پیکا ایکٹ اور بکھری ہوئی صحافتی تنظیمیں

آج کل کراچی سے خیبر تک تمام صحافی پیکا قانون کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پیکا قانون فیک خبر،یعنی جھوٹی خبر پر سزا دینے کے لئے بنایا گیا ہے عام آدمی جو بہت سی باتیں نہیں جانتا وہ حیرانی کا اظہار کرتا ہے کہ صحافی کیا جھوٹی خبر کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔عام آدمی اِس بات پر بھی حیران ہے کہ مظاہروں کا مقصد ایک ہے،لیکن صحافیوں کے متعدد دھڑے اس ایک مشترکہ مسئلے پر بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکے اور ہر دھڑا اپنے چند پیروکاروں کے ہمراہ شور مچا رہا ہے،جن کے خلاف یہ مظاہرے ہو رہے ہیں وہ یقینا بہت مزے میں ہوں گے اور آخر کار اپنی پسندکے دھڑے کے ساتھ کوئی انڈر سٹینڈنگ کر کے پیکا پر صحافیوں کی حمایت کی مہر لگوا کر ہر قسم کے احتجاج کا گلا گھونٹ دیں گے۔
پیکا ایکٹ منظور ہو جانے کے بعد لاہور میں صحافیوں نے دو جگہ پر احتجاج، ایک دھڑا چیئرنگ کراس پر پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج، تقریریں اور نعرے بازی کر رہا تھا تو دوسرے دھڑے نے پریس کلب کے باہر سڑک روک کر احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، جس میں وکلاء، تاجر رہنماؤں اور سماجی کارکنوں سے بھی پیکا ایکٹ کے خلاف تقریریں کرائی گئیں، ہر کسی نے یہی کہا کہ ہم اِس کالے قانون کے خلاف صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، لیکن میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ اِن لوگوں اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے پیکا ایکٹ پڑھنا تو درکنار اسے دیکھا تک نہیں ہو گا۔اس مظاہرے کے بعد ایک دھڑے نے اگلے لائحہ عمل کے لئے مشاورتی اجلاس شروع کر دیئے اور دوسروں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گروپوں میں ریلیاں نکالنا شروع کر دیں،ایک وقت وہ تھا کہ ہم نے دیکھاکہ صحافی اگر باہر نکلتا تھا تو مقتدر حلقوں میں پریشانی کے آثار نمایاں ہوتے تھے،لیکن دلچسپ بات ہے کہ ابھی تک کسی مقتدر حلقے نے اِن ریلیوں اور مظاہروں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
یہاں یہ ذکرکرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ پیکا ایکٹ چند گھنٹوں میں نہیں بنا اِس ایکٹ پرکام2013ء سے شروع تھا اور2024ء میں جب اس پر تیزی سے کام شروع ہوا تو سب جانتے تھے کہ ایک قانون آ رہا ہے لیکن تب صحافتی لیڈروں نے اسے کوئی لفٹ نہیں کرائی،جب یہ قانون اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو گیا تو سب احتجاج پر اُتر آئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جب قانون صدر کے دستخطوں کے بعد باقاعدہ لاگو ہو چکا ہے اور پاکپتن میں ایک صحافی کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمہ درج کر کے گرفتار بھی کر لیا گیا ہے تو لاگو ہو جانے والے قانون کو ریورس گیئر کیسے لگے گا۔اب صحافی اسلام آباد میں دھرنا دینے کا منصوبہ بھی بنا رہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ دھرنا بھی الگ الگ دیں گے یا گروپ کی صورت میں۔
میں سمجھتی ہوں کہ یہ قانون حکومت کو یو ٹیوبرز کی وجہ سے بنانا پڑا، کیونکہ اخبارات اور ٹی وی چینلز تو کمرشل ہو چکے ہیں وہ اپنے مفادات کے لئے حکومتی مفادات کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں آج سے دو دہائیاں پہلے کی بات کرنا چاہتی ہوں جب نہ الیکٹرانک میڈیا تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا، صرف اخبارات تھے جن کے ایڈیٹرز ہوتے تھے جن کا کام ہی غلط خبروں کو روکنا اور سچی خبروں کو منظر عام پر لانا ہوتا تھا پھر اخبارات کمرشل ہونا شروع ہو گئے اور ایڈیٹر کی طاقت ختم ہو گئی اور یہ طاقت بزنس منیجروں کے پاس چلی گئی۔پرنٹ میڈیا کا بیڑہ غرق کرنے والے صحافی نہیں ہیں،بلکہ غیر صحافی ورکر اور شعبہ اشتہارات ہیں جو ایڈیٹرکی بجائے ہر خبر کے متعلق خود فیصلہ کرنے لگے، ہر بڑی پارٹی اور بڑے بزنس مین کے خلاف خبر ممنوع ہو گئی اور اخبارات خبروں سے خالی اور اشتہاروں سے بھرنے لگے۔الیکٹرانک میڈیا اپنے عروج پر آیا تو وہاں بھی یہی روش چل نکلی اور عوام کو وہاں سے بھی صرف چینل کے کرتا دھرتاؤں کی مرضی کی خبریں ملنے لگیں۔ایک چینل کے مالک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم تو کاروبار کرتے ہیں۔
عوام کو اب اصل خبروں کی تلاش تھی تو انہوں نے سوشل میڈیا کا رُخ کر لیا، کچھ عرصے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی مفاد پرستوں نے کنٹرول کر لیا اور ان کے خریدے ہوئے یوٹیوبرز ان کی مرضی کی چیزیں دینے لگے، کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کھلی چھٹی مل گئی اور پھر ان لاکھوں یوٹیوبرز نے پورے معاشرے کو انارکی کی طرف دھکیل دیا۔پیکا ایکٹ اصل میں اُن کے لئے ہی بنایا گیا ہے، کیونکہ حکومت انہیں اشتہارات کے بل پر کنٹرول نہیں کر سکتی۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر ممالک سے چلائے جانے والے یو ٹیوب چینل کیسے کنٹرول کیے جائیں گے یہ سوچنا حکومت کا کام ہے۔ ہم بات کر رہے تھے صحافیوں کے احتجاج کی تو میں سمجھتی ہوں کہ ایکٹ تو ختم نہیں ہو سکتا لیکن اگر صحافی ایک پلیٹ فارم پر ہوں تو اس ایکٹ میں کچھ ترامیم ضرور کرا سکتے ہیں،لیکن اِس قدر بکھری ہوئی صحافتی تنظیموں کی وجہ سے حکومت مزے میں ہے اور چھوٹے چھوٹے احتجاجوں کو وہ کوئی وزن نہیں دے رہی۔
٭٭٭٭٭