اک اور کالا باغ ڈیم…… واہ ری قسمت!

  اک اور کالا باغ ڈیم…… واہ ری قسمت!
  اک اور کالا باغ ڈیم…… واہ ری قسمت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  یہ بات بار بار دہرانی پڑتی ہے، صرف یہ بتانے کے لئے کہ اس دوران ہم نے سیکھا کچھ نہیں ہے وہ غلطیاں بار بار دہرا رہے ہیں جو ہمارے ملک کو تباہ کررہی ہیں، بنیادیں کھوکھلا کررہی ہیں۔ یہ ایک بدقسمتی ہے کہ ہمیں گزشتہ  78 برسوں میں ”خاکی ہو یا سویلین“ ایک بھی ایسی قیادت نہیں ملی جسے ”ویژنری“ یعنی مستقبل شناس کہا جاسکے۔ جو ایسے فیصلے کرسکے کہ آنے والے وقتوں میں اس ملک کا اور اس کے رہنے والوں کا بھلا ہو۔ ہم تو مسلسل ”یوم سیاہ“ مناتے چلے آرہے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ ہو یا  سانحہ اے پی ایس پشاور،ہم یوم سیاہ منانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اب ”بلوچستان نے ہمیں ڈرا“ رکھا ہے۔ کبھی جعفر ایکسپریس کا سانحہ اور کبھی سڑک چلتی بس کو مسافروں سمیت جلا دیا جاتا ہے۔ نجانے یہ ”دہشت گرد“ کہاں چھپے ہوتے ہیں،جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں ”نکل آتے“ ہیں۔ اِن حالات میں سندھ میں ”پانی“ کے مسئلے پر اُٹھنے والی آوازوں نے کالاباغ ڈیم کی یاد تازہ کر دی ہے۔ پانی کے مسئلے پر جنوبی ایشیا کے ممالک بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، چین، نیپال، بھوٹان، افغانستان، ایران اور دیگر ممالک دریاؤں کے پانی پر انگریز کے زمانے سے جھگڑ رہے ہیں۔ بھارت میں بھی صوبوں کے درمیان پانی پر جھگڑا ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ جھگڑا بہت بڑھ گیا۔ جس کے بعد 1991ء میں پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا، جس کے بعد امید تھی کہ صوبے مستقبل میں پانی کے مسئلہ پر نہیں لڑیں گے، لیکن یہ اُمید پوری نہ ہو سکی۔ بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستان کو اپنے دریاؤں پر ڈیم بنانا تھے تاکہ ان ڈیموں سے سارا سال دریاؤں میں پانی کا بہاؤ جاری رکھا جاسکے اور ”آف سیزن“ میں پانی دریاؤں میں چھوڑا جاسکے۔ منگلا اور تربیلا ڈیم تو ایوب خان کے دور میں شروع ہوئے اور بن بھی  گئے، لیکن بدقسمتی سے اس کے بعد کالا باغ ڈیم پر نحوست کا بادل ایسا چھایا جو آج تک چھٹ نہ سکا۔ سندھ اور خیبرپختونخوا کے قوم پرستوں نے اس مسئلے کو ایسا ”اٹھایا“ کہ یہ ڈیم آج تک نہیں بن سکا۔ کالا باغ نہ بننے کا نقصان یہ ہوا کہ اس کے بعد دیگر ڈیم بھی نہ بن سکے پوری دنیا آنے والے وقت کو مدنظر رکھ کر ڈیم پر ڈیم بنا رہی ہے بھارت اور چین میں ہزاروں ڈیم بن چکے ہیں، ایک ہم ہیں کہ اپنے مستقبل کی فکر ہی نہیں ہے۔ راجن پور میں کوہ سلمان پر ہونے والی بارشوں کا پانی ہر سال اربوں کا نقصان کرتا ہے، لیکن ہم نے کبھی ان برساتی نالوں کو اپنے کنٹرول میں کرکے اس پانی کو استعمال کرکے ہزاروں ایکڑ زمین آباد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلوچستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے ڈیم بنانا شروع کئے گئے، 100 ڈیم بننا تھے، بمشکل 50 بنے، لیکن گزشتہ برسوں میں ہونے والی غیرمعمولی بارشوں میں وہ تمام ڈیم تنکے کی دیوار ثابت ہوئے اور وہاں جمع پانی نے لوگوں کے گھر اجاڑ دئیے، باغ تباہ ہو گئے۔بھارت نے ساڑھے 600 میل لمبی اندرا گاندھی کینال بنا کر راجستھان کے صحرا کو بڑی حد تک سبز کر لیا۔ ہم سے نہ چولستان آباد ہوا نہ تھر۔ اب چولستان میں آباد انسانوں کے لئے تو نہیں البتہ وہاں باہر سے لائے جانے والے ”آباد کاروں“ کے لئے لاکھوں ایکڑ ”زمین  حاصل“ کر کے جب نہریں بنانے کا وقت آیا تو ”کچھ لوگوں“ کو کالا باغ ڈیم یاد آ گیا، لہٰذا آج سندھ کے اندر ایک مہم جاری ہے۔ ”نہریں نامنظور نہریں نامنظور“……

یہ ہیں ہمارے مستقبل شناس لیڈر جو اِس ملک میں بہتری کی بجائے شاید ابتری چاہتے ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ چولستان میں بنائی جانے والی نہروں میں چناب اور جہلم کا پانی پہنچایا جائے گا۔ پیپلز پارٹی اور اس کی سندھ حکومت نہروں کے خلاف ”میدانِ جنگ“ تیار کر کے صف آراء ہو چکی ہے۔ سندھی قوم پرست بھی سڑکوں پر ہیں۔ مرحوم بھٹو کے پوتے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر غریب سندھیوں کے ”حلئے“ میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فیڈریشن کی علامت صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ  چھ نہروں کے منصوبے کو ترک کردیا جائے۔ یہ فیڈریشن کے لئے تشویشناک معاملہ ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر طاقتور لوگوں کو بتا دیا ہے کہ کینال کے مخالف ہیں اور رہیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ صدر زرداری کے پاس نہروں کی منظوری دینے کا اختیار ہی نہیں ہے تو پھر کیسے دے سکتے ہیں؟ کالا باغ ڈیم نقصان دہ تھا اور یہ نہریں بھی نقصان دہ ہیں، اسے بھی مسترد کیا انہیں بھی مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم میاں شہباز شریف سے مطالبہ فرمایا ہے کہ اس منصوبے کی منسوخی کا اعلان کریں۔ (اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ طاقتوروں کو انکار کا دعویٰ کرنے والے مراد علی شاہ اپنے جیسے ایک ”بے اختیار وزیراعظم“ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ منصوبہ منسوخ کرے، حالانکہ اس ملک میں ہر وزیر اور ان کے ”اعلیٰ اور اعظم“ سب بے اختیار ہیں، لہٰذا اپنی بے اختیاری انجوائے کریں)۔ مراد علی شاہ صاحب نے ایک اور بلند و بانگ دعویٰ بھی فرمایا ہے کہ وفاقی حکومت گرانے کی طاقت رکھتے ہیں (اے کاش کہ وہ اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں)۔ سندھی وزراء بھی کسی سے پیچھے نہیں، شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ ہم نے کہہ دیا نہریں نہیں بنائی جائیں گی تو نہیں بننے دیں گے۔ سعید غنی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ چھ نہریں ہم نہیں بننے دیں گے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پانی ہمارا مرنا جینا ہے۔ پانی کا مسئلہ ہماری اوّلین ترجیح ہے۔ نہروں کے مسئلے کو ہر فورم پر اٹھائیں گے اور اگر بات نہیں بنی تو پھر ہم سڑکوں پر آئیں گے، تحریک شروع کریں گے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایک جملہ بڑا ذومعنی کہا ہے، ان کا وہ جملہ ہے کہ ”پاکستان ایک اور مارشل لاء کا متحمل نہیں ہوسکتا“۔

ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے پوتے بھٹو جونیئر نے کہا ہے کہ چھ نہروں کا منصوبہ ایک سازش ہے اور اس منصوبے کے پیچھے ”طاقتور لوگ“ ہیں۔ ہم سندھ بچاؤ تحریک شروع کریں گے۔ میں تیار ہوں سندھ کے عوام کو ساتھ نکلنا ہو گا۔ پانی ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے ”سیاسی یتیموں“ کو دعوت ہی دے ڈالی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سارے ”سیاسی یتیم“ ہیں،جو ”توانائی سے بھرپور“ ہیں، البتہ ان کی کوئی تنظیم یا لیڈرشپ نہیں ہے۔ جونئیر بھٹو شاید ان ”سیاسی یتیموں“ کو پیپلز پارٹی غنویٰ بھٹو میں شمولیت کی دعوت دینا چاہ رہے ہیں۔ یہ سب لوگ جنہوں نے کبھی کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا، اب نہروں کے پانی کو روک رہے ہیں۔ کاش کہ ہم سمجھ جائیں کہ آنے والا وقت بہت خوفناک ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کو پیش نظر رکھ کر تیاریاں کرنی ہیں۔ آنے والے وقت کی تیاری نہیں کریں گے تو تباہیاں آتی رہیں گی، مگر شاید ہم تباہیوں کے عادی ہوگئے ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -