انصاف سے عاری معاشرے    

  انصاف سے عاری معاشرے    
  انصاف سے عاری معاشرے    

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مملکت ِ خداداد آج جن گوناگوں مسائل اور بحرانوں کی شکار ہے وہ حالیہ چند سالوں کے مشکل اور سخت فیصلوں، ناپسندیدہ اور غیر معروف پالیسیوں کا نتیجہ نہیں،بد نصیبی یہ کہ ہر دور میں اقتدار سنبھالنے والوں نے اپنی پہلی تقریر میں قوم کو سبز باغ دکھائے ایسے وعدے کئے جن پر عملدرآمد ان کی ترجیح ہی نہیں تھی، آزادی کے فوری بعد اقتدار پر غلبہ کے لئے اشرافیہ کے گروپ بننے لگے،ہم خیال سیاستدانوں، فوج، بیورو کریسی، عدلیہ پر مشتمل یہ گروپ قوم کو سہانے سپنے دکھا کر ملک اور قوم کو پستی و ذلت کی کھائی میں دھکیلتے رہے،ملک تو بڑی چیز ہے کوئی گھر بھی بغیر اصول و ضوابط کے کامیابی سے نہیں چلایا جا سکتا،مگر ہم نے آئین و قانون کی تشکیل و ترتیب کی ضرورت ہی محسوس نہ کی،56ء کا آئین ایک مستند دستاویز اور بڑی حد تک قائداعظمؒ کے تصورِ ریاست کے تحت تشکیل پایا، مگر فوجی آمر ایوب خان نے اسے پر کاہ کے برابر اہمیت نہ دی اور نفاذ سے قبل ہی طاق نسیاں کر دیا،58ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد من مرضی کے آرڈیننس جاری کر کے امورِ مملکت کو چلایا گیا، آخر غیر منتخب اشرافیہ کے چہیتوں نے62ء کا آئین ترتیب دیا جو ریاست اور عوام کے مفادات کو سامنے رکھ کر تشکیل دینے کے بجائے فوجی آمر کے مفادات کو تحفظ دیتا تھا۔

اِس دوران ایک مخصوص گروپ ایوب خان کی پشت پر رہا، بیورو کریسی،عدلیہ اور سیاست میں سے اپنی پسند کے افراد پر مشتمل اس گروپ نے سب سے پہلے ریاست کے اہم ستون انتظامیہ یعنی بیورو کریسی کو مشق ستم بنایا،حالانکہ یہ انتہائی اہم ستون ہے جو حکومتی پالیسیوں اور انتظامی فیصلوں پر کامیابی سے عملدرآمد کا ذمہ دار ادارہ ہے،مگر اس ریاستی ادارہ کو حکمران طبقہ نے ذاتی ملازم سمجھ لیا،اصول ضوابط کی کوئی اہمیت نہ رہی،قانون و آئین قصہ ماضی بن گئے، زبانی احکامات پر ریاستی امور چلائے جانے لگے، 77 سالہ ملکی تاریخ میں متعدد وزیراعظم، صدور اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر آئے جو قوم سے اپنے پہلے خطاب میں طرح طرح کے وعدے کرتے رہے، لیکن ”وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا“حالانکہ سربراہ مملکت کے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد ایوان میں یا ذرائع ابلاغ میں کی گئی پہلی تقریر سربراہِ مملکت کی اس سوچ کی عکاس ہوتی ہے جو اُس نے برسراقتدار آنے سے پہلے اپنے منشور کے طور پر پیش کی ہوتی ہے یا ملک اور قوم کی ترقی کے ان وعدوں کے ایفا کا مظہر ہوتی ہے جو اس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئے ہوتے ہیں۔

قیام پاکستان سے تین روز قبل 11 اگست 1947ء کو قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے خطاب میں کہا ’’اِس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے، ہمیں نہایت سختی سے اِس کا قلع قمع کر ناہو گا، ایک اور لعنت اقربا  پروری اور احباب  نوازی ہے جسے ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا“مگر اِس ملک کو سب سے زیادہ جن لعنتوں نے نقصان پہنچایا وہ یہی دو  ہیں،ہر حکومت نے ان کے خاتمے کا دعویٰ کیا اِس حوالے سے قوانین بنے، ادارے تشکیل پائے، مگر ہر حکمران نے ایسے قوانین متعارف کرائے جن کی زد میں صرف مخالفین آئے یا بیورو کریٹ،ہر حکمران نے اپنی کھال ان قوانین سے وابستہ کر لی،نتیجے میں آ ج انہی دو لعنتوں نے ہمیں تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے،اسی تقریر میں قائداعظم نے ملک کو ایک جمہوری ریاست بنانے کا عندیہ دیا اور کہا ’اب آپ آزاد ہیں،اِس مملکت ِ پاکستان میں آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جائیں،اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں آپ کا تعلق کسی مذہب،ذات پات یا عقیدے سے ہو، کاروبارِ مملکت کا اِس سے کوئی واسطہ نہیں“،مگر اِس مملکت میں سب سے زیادہ عبادت گاہیں تھیں، جو نشانہ بنیں، ضیاالحق نے اسلام کے نام پر چند شرعی سزائیں متعارف کرائیں،توہین مذہب کا قانون بنا، مگر عملدرآمد کے لئے کوئی میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے عام طور پر اس کا غلط استعمال ہوا، مگر ضیا الحق نے مذہبی حلقوں کی ہمدردی حاصل کر کے اپنے پاؤں مضبوط کر لئے۔

