاد اُمت اور غلبہ دین
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زندگی گزارنے کاایک نظام دیا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ مالک حقیقی کے احکامات کو مانیں اور اس پر عمل کریں۔ خدائی نظام کو اپنے قول و عمل اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے مطابق بروئے کار لائے تاکہ دنیاکا ہر انسان اپنے مالک حقیقی کی مرضی کو جان کر اس کی ہدایت ،دین متین کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے ۔ گویا فرد کی اصلاح، معاشرے کی تعمیر ،ریاست کی تشکیل اور ریاست کے نظام کو خدائی نظام کاپابند بنانا ، اقامت دین ہے ، اللہ ہی سب سے بڑا حاکم ہے ، اللہ کے حکم سے اچھا حکم کسی اور کانہیں ہے۔ اللہ نیک لوگوں سے محبت کرتاہے،انسان انصاف سے کام لیں اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔ انسانوں کے درمیان نیکی ، انصاف اور عدل کانظام ہی امن و استحکام پیداکرسکتا ہے۔ یہ کام اُمت کے اتحاد اور غلبہ دین سے ہی ممکن ہے۔آج دنیا بھر میں اہل ایمان ایک ارب85 کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال کیاہے ، انسانی صلاحیتیں بھی بے مثال ہیں ۔
دینی محبت بھی وافرہے ، بیت اللہ اور روضۂ رسول اللہ ؐ کی جانب سفر کاجذبہ دیدنی ہے ، ماہ رمضان ،عید قربان کے مواقع ہر اہل ایمان کی دینی وابستگی کو اجاگر کردیتے ہیں۔ اولیائے کرام ، مزارات ، خانقاہوں سے وابستگی ، عقیدتوں سے بھرپور ہے۔ مخیر حضرات انفرادی طور پر خدمت خلق اور دینی کاموں کے لیے برسرپیکار رہتے ہیں۔ ان جذبوں سے واضح ہوتاہے کہ اُمت میں اقامت دین کا جذبہ تووافر ہے مگر گروہ بندی ، فرقہ پرستی ، دل آزاری ،عدم برداشت نے ملت اسلامیہ کو لاتعداد مسائل ، مشکلات اور بحرانوں سے دوچار کردیا ہے یہ امر حیران کن ہے کہ گروہ ایک دوسرے کی مخالفت تو کرتے ہیں،ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں،جبکہ دونوں دین کے بنیاد ی عقائد توحید ،رسالت ، آخرت ، ختم نبوت پر متحد ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :سورۃ الشوریٰ، آیت:13’’اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیاہے جس کا حکم اس نے نوح ؑ کو دیا تھا اور جیسے اے محمدؐ!اب تمہاری طرف حکم ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ ، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو دے چکے ہیں ۔ اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ، یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار گزرتی ہے جس کی طرف اے محمدؐ تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتاہے اپنا کر لیتا ہے، وہ اپنی طرف آنے کاراستہ اسی کو دکھا تا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے ‘‘۔۔۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جو کلمۂ توحید کے دائرے میں داخل ہوئے ہیں اُن کو دو باتوں کی ہدایت دی ہے ایک یہ کہ اقامت دین کاکام کرو اور دوسرا یہ کہ تفرقہ بازی سے اجتناب کرو۔ ملت اسلامیہ کے قائدین کا محض اپنی انا، شہرت اور جاہ و منصب کی خاطر اُمت کو اتنے بڑے خسارے میں ڈال کر گوشۂ عافیت میں پناہ گزیں ہوجانا اقامت دین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ شاید انہیں اس کااندازہ ہی نہیں کہ اُمت اخلاق ،تہذیب ، عقائد ، وحدت واتحاد سے دور ہوتی جارہی ہے۔اسلام دشمن قوتیں،استعمار و اغیار مکر و فریب سے غلبہ پا رہے ہیں۔غلبہ دین کے راستے مسدود کرکے آسمانی آفات در آ رہی ہیں اور نت نئے مسائل ، بحران اُمت کو پارہ پارہ کررہے ہیں:
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی،دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرم بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے اُمت کے اتحاد کانسخہ پوری شان سے بیان کردیا ، اصل ضرورت ہے کہ ہوس نے بنی نوع انسان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیاہے۔اسے محبت اور احساس زیاں سے جوڑا جاسکتا ہے ۔ ضرورت ہے کہ ماضی کے تلخ حقائق کاتجزیہ بھی ضرور ہو ،اختلاف کے وجوہ کابھی جائزہ ضرور لیاجائے،لیکن مسائل کا حل اخلاص پر مبنی سعی سے ہوگا۔ اُمت کی اصل طاقت اور اثاثہ نوجوان نسل ہے۔ حالات کی تلخی اور کڑوی گولی اس کی صلاحیتوں کو برباد نہ کردے۔ مسلکی اختلاف کے باوجو د اقامت دین کے لیے اتحاد کی راہ تلاش کی جائے ۔ اس میں ہی سب کے لیے خیر اور شر ور سے نجات ہے، وگرنہ موجودہ دور میں مسالک کا اختلاف بہت خطرناک رخ اختیار کر رہا ہے۔ اب مسالک کے درمیان نہیں بلکہ ایک مسلک کے ماننے والوں میں بھی محض آراء کا اختلاف ، شخصی اختلاف انتشار اور تنازعہ کی شکل اختیار کرچکاہے۔
اتحاد اُمت اور غلبہ دین ایک مسلمان کا نصب العین ہے، یہ کوئی نئی چیزنہیں ہے ہمیشہ اس کے لیے کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ داعیان حق نے ہمیشہ اسلام کی تعلیمات کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے اسلام کی دعوت دینے،اس کی اشاعت وحفاظت کرنے، اسلامی ثقافت ومعاشرت کو فروغ دینے اور دین میں ہر طرح کی خرافات وبدعات کی آمیزش کو دور کر کے اقامت دین کاراستہ ہموار کرنے کی جدوجہد جاری رکھی ۔ صحابہ کرامؓ ، تابعین عظام ، تبع تابعین اور سلف صالحین ؒ نے ہر طرح کی آزمائش کو برداشت کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسی مشن کے لیے وقف کررکھی۔ یہی جدوجہد آج بھی غلبہ دین ، اقامت دین کے لیے معیار حق ہے ۔ اتحاد اُمت اور غلبہ دین کے لیے موجودہ دور میں اسلامی تحریکوں ،اسلامی شخصیات ،دین حق سے وابستگی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے جنہیں اثر پذیر ی کامقام دیا ہے ،ان سب کو پورے احساس کے ساتھ اپنی بنیادی ذمہ داری کو اداکرناہے ۔ چار بنیادی عوامل پر توجہ دینا ناگزیر ہے جس سے اتحاد اُمت اور غلبہ دین کے لیے آسانیاں پیداہوناممکن ہے۔
اسلامی تہذیب ، علمی بنیادوں ، دینی اقدار کی حفاظت ناگزیر ہے۔آج کا دور اباہیت، بدتہذیبی ،عریانی ، بے حیائی کو فروغ دینے کا دور ہے ۔اسلام میں شرم و حیاء کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، یہ درحقیقت ایک اسلامی معاشرے کی بنیادی شناخت ہے ۔ سرور کائنات حضرت محمد ؐ کاارشاد گرامی ہے۔۔۔’’حیاء ایمان کابنیادی شعبہ ہے ،جب تم حیاء کو کھودو تو جو چاہے کرو ‘‘۔۔۔انسانی زندگی سے شرم و حیاء معدوم ہوجائیں تو ایسی قوم اور افراد کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہوتی ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلم معاشرے برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں،دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی مذہب نہیں جو بے حیائیوں پر قدغن لگانے والا ہو۔عالم اسلام ٹکڑوں میں تقسیم ہے، عرب و عجم، شیعہ و سنی ،غریب اور مالدار ممالک کی تقسیم کاشکار ہے۔عالم اسلام کی وحدت کے ادارے ناکارہ اور فرسودہ ہیں۔مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں عملاً لاوارث ، مظلوم اور کسمپرسی کی حالت کاشکار ہیں ۔ مسئلہ کشمیر و فلسطین حل نہ کیے گئے، لاکھوں انسان قربان ہوگئے، لیکن عالم اسلام کی قیادت بے حسی کاشکار رہی جس کی وجہ سے اسلام دشمن استعماری قوتوں نے مصر، بنگلہ دیش ، شام ، یمن جیسے مسائل مسلط کردیئے، لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ عالم اسلام کو اتحاد کے جذبے کو اجاگر کرناہوگا۔ معیشت ، دفاع ،سیاست اور باہم رابطوں کے لیے باہمی رابطوں کو مضبوط اور با معنی بنانا ہوگا۔ پاکستان ، ترکی ،سعودی عرب ، ایران ، ایک پیج پر ہوں تو بیشتر مسائل کا حل نکل آئے گا۔ سیاسی ، معاشی اور سلامتی کے مسائل حل ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔ دنیا بھر کی مسلم دشمن قوتوں سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ۔ اتحاد اُمت ہی عالم اسلام میں غلبہ دین ، ترقی واستحکام، عزت وقار کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔
عالم اسلام کی اسلامی تحریکوں کا عوامی سطح پر رابطوں کا مضبوط ذریعہ وجود میں لایاجاسکتاہے۔ اسلامی تحریکوں کو جدید دور اور بدلتے حالات میں اپنی نظریاتی بنیادوں اور اصولوں پر کوئی کمپر ومائز کیے بغیر خطرات کاادرا ک کرتے ہوئے کلیدی کرداراداکرناہے۔اسلامی تحریکوں کے لیے سیاسی،انتخابی محاذ پر کامیابی ،اضافی ثمر ہے، اصول ہدف اور نصب العین کی شاہراہ ،دعوت دین ،تعمیر کردار ،بنیان مرصوص بننااور اللہ کے بندوں کو واقعتاً عبادالرحمن بنانے کی جدوجہد کرنا ہے۔ ہر دور میں احیائے اسلام کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے صالح ، خدا ترس ، وژنری لوگوں نے رہنمائی کا فریضہ ادا کیاہے۔ ذرائع ابلاغ ، سوشل میڈیا آج کے دور کا طاقت ور ذریعہ ابلاغ ہے ۔ مسلم نوجوان کروڑوں ، اربوں انسانوں تک انسانوں کے درمیان وحدت ، یکجہتی ،اتحاد اُمت کا جذبہ پیداکرسکتے ہیں۔ پاکستان عالم اسلام میں ایک اہم ترین اکائی ہے۔ نظریہ ، جغرافیہ ، وسائل اور انسانی صلاحیتیں بیش بہا سرمایہ ہیں۔ حالیہ انتخابات میں مجموعی طور پر مذہبی جماعتوں نے 55لاکھ ووٹ لیے ہیں۔ یہ منتشر تھے ، اتحاد کے باوجود عزم اور اُمنگ کی کمی تھی ، ذہنوں سے غلبہ دین کا مقصد اولین غائب تھا۔ اس وجہ سے جہاں ملک کے اندرکی سیکولر قوتوں نے پھبتی کسی اور بغلیں بجائیں،وہیں اس صورت حال پر امریکہ اور یورپ نے بھی خوشی و اطمینان کااظہار کیا ،وقت ، حالات جیسے جیسے آگے بڑھیں گے،معاشی، سلامتی ،اندرونی انتشار کے مسائل سے دوچار ریاستی نظام کے لیے دینی قیادت اور دینی محبت رکھنے والوں کو اخلاص نیت وعمل سے کردار ادا کرنا ہو گا۔ اتحاداُمت اور غلبہ دین کاجذبہ پاکستان کو عالم اسلام میں وہ مرکزی مقام دلاسکتا ہے جس کی ضرورت عالم اسلام کو ہے۔