سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو عبرت ناک شکست دے کر بیت المقدس فتح کرکے شہر کا قبضہ حاصل کیا تو کوئی خون خرابہ نہ کیا جس طرح کہ پہلی صلیبی جنگ میں صلیبیوں نے خونریزی کی تھی یعنی خون ریزی صلیبیوں کی سرشت میں شامل ہے بیت المقدس کی فتح کے بعد دنیا کی غیر مسلم طاقتیں یہ سوچنے لگ گئیں کہ مسلمانوں کو شکست کیسے دی جا سکتی ہے کیونکہ کافر جانتے ہیں کہ ایک سچا مسلمان کتنے ہی کافروں پر بھاری پڑتا ہے کافر مسلمانوں کی تاریخ سے واقف ہیں کہ یہ جس طرف بھی چل نکلتے ہیں تو فتوحات کے سلسلے نہیں رکتے کافر جانتے ہیں کہ مسلم حکمران خلعت شاہی میں سکون نہیں پاتے بلکہ درویشانہ لباس میں اطمینان محسوس کرتے ہیں ایک مسلم حکمران اپنی رعایا کی جان و مال کے تحفظ کا خیال رکھتا ہے انصاف کے ترازو میں ہر چیز کو تولتا ہے مسلمانوں کی تاریخ سے کافر واقف ہیں جانتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں کے درباروں یا ان کی عدالتوں میں اگر ایک مسلمان کے مقابلے میں غیر مسلم کے حق میں فیصلہ دینا پڑا تو مسلمان حکمران یا قاضیوں نے فیصلے دیے اور انصاف کی مثالیں قائم کیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا دور خلافت سب کو یاد ہے کہ جب ایک بھوکے خاندان کے گھر آپ نے اپنی پیٹھ پر راشن ڈھویا نہ صرف یہ بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے کھانا پکا کر اس گھر کے بچوں کو کھلایا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے عدل و انصاف کی مثالیں بھی سب جانتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی سرکاری مہر پر لکھا تھا، ”عمرؓ!نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے“۔
مائیکل ہارٹ یہودی مصنف کی ایک کتاب Hundred The میں مصنف نے تاریخِ انسانی کی 100عظیم ترین شخصیات میں سب سے پہلے نمبر پر محسن انسانیت حضور نبی کریم حضرت محمد ؐ کا ذکرِ خیر کیا ہے۔اور حضرت عمر فاروق ؓ کی خدمات کو نمایاں طور پر شامل کیا ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ تھے لیکن ان کی قمیض میں چار پیوند لگے ہوئے تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے اور سلیمان بن عبدالملک کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے۔ ان کی نیک سیرتی کے باعث انہیں پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے جبکہ آپ خلیفہ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں آپکو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ کا غیر مذہب والوں کے ساتھ سلوک مثالی تھا آپ کے دربار میں مسلمانوں کے مقابلے میں عیسائیوں کے حق میں فیصلے دئیے گئے جو قرآن کریم کے مطابق ہوتے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دربار میں بولنے کی مکمل آزادی تھی عمر بن عبدالعزیز نے مدینہ کی گورنری صرف اس شرط پر قبول کی کہ وہ اس سے پہلے حکمرانوں کی طرح اپنی رعایا پر ظلم زیادتی نہیں کریں گے۔
مسلم حکمرانوں کے عدل انصاف کی مثالیں دنیا کی تاریخ میں ایسی سنہری مثالیں ہیں کہ جن کا اعتراف نہ صرف مسلمان بلکہ کافر بھی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد دنیا کے کافروں نے اس بات پر غور و خوض شروع کیا کہ مسلمانوں کو کس طرح دام میں لایا جا سکتا ہے کافروں کو معلوم تھا کہ مسلمان تلوار یا کسی دوسرے طریقے سے جھکنے والے نہیں مسلمانوں کے بارے معلوم کرنے کے لیے جب کافروں نے سر جوڑے تو انہیں بتایا گیا کہ مسلمان رات کو خدا کے آگے سر بسجود ہوتے ہیں رات بھر یہ خدا کی عبادت کرتے ہیں اور دن چڑھتے ہی جنگ کے میدانوں میں تلواریں لیے آ نکلتے ہیں ایسے مسلمانوں کو شکست دینا کافروں کے بس کی بات نہیں تھی کافروں نے مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے جو تدابیر اختیار کیں ان میں ایک تو یہ تھی کہ مسلمان حکمرانوں کو راہ راست سے بھٹکا دیا جائے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئے مسلمانوں کو انہوں نے دنیاوی حرص و ہوس میں لگا دیا اس کے لیے کافروں نے صدیوں محنت کی کافروں نے وقت کے تقاضوں کو سمجھا محنت کو اپنا شعار بنایا تحقیق کی زمین و آسمان کے علوم حاصل کیے سائنس میں ترقی کی نت نئی ٹیکنالوجی کو ایجاد کیا اور ایک طویل محنت کے بعد کافر اس مقام پر پہنچ گئے کہ وہ مسلمانوں کو شکست دے سکیں کافروں نے مسلمان حکمرانوں کو کبھی خوف سے مرعوب تو کبھی دنیا کی چکا چوند سے تسخیر کرلیا کافروں نے ترقی میں حیرت انگیز کمالات دکھائے مسلمان رہے صرف امن اور بھائی چارے کی باتیں کرتے اور کافر ان کے مقابلے میں ترقی کرتا گیا اور ترقی کرتا ہوا وہ اس نہج پہ پہنچ گیا جہاں اسے اپنے مقابلے میں مسلمان بہت کمزور نظر آنے لگے یہی وجہ ہے کہ کافروں نے دنیا بھر میں جب جہاں چاہا مسلمانوں پر آگ اور بارود برسا دیا امریکہ نے عراق پر جو بہانا تراش کر چڑھائی کردی تھی عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد امریکہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اسے عراق سے کچھ نہیں ملا لیکن امریکہ کو یہ بات پوچھنے والا کوئی نہ تھا کہ اس نے ایک ملک کو ملیا میٹ کیوں کر دیا۔
فلسطین کی گلیوں میں ایک طویل عرصہ سے خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے بچوں سے لے کر خواتین تک جوانوں سے لے کر بوڑھوں تک جب جہاں چاہتے ہیں فلسطینیوں کو ان کی گلیوں میں گولیوں اور گولوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیاجاتا ہے اب تقریباً ایک سال ہونے کو آرہا ہے۔ اسرائیل معصوم فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کر رہا ہے تو دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک امریکہ برطانیہ فرانس سب عملی طور پر اسرائیل کے ساتھ جا کھڑے ہوئے ہیں امریکہ نے مشرق وسطی میں اپنے بحری بیڑے بھیج دیئے اور دھڑا دھڑ جدید ترین اسلحہ اسرائیل منتقل کرنا شروع کر دیا تاکہ مسلمانوں کا قتل عام کیاجا سکے۔ اسرائیلیوں نے کوئی پناہ گزین کیمپ نہیں دیکھا کوئی مسجد چرچ نہیں دیکھا ہجرت کرتے ہوئے مسلمان نہیں دیکھے ہسپتال سکول ہر جگہ دنیا کے قانون کو پامال کرتے ہوئے فلسطینیوں پر بم برسا دئیے گئے دنیا سراپا احتجاج رہی عالمی عدالت کے فیصلے کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا کسی مذمت کسی قرارداد کی پرواہ کیے بغیر یہودی مسلمانوں کو شہید کرتے رہے ایک تنظیم حماس اپنے لوگوں کا دفاع کرنے میں مصروف رہی یہودیوں نے حماس کے رہنماؤں کے قتل عام میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور مسلمان صرف مذمتوں تک محدود رہے کہ مسلمان اس سے آگے کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے مسلمان دنیا کی طاقتوں کے خوف میں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ جن سے آزاد ہونا ان کے لیے مشکل نہیں تقریباً ناممکن ہو چکا ہے ہر طرح کے وسائل سے مالا مال امت مسلمہ فلسطینی بچوں خواتین جوانوں بوڑھوں کو مرتے دیکھتی رہی غزہ۔کی۔گلیوں میں روزانہ ہی کربلائی مناظردیکھنے کو ملے لیکن عملی طور پر ان کے لیے کچھ نہ کر سکے تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت امت مسلمہ کے دلوں پر چوٹ کرگئی ہے لیکن اسرائیل نے چھوڑا کسے ہے؟ نہ وہ کسی کو چھوڑنا چاہتا ہے ستم بالائے ستم اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد امریکہ نے واضح کردیا کہ اسرائیل پر حملے کی صورت میں وہ اس کا دفاع کرے گا اس لئے عالم اسلام کے پاس اب سوائے اسکے کوئی صورت نہیں کہ وہ سائنس اور نئی ٹیکنالوجی میں ترقی کرے اپنا پر امن ایٹمی پروگرام شروع کردیں یا پھر ہمیشہ کے لیے امریکی اور اسرائیلی بدمعاشیاں قبول کر لیں۔