قائداعظمؒ نے اتحاد،تنظیم کا درس دیا، مگر ہم نے کبھی فرقہ، کبھی زبان اور کبھی صوبے کی بنیاد پر قوم کو سیاسی مقاصد کے لئے تقسیم کیا،قائد نے فرمایا ”کام کام اور صرف کام“ مگر ہم نے پیسہ کمانے کے لئے شارٹ کٹ تلاش کئے، جس سے کرپشن کو فروغ ملا،آج ہر شعبے سے وابستہ لوگ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے چکر میں جھوٹ،دھوکہ دہی، ملاوٹ،ناقص اشیاء کی فروخت،رشوت،اور منافع خوری کو جائز قرار دے چکے ہیں،حکومت ہے، مگر کہیں دکھائی نہیں دیتی،انتظامیہ ہے، مگر بے بس بے اختیار، عدلیہ ہے، مگر انصاف کی دیوی قید میں ہے، نوابزادہ لیاقت علی خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اعلان کیا ”میری شدید خواہش ہے امیر امیرتر اور غریب، غریب تر نہ ہوتا چلا جائے، غریب کے حقوق و مفادات کو اولیت حاصل ہو گی اور بعد میں کسی دوسرے کے،ہم غریب کے استحصال، ناجائز منافع خوری اور بدعنوانی کو کسی بھی شکل میں برداشت نہیں کریں گے اور نہ ہی اس کی اجازت دیں گے، میں بدعنوان افراد کو یہ واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ خواہ وہ کسی بھی جگہ پر یا کسی بھی عہدے پر ہوں ان کے دن گِنے جا چکے ہیں“،مگر ہوا اس کے برعکس آج غریب تو کیا متوسط طبقہ بھی غربت کی لکیر سے نیچے ہے اور امیر دن رات پیسہ بنا رہے ہیں۔

لیاقت علی خان کے بعد بھی جو آیا  اسی نوعیت کے دعوے اور وعدے کرتا رہا،مگر ملک بیڈھب طریقے سے چلتا رہا، محلاتی سازشیں اور طوائف الملوکی اپنے عروج پر رہیں، جس کے نتیجے میں ریاستی ادارے بے وقعت ہوتے گئے، عوام بدحال ہوتے گئے اور اشرافیہ کے کارٹل ہر دور میں بھیس بدل کر نئے نئے گروپ بنا کر پرانے وعدوں کو بنیاد بنا کر اقتدار پر قابض رہے،خدا خدا کر کے 71ء کے الیکشن کے نتیجے میں عوامی دور آیا منتخب حکومت قائم ہوئی، مگر اس آپا دھاپی میں پاکستان دو لخت ہو گیا،مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننابھی اشرافیہ کے کارٹل کے کرتوتوں کا نتیجہ تھا، 73ء کا متفقہ آئین تشکیل پایا تو آئین کے خالقوں نے ہی اپنے اقتدار کے دوام کے لئے ترامیم لانا شروع کر دیں،آج اِس آئین کی جو درگت بنائی جا رہی ہے اِس میں نظریہ ضرورت والی عدالت تو نہیں ہے، مگر اپنے اقتدار کی مضبوطی اور استحکام کا نظریہ آج بھی زندہ ہے،دلچسپ بات یہ کہ آئین کی توڑ پھوڑ میں معاون ہے آئین کی خالق جماعت پیپلز پارٹی۔

قصہ کوتاہ قرض لے کر ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا حکمران جان لیں کہ قرض ترقی اور خوشحالی کو بنیاد فراہم نہیں کرتا،بلکہ قوموں کو غلام بناتا ہے،ملک ہمیشہ بے لاگ آئین کے ذریعے سے مستحکم ہوتے ہیں، قانون کی عملداری ہی استحکام کو جواز دیتی ہے،ریاستی اداروں، آزادی خود مختاری اور عدم مداخلت ہی قوموں کے مسائل کا حل ہوتے ہیں،بے آئین ریاست جنگل ہوتی ہے،لاقانونیت کو جنم دیتی ہے،انصاف سے عاری معاشرے تادیر قائم نہیں رہتے،انتظامی گرفت کمزور ہونے سے ریاست کمزور ہو تی ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -