باطل سے کیوں ڈرتے ہو؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے میں نے انہی صفحات میں عرض کیا تھا کہ وہ بہت زیادہ متلون مزاج ہیں اور ان سے کسی بھی قسم کے اقدام کی توقع کی جا سکتی اور یہ بھی ان کی پروفائل کا حصہ ہے کہ ان کے داماد یہودی اور اسرائیلی ہیں، جبکہ خود ان کامیلان بھی اسی طرف ہے اس لئے ان کی حرکات سے کسی کو کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے اب جو انہوں نے غزہ کے بارے میں کہا وہ بھی کوئی حیرت انگیز نہیں ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ ڈونلد ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے حلف اٹھانے سے پہلے پہلے غزہ میں جنگ بند ہونا چاہیے ورنہ وہ حشر کر دیں گے اور اس حشر کا مخاطب اسرائیل نہیں، حماس کی تنظیم ہے جسے ختم کرنے کا اب پھر اعادہ کیا گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں اور وہ ڈکٹیٹ ساری دنیا کے ممالک کو کرا رہے ہیں ان میں حریف اور حلیف دونوں طرف کے ملک شامل ہیں۔ ٹرمپ نے پوری دنیا کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا وہ ایک بھتہ خور والا ہے اور پہلابھتہ اس کی طرف سے حجاز مقدس کے متولیوں سے وصول کرنے کا کہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی ولی عہد پرنس محمد سے یہ توقع کی ہے کہ وہ ٹریلین ڈالرز کی سرمایہ کاری چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے فی الحال ملینز میں وعدہ کیا گیا ہے لیکن حالات ایسے ہی رہے تو مملکت سعودیہ کو بھی سرمایہ کاری کا یہ مطالبہ پورا کرنا پڑے گا کہ خود سعودی حکومت نے امریکہ کو اڈہ بنانے کی اجازت دی اور اسی بل بوتے پر ایک بار ٹرمپ نے دھمکی بھی دی تھی، اب صورت حال زیادہ تشویشناک ہے کہ امریکی صدر زیادہ پر پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے غزہ پر امریکی قبضے کے اعلان کے ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیا کہ مصر اور اردن فلسطینیوں کی آباد کاری کے لئے تیار ہیں اور سعودی عرب بھی راضی ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرے گا، قارئین کرام! یہ سب ہمارے لئے تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہیے کہ یہ خود ہمارے نصیبوں کا لکھا اور کرموں کا پھل ہے، دنیا میں مسلم امہ واحد امت ہے جسے پندرہ سو سال پہلے آگاہ کر دیا گیا تھا اور یہ آگاہی اس لئے تھی مسلمان سنبھل کر رہیں، دوسری صورت میں کفار کا غلبہ ہوگا، آج جو کچھ نظر آ رہا ہے احادیث کی روشنی میں یہ سب روز روشن کی طرح واضح ہے اور جوں کا توں ہو رہا ہے۔ یہ ہماری اپنی کوتاہی اور بے عملی ہے کہ مستقبل کا واضح نقشہ ہوتے ہوئے بھی ہم ان امور پر عمل نہیں کرتے جو ہمارے لئے واضح احکام کی صورت میں موجود ہیں، ہم ہیں کہ مختلف قسم کی برائیوں میں ملوث ہیں حتیٰ کہ ایک اللہ، ایک قرآن اور ایک رسولؐ کے ہوتے ہوئے بھی ہم مسالک میں بکھرے ہوئے مختلف رویے اپنائے چلے گئے۔ یہ مسالک کی لڑائی تو بالکل ہی نہیں ہونا چاہیے کہ سب مانتے ہیں کہ ایسافتنہ ایسے انسان کی طرف سے بھی ہوا جو ان سانپوں کو دودھ پلا پلا کر پالتا رہا، تاہم اللہ کے کرم سے بحث ہوتی رہی۔
