اقبالؒ اور مابعد الطبیعات

حضرتِ اقبال نے 1907ء (یا 1908ء) میں اپنا جو مقالہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لئے میونخ یونیورسٹی (جرمنی) میں پیش کیا تھا اس کا عنوان تھا:
Development of Metaphysics in Persia
یہ مقالہ انگریزی زبان میں تھا لیکن اس کا کوئی اردو ترجمہ مارکیٹ میں دستیاب نہ تھا۔1936ء میں حیدرآباد دکن سے اس کا ترجمہ ”فلسفہء عجم“ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اس وقت حضرتِ علامہ زندہ تھے۔ انہوں نے یہ ترجمہ دیکھ کر فرمایا تھا: ”اسے شائع کرنے کی اجازت ہے لیکن اس مقالے میں اب بہت سی معلومات کا اضافہ ہو چکا ہے اور جرمن زبان میں غزالی اور طوسی وغیرہ پر بہت سی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جو میری تحریر کے وقت موجود نہ تھیں“۔…… یہ ترجمہ میر حسن الدین، بی اے، ایل ایل بی نے کیاتھا جو خاصا ادق اور مشکل اردو فارسی الفاظ و تراکیب سے لبریز تھا۔ چنانچہ اسے عام فہم بنانے کے لئے راقم السطور نے 2022ء میں اس کا ترجمہ (اردو میں) کیا تھا جو ”لاہور بک سٹی“ کی طرف سے شائع کیا گیا تھا۔ اس ترجمے کا تعارف پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب نے لکھا تھا تاہم بعض قارئین نے فون کرکے پوچھا کہ ”ما بعدالطبیعات“ کا مفہوم کیا ہے، لہٰذا ان کی خدمت میں، ذیل کی سطور میں، لفظ "Metaphysics" کی تشریح پیش ہے:
مابعد الطبیعات کیا ہے؟
مابعدالطبیعات، انگریزی لفظ میٹافزکس (Meta Physics) کا اردو ترجمہ ہے۔ میٹا (Meta) کا مطلب ہے دور یا پَرے…… یعنی جو چیز فزکس سے پَرے یا دور ہو وہ میٹا فزکس یا مابعد الطبیعات کہلاتی ہے۔ میٹا فزکس، علمِ فلسفہ کی ایک اہم شاخ ہے جو ان سوالات پر غور کرتی ہے جن کا کوئی جواب فزکس یا طبیعاتی علوم نہیں دے سکتے۔ ذرا سا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ایسے بہت سے سوال ہیں جن کا جواب طبیعاتی علوم کے پاس نہیں۔ مثلاً یہ کائنات جس میں ہم بس رہے ہیں، اس کا خالق کون تھا، یہ کیسے وجود میں آئی، کیا کوئی شے خود بخود بھی وجود میں آ سکتی ہے، انسان مرتا کیوں ہے، مرنے کے بعد کہاں چلا جاتا ہے،کیا مرنے کے بعد انسان دوبارہ زندہ ہو سکے گا، تقدیر کیا چیز ہے، ہماری قسمتیں کون لکھتا ہے، وقت کیا ہے اور آیا زمان و مکان میں کوئی تعلق ہے یا نہیں ہے، انسانی سوچ کیا ہے، ذہن اور دماغ کا باہمی تعلق کیا ہے، فرشتے، جنات اور حور و غلماں نظر نہیں آتے اور نہ ہی دوزخ اور بہشت دکھائی دیتے ہیں وہ اگر ہیں تو کہاں ہیں، کائنات اور اس کا خالق اور پھر اس خالق کا خالق اور پھر…… یہ سلسلہ کہاں جا کر رکتا ہے اور یہ ساری باتیں ہمارے ذہنوں میں کون ڈالتا ہے…… علی ہذالقیاس…… اس طرح کے اَن گنت سوال ہیں جن کا کوئی کافی و شافی جواب کوئی بھی سائنس نہیں دے سکتی۔ انہی سوالوں کا جواب ڈھونڈنے، ان پر بحث و مباحثہ کرنے اور ان پر غور و فکر کرنے کے علم کو علمِ مابعد الطبیعات کہا جاتا ہے۔
دنیا کے مختلف ادیان و مذاہب بھی ان سوالوں پر بحث کرتے اور ان کا جواب دیتے رہے ہیں۔ مذہب، خالقِ کائنات کا تعارف کرواتا اور انسانوں کو کائنات کا مقصد و مدعا فراہم کرتا ہے۔ جھوٹ کیا ہے، سچ کیا ہے، صراطِ مستقیم کیا ہے، فرشتے اور دیگر آسمانی مخلوق کیا ہے، کائنات کیسے وجود میں آئی، ان تمام سوالوں کا جواب مذہبی کتب میں مل جاتا ہے جو مختلف زمانوں میں خدا کے فرستادہ پیغمبروں پر بذریعہ وحی نازل کی گئیں اور ان کو ہدایت کی گئی کہ وہ بنی نوعِ انسان کو ان امور و معاملات کی آگہی دیں۔ چونکہ خدا ایک ہے اس لئے اس نے اپنے چنیدہ اور برگزیدہ انسانوں (رسولوں اور پیغمبروں) پر بذریعہ جبرئیل جو وحی نازل فرمائیں ان کا متن ایک ہی تھا۔ یہ اور بات ہے کہ مرورِ ایام سے ان کتابوں میں تحویلیں ہوتی رہیں اور پھر جب آخری رسولِ خدا حضرت محمد مصطفی صلہ اللہ علیہ وسلم کا دور آیا تو یہ تمام مباحث، پند و نصائح، ہدایات و روایات بعض صحابہؓ کرام نے حفظ کر لیں اور ان کو حفاظ کہا گیا۔ علاوہ ازیں انسانی علوم نے بھی اتنی ترقی کر لی کہ یہ سب کچھ ورطہء تحریر میں لانا بھی ممکن ہو گیا۔ چنانچہ مابعد الطبیعات کے کئی مسائل آسمانی صحیفوں اور کتابوں میں ڈسکس کرکے ان پر کوئی حکم لگایا گیا یا کوئی فیصلہ صادر فرمایا گیا تو وہ خدا کا فیصلہ اور حکم ہی تھا۔ تاہم انسانی اذہان کے شکوک پھر بھی رفع نہ ہو سکے اور آج تک بعض موضوعات ”تصفیہ طلب“ چلے آتے ہیں۔ کوئی سائنس ان کا جواب نہیں دے سکتی۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ انسان فزکس کے علوم میں جتنی ترقی بھی کر لے، میٹافزکس کے گرداب میں سرگرداں رہے گا۔ میں گنہ گار اگرچہ اس موضوع پر کچھ کہنے کی جسارت اور جرأت نہیں کر سکتا تاہم میرا خیال ہے کہ منشائے ایزدی یہی ہے۔
دنیا کی مختلف زبانوں کے شعر و ادب میں بھی مابعد الطبیعاتی مسائل کا ذکر موجود ہے۔ اردو، فارسی اور انگریزی کے علاوہ ہر زبان کی شاعری میں بالخصوص مابعد الطبیعاتی مباحث کے اشعار کا ایک بڑا انبار پایا جاتا ہے۔ ہم نہائت اختصار کے ساتھ چند شعراء کا ذکر کرتے ہیں:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارِگہِ شیشہ گری کا
(میر)
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
(غالب)
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل تو ہے کہ جہاں تو سما سکے
جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
(میر درد)
فارسی شاعری تو مابعدالطبیعاتی موضوعات سے لبالب بھری ہوئی ہے۔ جتنا کچھ فارسی شعرا نے اس موضوع پر کہا ہے اس کا عشرِ عشیر بھی کسی اور زبان میں نہیں ملتا۔ رودکی سے لے کر ملا جامی تک سب شعرا نے لاتعداد مابعد الطبیعاتی اشعار کہے ہیں۔اقبال نے اپنے اسی مقالے میں ایک بہت پتے کی بات کہی ہے کہ ایرانی ذہن کی بو قلمونی اور رنگارنگی فارسی شعراء کی غزلیات کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فارسی غزل کا ہر شعر ایک الگ موضوع کا حامل ہوتا ہے۔ اگر مسلسل ایک موضوع ہو تو اسے غزلِ مسلسل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی یا رباعی وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر فارسی شعرا کا کلام ان کی غزلوں کے دواوین میں ملتا ہے۔ حضرت علامہ کے الفاظ یہ ہیں: ”ایرانیوں کا تتلی کا سا بے تاب تخیل گویا ایک نیم مستی کے عالم میں ایک پھول سے دوسرے پھول کی طرف اڑتا پھرتا ہے اور وسعتِ چمن پر بہ حیثیتِ مجموعی نظر ڈالنے کے ناقابل نظر آتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کے گہرے سے گہرے افکار اور جذبات غیر مربوط اشعار (غزل) میں ظاہر ہوتے ہیں جو اس کی فنی لطافت کا آئینہ ہیں“۔
شبلی نعمانی نے اگرچہ اپنی کتب (علم الکلام اور شعر العجم حصہ چہارم) میں فارسی شاعری کی شعری خصوصیات پر بہت دلآویز بحیثں کی ہیں لیکن ان میں فارسی شعر پر مابعد الطبیعاتی اثرات کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ البتہ احمد جام کی ایک غزل ایسی ہے جسے سراسر میٹافزکس کے معاملات و موضوعات پر ایک بھرپور تبصرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلع ہے:
منزلِ عشق از مکانے دیگر است
مردِ معنی را نشانے دیگر است
اسی غزل کا ایک اور مشہور شعر روح کی حقیقت اور اس کی آمد و شد کے سلسلے میں مابعد الطبیعات کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس شعر کے بارے میں روائت مشہور ہے کہ اسے سنتے سنتے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا وصال ہو گیا تھا۔ قوالوں نے جب یہ غزل شروع کی تو اس شعر پر تین دن تک آپ رقص کی کیفیت میں رہے اور اسی عالم میں سرسجدہ میں رکھا اور وصال فرمایا……شعر یہ ہے:
کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است
اس شعر کا اردو ترجمہ (یا تشریح) خواجہ میر درد کا یہ شعر ہے:
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دہری دھار کا خنجر چلے
انگریزی زبان میں ورڈز ورتھ، جان ڈَن اور لانگ فیلو کے نام مشہور ہیں۔لانگ فیلو کی ایک بڑی مشہور نظم وہ ہے جس کے مضامین اور موضوعات پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ حضرت اقبال کی یاد آتی تھی:
Tell me not in mournful numbers
Life is but an emty dream
For the Soul is dead
That Slumbers.
اور درجِ ذیل شعر تو ارسطو کی تعلیمات کا گویا براہ راست ترجمہ ہے:
Life is real! life is earnest
And the grave is not its goal.
اور اس کا اگلا شعر عقل پرستوں کے نظریات کا خلاصہ معلوم ہوتا ہے:
"Dust thou art, to dust returnest"
Was not spoken of the Soal.