پی ٹی آئی کی سیاست؟؟؟

عمران خان جیل میں ہیں، قید ہیں، باہر نہیں آ سکتے۔ جس طرح شیر کو پنجرے میں بند کردیا جائے تو اس کی ساری طاقت بے سود ہو جاتی ہے اسی طرح لیڈر کو جیل میں ڈال دیا جائے تو اس کی مقبولیت زائل ہو جاتی ہے۔ جیسے لوگ پنجرے میں قید شیر کو دیکھنے آتے تو ہیں مگر اس کو پنجرے سے باہر نہیں دیکھنا چاہتے ہیں، اسی طرح فتنہ و فساد پر آمادہ لیڈر کو لوگ جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں، جیل سے باہر نہیں دیکھنا چاہتے۔ لوگ ملک میں معیشت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، مہنگائی میں کمی اور روزگار چاہتے ہیں اور جمہوری نظام میں جس کی ایک ووٹ کی بھی اکثریت ہواس کی حکومت ہوتی ہے۔ اس لئے جونہی کوئی سیاسی جماعت اپنی اکثریت ثابت کرتی ہے لوگ اس کو ٹیسٹ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اب لوگ نون لیگ کی اتحادی اکثریت کو تسلیم کر کے اس کی کارکردگی کو ٹیسٹ کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ سمجھتے ہیں کہ ایک دن ضرور ڈونلڈ ٹرمپ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر عمران خان کو رہا کروائیں گے اور پھر میدان میں مقابلہ ہوگا۔ یہ الگ بات کہ جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے میں نون لیگ کی جانب سے معاشی محاذ پر کئے جانے اقدامات کے نتیجے میں عوام کی توجہ عمران خان سے ہٹتی جا رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ بلاول بھٹو نے اپنے کارڈ کھیلنا شروع کر دیئے ہیں۔ ان کا حالیہ دورۂ امریکہ اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتی ہے، یقینی طور پر آنے والے دنوں میں ملک کا سیاسی منظر نامہ بدلا ہوا پایا جائے گا۔
پی ٹی آئی کو ایک کریڈٹ تو جاتا ہے کہ ابھی تک اس میں کوئی فارورڈ بلاک سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس کے حصے بخرے ہوئے ہیں۔ یہ پارٹی ابھی تک اپنی ہیئت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ اس پارٹی کو جھوٹی مقبولیت دلوانے والی قوتیں اس کا سبب ہوں جنھوں نے عدلیہ اور میڈیا میں اس انداز سے انوسٹمنٹ کی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے میڈیا جغادری اور جج ایک ایک کرکے ایکسپوز ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ گزشتہ انتخابات میں بھی ان قوتوں نے اپنا کھیل رچایا ہو کیونکہ انتخابات کے بعد کمشنر راولپنڈی نے دھاندلی کا الزام سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر عائد کرکے دھماکہ کر دیا تھا مگر پھر اسٹیبلشمنٹ نے فوری کاروائی کرکے اس فتنے پر قابو پایا تھا۔ اس الزام کا مقصد بھی انتخابات کو متنازع بنا کر ملک میں ایک ایسی فضا قائم کرنا تھا جس کا مقصد افراتفری اور انارکی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اب اگر کمشنر راولپنڈی اس منصوبے کا حصہ ہو سکتا تھا تو کمشنر فیصل آباد، لیہ، بھکر، ڈی جی خان، شیخوپورہ اور گوجرانوالا کیوں نہیں ہو سکتے،جہاں سے پی ٹی آئی کو جیت اور نون لیگ کو شکست ہوئی تھی۔ اگر پی ٹی آئی ان علاقوں میں اتنی ہی مقبول تھی تو پی ٹی آئی کی جانب سے بار بار پنجاب میں دھرنے اور لانگ مارچ کی کال ناکام نہ ہوتی۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ ایسی نادیدہ ملکی اور غیر ملکی قوتیں پاکستان میں انارکی پھیلانے کے لئے متحرک تھیں اور متحرک ہیں جن کے نوازے ہوئے آفتاب اقبال، معیدپیرزادہ، عمران ریاض، صابر شاکر اور سمیع ابراہیم جیسے کئی الیکٹرانک میڈیا کے چمپیئن اس وقت بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ میں مصروف ہیں۔ اس صورت حال میں اگر پی ٹی آئی ابھی تک ایک نظر آتی ہے اور اس کے لیڈر شور مچاتے پائے جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کینسر کے جرثومے ابھی پوری طرح سے کھرچے نہیں جا سکے۔
یہ ان پس پردہ کارفرما قوتوں کی ہی کارستانی ہے کہ پی ٹی آئی کے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی رہائش گاہ پر مولانا فضل الرحمٰن اور شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کو ایک نئے سیاسی اتحاد کا رنگ دے دیا گیا اور میڈیا نے شور مچانا شروع کر دیا کہ حکومت مخالف وسیع الجماعتی اتحاد نے حکومت سے مستعفی ہو کر نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ صاحبزادہ حامد رضا نے اس کو بلاک بسٹر قرار دے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ وہ تو بھلا ہو شاہد خاقان عباسی کا انہوں نے کہا کہ ابھی تک کوئی اتحاد تشکیل پایا ہے اور نہ کوئی مطالبہ کیا گیا ہے۔میٹنگ کے اختتام پر انہوں نے جو اعلامیہ پڑھا اسے مطالبات کا رنگ دینے کی کوشش کی مگر شاہد خاقان عباسی نے واضح کیا کہ وہ کوئی مطالبہ نہیں تھا بلکہ میٹنگ میں جو کچھ ڈسکس ہوا، اس کا اظہار تھا۔ یہ سن کر میڈیا کے جغادریوں کی جانب سے مچایا جانے والا شور تھم گیا۔ اس سے قبل عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو لکھے جانے والے فرضی خط پر بھی ایسا ہی شور مچانے کی کوشش کی گئی تھی مگر پھر عسکری ذرائع نے واضح کردیا کہ انہیں نہ تو ایسا کوئی خط ملا ہے اور نہ ہی اسے پڑھنے میں انہیں کوئی دلچسپی ہے اور یوں یہ پراپیگنڈہ بھی جھاگ ثابت ہوا۔
دیکھا جائے تو پی ٹی آئی شروع دن سے ایسی گھٹیا سیاسی چالیں چل رہی ہے جن کا مقصد سادہ لوح عوام کے ذہنوں کو مفلوج کرکے اپنے مفادات حاصل کرنا ہے۔ ممکن ہے کہ ایسا ہو بھی جاتا مگر پھر جنرل باجوہ نے جنرل فیض حمید کا ساتھ دینے سے انکار کردیا اور یوں ہر شے کھل کر عوام کے سامنے آگئی۔ اب ایک ایک کرکے ہر قلعی کھلتی جا رہی ہے اور وہ وقت دور نہیں ہے جب ملک میں دوبارہ دو جماعتی نظام کا بول بالا ہوگا جو پارلیمانی نظام کا خاصہ ہوتا ہے اور پیپلز پارٹی کو وفاق کی سطح پر ویسے ہی پرفارم کرنا پڑے گا جس طرح سندھ میں کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