مجھے افسوس ہے کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی فرامین رسولؐ اکرم کو بھلا بیٹھے ہیں، ورنہ وہ کون سا مسئلہ ہے جس کے بارے میں ہمیں پہلے سے آگاہ نہ کیا گیا ہو، حتیٰ کہ قرآن حکیم میں بھی ہمارے لئے بہت کچھ ہے۔ ضرورت عمل کی ہے جو نہیں ہو رہا، قرآن کو پڑھنا اور پھر سمجھنا ایک طرف ہم نے تو اسے تاک کی زینت بنا کر رکھ لیا ہے۔ اب تو او آئی سی پر لازم آ گیا ہے کہ وہ فوری طور پر اجلاس بلا کر ڈونلڈٹرمپ کو جواب دیں، ایک دین دار مسلمان کا کہنا ہے کہ اللہ نے موت کا دن متعین کر رکھا ہے تو ہم پھر موت سے خائف کیوں ہیں، کیا ہم نے عمر پٹہ لکھوا رکھا اور دنیاوی ہتھیاروں کے سامنے بے بسی ظاہر کر رہے ہیں، مسلمانوں کو خائف ہونے کی کیا ضرورت ہے جب مرنا تو ایک دن ہے ہی، چلو اس طرح اللہ کی راہ میں جہاد کا اعلان کرکے شہادت ہی قبول کرلیں۔ اگر مسلم امہ متحد ہو کر جواب میں اصولی طور پر سخت موقف اختیار کرے تو ٹرمپ کیا کرے گا؟ اگرحملہ کرے تو جواب کے لئے بھی تیار ہونا چاہیے اول تو امیر مسلم ممالک کو معیشت کا ہتھیار استعمال کرنا ہوگا کہ اس سے زیادہ بہتر افاقہ ہوگا، پہلا قدم اسرائیل کا مکمل بائیکاٹ ہونا چاہیے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم خود متحد نہیں اور دوسرے دنیاوی طور پر اللہ کو فراموش کئے ہوئے ہیں ورنہ قرآن حکیم میں تو تاریخی واقعات کا ذکر بھی موجود ہے اور ہم مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس جہاں میں فرعون بھی تھا، تیر چلا کر اللہ (نعوذباللہ) کو شکار کیا کرتا تھا اور اللہ کی طرف سے بھی یہ اہتمام کر دیا جاتا کہ کوئی جانور زد میں آجاتا اور خون ٹپکتا مل جاتا، پھراسی اللہ نے اس فرعون کا کیا حال کیا اس کی اور اس کی افواج کی اموات ہوئیں اور پھر اللہ نے اس کی لاش بھی باہر نکال دی کہ آنے والے نصیحت حاصل کریں، فرعون ایک ممی کی شکل میں آج بھی نشان عبرت ہے ہمیں قرآن اور فرامین رسولؐ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔
یہ حالات دنیا اور حاضرہ ہیں جو عرض کر دیئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچویں بڑے ملک میں ردعمل کیا ہے کیا ہم نے آخرت کے لئے کوئی تیاری کی ہے یا ہم مسلم دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو تیار پاتے ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے، ہم بھی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مذہبی طور پر ہی تفریق نہیں، ہم سیاسی افراتفری میں بھی مبتلا ہیں بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ ہم بھی مختلف سیاسی مخالفین میں بٹے ہوئے ہیں اور ایسی دوری پر ہیں کہ ایک دوسرے سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے، یہ عمل اللہ اور اس کے رسول ؐکی تعلیمات اور ہدایات کے الٹ ہے اس لئے ہم پر بھی اثر نہیں ہوتا، ہمارے سیاسی بھائیوں کی حکمت عملی پر بھی رشک آتا ہے تحریک انصاف نے 8فروری کا دن ”یوم سیاہ“ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اتفاق ہی ہے کہ اسی روز سے لاہور میں سہ فریقی کرکٹ ٹورنامنٹ ہو رہا ہے اور نیوزی لینڈ کے علاوہ جنوبی افریقہ کی ٹیم بھی آ چکی، ایک عجیب سی کیفیت بن گئی ہے،چلیں مان لیں یہ دن انتخابی عمل والے روز کی مناسبت سے منایا جا رہا ہے،لیکن یہ جو اعلان 19فروری کو لانگ مارچ کا ہے اسے کس کھاتے میں ڈالیں گے کہ اس روز کراچی میں چیمپئن ٹرافی کا افتتاحی میچ ہونا ہے ان مواقع پر احتجاج خود تنقید کا سبب بن گیاہے اور خواجہ آصف کی طرف سے مذمت کے ساتھ مزید الزام لگانا یہ سب سبوتاژ پروگرام ہے کہ چیمپئن ٹرافی ملک میں نہ ہو۔