پاکستان کی مشکلات اور ان کا ممکنہ حل

  پاکستان کی مشکلات اور ان کا ممکنہ حل
  پاکستان کی مشکلات اور ان کا ممکنہ حل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان تین چار برس سے سخت معاشی بدحالی کا شکار ہے، جس اخبار میں آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں، اس  کا حجم پہلے سے ایک تہائی کم ہو چکا ہے۔ اتوار کو جو سنڈے میگزین شائع ہوتا تھا وہ بھی نیٹ پر جا چکا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نیوزپرنٹ اور جس سیاہی سے اخبار چھاپا جاتا ہے اور جو بیرونی ممالک سے منگوائی جاتی تھی، اس کی قیمت بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ پرنٹ میڈیا تمام کا تمام اس صورتِ حال سے گزر رہا ہے۔ اگر آپ کی رسائی نیٹ تک ہے تو آپ اخبارات کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور اگر نہیں تو یا تو اخبار بینی چھوڑ دیں یا جیب کا دباؤ برداشت کرلیں۔ مختلف موضوعات پر پہلے جو رسائل و جرائد بازار میں عام دستیاب ہوا کرتے تھے، وہ اب کہیں نظر نہیں آتے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستانی قوم کے قارئینِ کے لئے رسائل و جرائد و اخبارات کی تعداد کم ہو چکی ہے…… اور یہ صورتِ حال کسی بھی حوالے سے اطمینان بخش نہیں کہی جا سکتی۔

اردو بازار لاہور کا چکر لگائیں یا پاکستان کے کسی بھی شہر میں کتب فروشوں کے مالکان سے بات کریں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ اس شعبے میں کساد بازاری کی کیفیت کیا ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔

گراں فروشی کا مزید اندازہ لگانا ہوتو پرچون فروشوں سے دریافت کرلیں۔جو چیز آج دس روپے کی ہے وہ آنے والے کل یا پرسوں میں بارہ روپے کی ہو جائے گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی برآمدات کم ہو رہی ہیں اور یہی حال آپ کی درآمدات کا بھی ہے۔ درآمدات میں کمی کا سبب، خریداروں کی کمی ہے۔ ٹیکسوں کا بڑا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر پڑ رہا ہے یا ان پر کہ جن کی گزر بسر بندھی ٹکی پنشن پر ہے۔ دکاندار طبقہ اس سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا کہ وہ بازار سے مہنگی چیز خرید کر مہنگے داموں فروخت کر دیتا ہے۔ البتہ وہ طبقہ یہ بتا سکتا ہے کہ پہلے جس جنس کی کھپت روزانہ ایک من ہوا کرتی تھی وہ کم ہو کر 25کلو رہ گئی ہے۔ دال آٹے کا بھاؤ امیر و غریب سب کو متاثرکرتا ہے اور اسی طرح روزمرہ اشیائے صرف کا حال بھی یہ ہے کہ دن بدن ان کی قیمتیں زیادہ ہوتی جاتی ہیں۔کسی کسان سے پوچھ لیں۔ وہ آپ کو پانی، کھاد، بیج وغیرہ کی کمیابی اور گرانی کا رونا روئے گا اور اس کے ساتھ اور تفصیلات بھی بتلائے گا۔ 

امریکہ کی نئی قیادت نے آکر امریکی امداد (Us Aid) ختم کر دی ہے۔ اس بندش کے اثرات پر زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ اس موضوع پر اتنا کچھ لکھا  جا چکا  اور لکھا جا رہا ہے کہ پڑھنے اور دیکھنے والے اسے پڑھ اور دیکھ کر گھبرا اٹھتے ہیں۔ میرے بہت سے عزیز و اقارب امریکہ میں رہتے ہیں۔ان سے بات ہوتی ہے تو وہ بھی یہی رونا روتے ہیں۔ لیکن امریکی اور پاکستانی معیشت میں جو فرق ہے وہ امریکی باسیوں کو ہماری طرح بلبلانے سے ایک حد تک باز رکھتا ہے۔ ان کو شاید یہ اُمید ہے کہ چار برس بعد ٹرمپ کا دور ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد اگر ڈیموکریٹ پارٹی کا صدر آ گیا تو شاید حالات سدھر جائیں۔لیکن پاکستان کی سیاسی حالت تو اگر آج دگرگوں ہے تو آنے والے چار سالوں میں دگرگوں نہیں بلکہ دگرگوں تر ہو جائے گی…… پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ بس اسی غم میں نڈھال ہو رہا ہے کہ اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔ بہت سے لوگ جن کی تعداد لاکھوں میں ہے نقل مکانی کر کے بیرونی ممالک کا رخ کر چکے ہیں۔ یہ خبریں ہم آئے روز پڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے 24،25کروڑ عوام میں کتنے کروڑ باہر جا سکتے ہیں اور باہر جا کر بھی اپنے معاشی دکھوں کا کتنا مداوا کر سکتے ہیں؟

معاشی کساد بازاری کے شانہ بشانہ سیاسی بیزاری بھی چلی جا رہی ہے۔ہم میں سے کسی کو بھی کچھ پتہ نہیں کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔اس بات پر بھی کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ معاشی بدحالی، سیاسی کشمکش کی کوکھ سے پھوٹ رہی ہے یا سیاسی زبوں حالی کا ماخذ کسی معاشی انحطاط کا بالواسطہ نتیجہ ہے۔ پاکستان کو یہ دونوں بیماریاں بری طرح لاحق ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کا علاج کسی حکیم سے کروائیں یا کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں:

بھاگے تھے ہم بہت،سو اُس کی سزا ہے یہ 

ہو کر اسیر، دابتے ہیں راہزن کے پاؤں 

کہا جاتا ہے کہ سیاست، سیاستدانوں کا روگ ہے لیکن اب تو یہ روگ، کوچہء سیاست سے نکل کر فوج کی بیرکوں تک چلا گیا ہے۔ پاکستان میں ایسا کئی بار ہو چکا ہے کہ اس روگ کی کثرت نے فوج کو آواز دی ہے۔ اب بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ سیاستدانوں نے اس مرض کا علاج نہیں ڈھونڈا اور اگرچہ اس بار فوج کو آواز نہیں دی۔ لیکن فوج نے دیکھ لیا تھا کہ وہی پوشیدہ بیماری اور وہی نامحکمی دل کی، پاکستان کے جسدِ نازک کو لاحق ہے جو پہلے چار بار کے مارشل لاؤں سے پہلے لاحق تھی۔ چنانچہ اس کا علاج بھی بقولِ اقبال یہی نکالا گیا کہ ساقی سے کہا جائے کہ آبِ نشاط انگیز کہیں سے پیدا کرے۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان کے مریض کو اس نشاط انگیز پانی کی ضرورت گاہے بگاہے پڑتی رہتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اب پاکستان کی یہ پیاس کب بجھتی ہے، اس کی خبر کسی کو بھی معلوم نہیں۔ 

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

اگرچہ ”برہنہ حرف نہ گفتن کمالِ گویائی“ کی ذیل میں شمار کیا جاتا ہے لیکن حرف و صوت کی برہنگی کب تک چھپائی جا سکتی ہے؟ پاکستانی عوام اس نتیجے کی دید کو ترس رہے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے، وہ جلد از جلد ہو جائے۔برہنگی ہو یا ستر پوشی، اس کا مظاہرہ جلد ہو جانا چاہیے۔ آسان لفظوں میں بتانا مقصود ہو تو کہاجا سکتا ہے کہ ملکی حالات کو زیادہ دیر تک ’گومگو‘ کی کیفیت میں نہیں رکھا جانا چاہیے۔ موجودہ سیاسی بساط کو بھانپ کر کہا جا سکتا ہے کہ شہ کو مات ہونے والی ہے، حکومت ڈانواں ڈول ہے، اس لئے یہ بات خود حکومت کے حق میں ہے کہ جلد از جلد الیکشن کروائے جائیں اور پنجابی محاورے کے مطابق ”کٹی کٹے“ کا فیصلہ کر دینا چاہیے۔یہی ملک کی معاشی بدحالی کا علاج ہے اور یہی سیاسی بے یقینی کا بھی۔

امریکی صدر نے اپنے ہاں جن پاکستانی درآمدات پر 34%ٹیرف (ٹیکس) لگا دیا ہے اس سے آنے والے ایام میں پاکستان کی اقتصادی حالت مزید بگڑ جانے کا خدشہ ہے۔ میں کسی بھی حوالے سے ماہرِ معاشیات نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ ملک کی شمشیروسناں کے استقرار کا دارومدار پاکستانی برآمدات پر ہے۔ پاکستان کی برآمدات زیادہ تر امریکہ جاتی ہیں۔ ظاہر ہے وہ اگر مہنگی ہوں گی تو امریکی خریدار اس کی طرف ملتف نہیں ہوں گے اور اگر یہ برآمدات کم ہوئیں تو پاکستان کو مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔

ہم جو کچھ بیرونی ممالک سے منگواتے ہیں، ان کو گنوانا مقصود نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ ان کو ”سنبھالا“ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی درآمدات اور برآمدات ایک وسیع موضوع ہے۔ اس پر ہمارے میڈیا میں جو کچھ حالیہ ایام میں لکھا جا رہا ہے وہ اگر تشویشناک نہیں تو امید افزاء  بھی نہیں۔ یہ صورتِ حال ملک کی موجودہ معاشی کیفیت کو مزید غیر اطمینان بخش بنا سکتی ہے۔ بظاہر سارے اشاریئے  اس طرف جا رہے ہیں کہ پاکستان کی اقتصادی فضائیں مزید ابرآلود ہونے کو ہیں۔ ہمارے اردو اور انگریزی کے اخبارات میں اقتصادی موضوعات پر جو اعدادوشمار نظر آتے ہیں، وہ پاکستان کے مستقبل کے لئے کوئی اچھی امیدوں کے غماز نہیں۔ القصہ پاکستانی حکومت اور وہ اکابرین جو اس حکومت کی پشت پناہی کر رہے ہیں ان کے لئے بہترین راہِ عمل یہ ہوگی کہ وہ عوامی رائے کا احترام یں اور جتنی جلد ممکن ہو عام انتخابات کی راہ پر گامزن ہونے کی سبیل کریں۔

مزید :

رائے -کالم -