چاند رات کی قباحتیں!
چاند رات جسے ہم لہو و لعب، کھیل کود اور عید کی شاپنگ اور خریداری وغیرہ جیسے کاموں میں گزار دیتے ہیں، اپنے اندر بے پناہ فضائل و انعامات اور بے شمار فوائد و برکات سموئے ہوئے ہے۔ اس رات میں ایمان اور ثواب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کے سامنے عبادت کے لئے کھڑا ہونا، کلامِ الٰہی کی تلاوت کرنا، ذکر وتسبیحات اور کثرت سے استغفار کرنا اور رات کی تاریکی میں اپنے رحیم و کریم مالک سے راز و نیاز کرنا اس رات کے فضائل اور آداب میں سے ہے۔ اور فقہا نے دونوں عیدوں کی رات کو جاگ کر اللہ تعالی کی عبادت کرنے کو مستحب لکھا ہے۔
چھوٹی بڑی دونوں عیدوں کی راتوں میں شب بیداری اور عبادت کرنے کی فضیلت اور ثواب متعدد احادیث میں وارد ہوا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضورِ اقدسؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: جنت کو رمضان شریف کے لئے خوشبوؤں کی دھونی دی جاتی ہے اور شروع سال سے آخر سال تک رمضان کی خاطر آراستہ کیا جاتا ہے۔ پس جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جس کا نام مثیرہے، جس کے جھونکوں کی وجہ سے جنت کے درختوں کے پتے اور کواڑوں کے حلقے بجنے لگتے ہیں، جس سے ایسی دِل آویز سریلی آواز نکلتی ہے کہ سننے والوں نے اِس سے اچھی آواز کبھی نہیں سنی، پس خوش نما آنکھوں والی حوریں اپنے مکانوں سے نکل کر جنت کے بالا خانوں کے درمیان کھڑے ہوکر آواز دیتی ہیں: کوئی ہے اللہ کی بارگاہ میں ہم سے منگنی کرنے والا تاکہ حق تعالیٰ شانہ اس کو ہم سے جوڑدیں؟ پھر وہی حوریں جنت کے داروغہ رضوان سے پوچھتی ہیں کہ: یہ کیسی رات ہے؟ وہ لبیک کہہ کر جواب دیتے ہیں کہ: رمضان المبارک کی پہلی رات ہے، جنت کے دروازے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے روزہ داروں کے لئے آج کھول دیئے گئے ہیں۔
حضورِ اقدسؐ نے ارشاد فرمایا: حق تعالیٰ شانہ داروغہ رضوان سے فرمادیتے ہیں کہ: جنت کے دروازے کھول دو!اور مالک یعنی جہنم کے داروغہ سے فرمادیتے ہیں کہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے روزہ داروں پر جہنم کے دروازے بند کردو!اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ: زمین پر جاؤ اور سرکش شیاطین کو قید کردواور ان کے گلے میں طوق ڈال کر دریا میں پھینک دو، تاکہ یہ میرے محبوبؐ کی امت کے روزوں کو خراب نہ کریں۔
نبی کریمؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: حق تعالیٰ شانہ رمضان کی ہر رات میں ایک منادی کو حکم فرماتے ہیں کہ: وہ تین مرتبہ یہ آواز لگائے کہ: ہے کوئی مانگنے والا جس کو میں عطا کروں؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ کو قبول کروں؟ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کون ہے جو غنی کو قرض دے ایسا غنی جو نادار نہیں، اور ایسا پورا پورا ادا کرنے والا جو ذرا بھی کمی نہیں کرتا؟۔
حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ: حق تعالیٰ شانہ رمضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے خلاصی مرحمت فرماتے ہیں جو جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں، اور جب رمضان کا آخری دِن ہوتا ہے تویکم رمضان سے آخر رمضان تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کئے گئے ہوتے ہیں ان کے برابر اس ایک دِن میں آزاد فرماتے ہیں اور جس رات شب قدر ہوتی ہے تو اس رات حق تعالیٰ شانہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو زمین پراترنے کا حکم فرماتے ہیں، وہ فرشتوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں، ان کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتا ہے، جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں۔
حضرت جبرائیل کے سو (100)بازو ہیں جن میں سے دو بازو صرف اِسی ایک رات میں کھولتے ہیں، جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلا دیتے ہیں، پھر حضرت جبرائیل فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں کہ: جو مسلمان آج کی رات کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کر رہا ہواس کو سلام کریں اور اس سے مصافحہ کریں اور ان کی دعاؤں پر آمین کہیں، صبح تک یہی حالت رہتی ہے۔جب صبح ہوجاتی ہے تو حضرت جبرائیل ؑ آواز دیتے ہیں کہ: اے فرشتوں کی جماعت!اب کوچ کرواور چلو! فرشتے حضرت جبرائیل ؑ سے پوچھتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے احمدؐ کی امت کے اُمتیوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ فرمایا؟۔ وہ کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے اِن پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرمادیا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: وہ چار شخص کون سے ہیں؟۔ حضورؓ نے ارشاد فرمایا:
1۔ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو۔
2۔دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو۔
3۔تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو۔
4۔چوتھا وہ شخص جو دِل میں کینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو۔
پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس رات کا نام آسمانوں پر لیل الجائزہ یعنی انعام کی رات رکھا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے کہ جس کو جنات اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ: اے حضرت محمدؐ کی امت!اس کریم رب کی درگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے، پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ: کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو۔
وہ عرض کرتے ہیں: اے ہمارے معبود اور ہمارے مالک!اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری اس کو پوری پوری دے دی جائے۔ تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: اے میرے فرشتو!میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی۔ اور بندوں سے خطاب فرماکر ارشاد ہوتا ہے: اے میرے بندو!مجھ سے مانگو!میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم!آج کے دِن اپنے اِس اِجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے میں پورا کروں گا اور دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اس میں تمہاری مصلحت دیکھوں گا۔ میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھوگے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا اور ان کو چھپاتا رہوں گا۔میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم!میں تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے ذلیل اور رسوا نہیں کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جا ؤ۔تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔پس فرشتے اِس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اِس امت کو افطار یعنی عید الفطر کے دِن ملتا ہے، خوشیاں مناتے ہیں اورکھِل جاتے ہیں۔ الترغیب و الترہیب
حضرت ابو امامہ الباہلی سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس ؓ نے ارشادفرمایا کہ: جو شخص دونوں عیدوں یعنی عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں میں ثواب کی نیت سے عبادت کے لئے کھڑا ہوا تو اس کا دِل اس دِن نہیں مرے گا جس دِن اور لوگوں کے دِل مردہ ہوں گے۔شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ: دِل کے مردہ ہونے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ فتنہ و فساد کے وقت جب لوگوں کے قلوب پر مردنی چھاتی ہے، اِ س کا دِل زندہ رہے گا۔اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے کہ صور پھونکے جانے کا دن اِس سے مراد ہوکہ اِس کی روح بے ہوش نہ ہوگی۔ حضرت معاذ بن جبل نے نبی اکرم ؓ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ: جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لئے جاگے اس کے واسطے جنت واجب ہوجاتی ہے اور وہ پانچوں راتیں یہ ہیں:
1۔ (لیل الترویہ(یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات
2۔(لیل العرفہ (یعنی 9/ ذی الحجہ کی رات
3۔(لیل النحر (یعنی 10/ ذی الحجہ کی رات
4۔(لیل الجائزہ (یعنی عید الفطر کی رات جسے ہم لوگ چاند رات کہتے ہیں۔
5۔(لیل البرت (یعنی 15/ شعبان المعظم کی رات جسے ہم لوگ شب برأت کہتے ہیں۔الترغیب والترہیب و فضائل رمضان۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒنے امام شافعیؒ سے نقل کیا ہے کہ: پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں مانگے جانے والی دعا کبھی رد نہیں ہوتی (یعنی ضرور قبول ہوتی ہے اور وہ پانچوں راتیں یہ ہیں:
1۔(شب جمعہ (یعنی جمعہ کی رات
2۔ (غر رجب (یعنی ماہِ رجب المرجب کی پہلی رات
3۔ماہِ شعبان المعظم کی پندرھویں رات۔
4۔عید الفطر کی رات (چاند رات)
5۔عید الاضحی کی رات۔
عید الفطر یعنی چاند رات کو حدیث شریف میں لیل الجائزہ یعنی انعام والی رات کہا گیا ہے، گویا اِس رات میں حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے اپنے بندوں کو انعام دیا جاتا ہے، اس لئے بندوں کو بھی چاہیے کہ وہ اِس رات کی حد درجہ قدر کریں اور اِسے غنیمت سمجھیں کہ یہ رات بھی دیگر راتوں کی طرح خصوصیت سے عبادت میں مشغول رہنے کی ہے۔
یاد رہے کہ ان پانچوں راتوں میں شب بیداری کے لئے کوئی خاص طریقہ اور کوئی خاص عبادت مقرر نہیں ہے، بلکہ اپنے طبعی نشاط اور اپنے فطرتی ذوق کے مطابق جس طرح بھی آسانی سے ہوسکے عبادت کرلینی چاہیے، البتہ عشا اور فجر کی نماز مرد حضرات کو ضرور مسجد میں جاکر باجماعت ادا کرنی چاہیے اور خواتین کو اپنے گھر میں مناسب وقت میں پڑھنی چاہیے۔ ٭٭٭