رئیل اسٹیٹ سیکٹر۔۔۔ٹاسک فورس کی سفارشات نظرانداز نہ کی جائیں!

پاکستان سمیت دنیا بھر میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی اہمیت سے انکار نہیں،ملکی معیشت میں رئیل اسٹیٹ، بلڈرز، ڈویلپرز کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،اُمید ہے غریب یا متوسط طبقے میں ہونے کا دعویدار، چھت وہ دو مرلے کی ہو یا پانچ مرلے کی،کنال کی ہو یا چار کنال کی،اس کی ضرورت اور اہمیت کو پش ِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ ترقی پذیر ممالک کے درجنوں ممالک کی مثال دی جا سکتی ہے جنہوں نے رئیل سٹیٹ سیکٹر کو اہمیت دی، ٹارگٹ بنایا اس کی معیشت مضبوط ہوئی۔روزگار کے بیشمار مواقع میسر آئے،لاکھوں افراد کو چھت ملی اوررئیل اسٹیٹ سیکٹر سے منسلک درجنوں صنعتوں کا پہیہ چلنے لگا۔پاکستان کی اگر بات کی جائے توجہاں دنیا سے بہت کچھ مختلف ہوتا ہے ہمیشہ کہا جاتا ہے۔
جمہوری ممالک میں معیشت کو خطرات کم ہوتے ہیں اور عوام اور اداروں کو خوب پھولنے اور پھلنے کا موقع ملتا ہے۔رئیل اسٹیٹ کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے جب بھی جمہوری دور پاکستانی عوام کو میسر آیا اس میں کم از کم رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو عروج نہیں ملا تلخ حقیقت ہے۔ آمریت کے35سال ہوں یا40 سال اس میں پاکستان میں پیسہ بھی آیا عوام کے لیونگ سٹینڈر میں اضافہ بھی ہوا اور لوگوں کو چھت بھی ملی،کاروباری افراد کو آگے بڑھنے کا موقع بھی ملا۔ گزشتہ کم از کم دو ادوار نگران حکومت اور موجودہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ حکومت جب سے آئی ہے اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے سرمایہ کاری آنا تو دور کی بات ہے گزشتہ چھ سال سے ڈویلپمنٹ اتھارٹی وہ ڈی ایچ اے ہو یا ایل ڈی اے،ایف ڈی اے ہو یا کے ڈی اے ان کے ریونیو میں بے تحاشا کمی کا یہ حال ہے ان کو اپنے اخراجات مکمل کرنے کے لئے اپنے اثاثے ریگولر بنیادوں پر فروخت کرنا پڑ رہے ہیں ایک ایک دن میں جہاں سو سو ٹرانسفر ہوتی تھیں وہاں ایک درجن بھی ٹرانسفر نہیں ہو رہی۔سرکاری خزانے کو ملنے والے اربوں روپے ماہانہ ریونیو کی کمی کا حساب ہی نہیں۔ آئی ایم ایف، فیٹف، ورلڈ بینک جس کو بھی بنیاد بنایا گیا گزشتہ پانچ سال سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا بھٹہ ہی نہیں بیٹھا بلکہ بلڈرز ڈویلپرز سب سر پکڑے بیٹھے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں دفتر بند ہو گئے، لاکھوں افراد بیروزگار،ڈی ایچ اے بحریہ جو ایک برانڈ کے پیچھے جاتے ہیں ان کی فائلز اور پلاٹس کی قیمتوں میں کئی گنا کمی آ چکی ہے۔رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے نمائندے بلڈرز، ڈویلپرز، حکومت وقت سے حالت ِ زار اپیلوں کی شکل میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں شائع کروا رہے ہیں،ہر آنے والے دن میں صورتحال ابتری کی طرف جا رہی ہے۔جمہوری حکومت کے ثمرات کا نتیجہ ہے پلاٹس ہوں یا فائلز،گھر ہوں یا فارم ہاؤس کوئی خریداری نہیں۔شدید بحران کی وجہ بینکوں اور اداروں میں سعودی نظام کو قرار دیا جاتا رہا۔ بینکوں میں 22 فیصد سے زائد منافع کے لالچ کو وجہ بھی بنایا گیا کہ عوام نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے بینکوں میں بڑے منافع کے لالچ میں بھاری رقوم فکس ڈیپازٹ کروا لی ہیں اور گھر بیٹھے منافع کما رہے ہیں۔دوسری طرف آئی ایم ایف کے سخت قوائد اور ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں اور ان کی واپسی کے مشکل ترین مرحلے کو بھی بحران کی وجہ قرار دیتے ہوئے رئیل اسٹیٹ سیکٹر،بلڈرز،ڈویلپرز سے سونے کے انڈے کی صورت میں روزانہ کی بنیاد پر سیلز پرچیز سے حاصل ہونے والی آمدن سے مناسب حصہ لینے کی بجائے گزشتہ چار بجٹ میں مرغی کو ہلال کرنے کا فیصلہ ہوا اور ود ہولڈنگ ٹیکس،ایف ای ڈی،ٹرانسفر فیس،ڈی سی ریٹس میں بے تحاشا اضافہ سمیت متعدد ٹیکسز بغیر سٹیک ہولڈر کی مشاورت کے مسلط کر دیئے گئے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے سیلز پرچیز نہ ہونے کے برابر رہ گئی،اربوں روپے ماہانہ وصول ہونے والا ریونیو ہزاروں تک آ گیا ہ،ملکی معیشت کی مضبوطی،دعوے اور مہنگائی میں بے تحاشا کمی کے حقائق کی خبروں کے باوجود ریونیو نہیں بڑھ رہا۔ اللہ اُس شخص کا بھلا کرے، جس نے وزیراعظم کو زیادہ ریونیو کے حصول کے لئے رئیل اسٹیٹ کی طرف آنے کی درخواست کی۔ انہوں نے ریاض پیرزادہ کی قیادت میں پارلیمنٹ کے ارکان کی ٹاسک فورس بنائی اور سفارشات دینے کا کہا اِس وقت ٹاسک فورس کی سفارشات منظر عام پر آ چکی ہیں افسوس کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے عملدرآمد سے پہلے ہی اس کی شدید مخالفت کر کے میڈیا میں نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے مجھے وزیراعظم کی طرف سے ٹاسک فورس کی سفارشات کی 100فیصد منظوری کی امید ہے کیونکہ وزیراعظم جس تندہی سے لگے ہوئے ہیں اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے پارلیمنٹ کی ٹاسک فورس کی سفارشات ہیں کیا اِس کی طرف آتے ہیں، پراپرٹی کی خرید و فروخت پر عائد وفاقی اور صوبائی ٹیکسز پر نظرثانی کی جائے،پہلی مرتبہ گھر خریدنے پر ٹیکس کی مکمل چھوٹ دی جائے، ہاؤسنگ/ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکسز14سے کم کر کے4 فیصد تک لائے جائیں۔ پراپرٹی فروخت کرنے پر ٹیکس چار فیصد کم کر کے دو فیصد کیے جائیں۔خریدار کے لئے ٹیکس چار فیصد سے کم کر اعشاریہ پانچ فیصد کیے جائیں۔ایف ای ڈی ختم کی جائے کم آمدن والوں کو گھر کی فراہمی کے لئے سبسڈی دی جائے۔ رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کو وزارت داخلہ کی بجائے وزارت ہاؤسنگ کے تحت کیا جائے، ٹیکس آمدن کی حد پانچ کروڑ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔11رکنی ٹاسک فورس نے میرا گھر میری سکیم بحال کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔سکیم کے تحت گھر کا مالک اپنے گھر کو گروی رکھ کر کے قرض حاصل کر سکے گا، قبضہ کے لئے تجویز کیا گیا ہے واپسی کے لئے آسان اقساط 15سے 20سال کی ہونا چاہئے۔ پبلک پارٹنر شپ کو متعاف کرانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔بتایا گیا ہے گورنمنٹ اگر پبلک سیکٹر کو ساتھ ملاتی ہے تو اس کا بوجھ کم ہو گا اور نئے منصوبوں پر کام کرنے کا موقع ملے گا،40سے زائد سفارشات واقعی وقت کی ضرورت ہیں،لیکن آئی ایم ایف کا ہتھوڑا اور جال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے سفارشات کو آئی ایم ایف کے وفد کے آئندہ دورے سے مشروط کرتے ہوئے کہا ہے رضا مندی ہو گی تو مرحلہ وار عمل شروع کریں گے۔سارا کچھ اب آئی ایم ایف کے آنے والے وفد کی ہاں سے مشروط ہو گیا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں بین الاقوامی اداروں کا شکنجہ میں چاروں اطراف سے گھیرے ہوئے ہے اللہ ان کے دِل میں رحم ڈال دے وہ آزادانہ کام کی اجازت دے دیں۔موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم، وزیر خزانہ، وزرائے اعلیٰ سے تجربے کی بنیاد پر درخواست کرتی ہیں ٹیکسز کے نظام کو کرپشن فری اور فرینڈلی بنانے کے لئے تو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں ہے اچھی ساکھ رکھنے والی ہاؤسنگ سکیم کی حوصلہ افزائی اور دو نمبری کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے تو آپ کو نہیں روکا گیا، فائلز سسٹم کے حوالے سے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ہماری نیب جس کا دائرہ اختیار اب ہاؤسنگ سوسائٹی تک محدود ہو گیا ہے۔ ہاؤسنگ سیکٹر کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کرلائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔حکومتی اداروں کی کرپشن تو آپ روک سکتے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ٹاسک فورس کی سفارشات کو نظر انداز نہ کیا جائے، موجودہ بحران کا واحد حل سفارشات پر عملدرآمد میں ہے۔
٭٭٭٭٭