بھتہ خوری ....منافع بخش کاروبار
کرپشن ،چور بازاری، رشوت خوری، غنڈہ گردی، بلیک میلنگ اور دہشت گردی جیسے اور بہت سے کاروبار پھلے پھولے ہیں، وہیں بھتہ خوری کا کاروبار بھی اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ کراچی سے شروع ہونے والا یہ منافع بخش کاروبار اب پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پھیل چکا ہے۔ اب آپ صرف کراچی کو ہی دیکھ لیں، جہاں اس وقت اغوا کاری اور بھتہ وصولی ملک کی سب سے بڑی صنعت بن رہا ہے، ملک میں دہشت گردی کی بڑی وجہ کراچی کے وہ جرائم پیشہ گروہ ہیں، جنہیں سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ کراچی میں کاروبار ٹھپ ہو رہا ہے،بزنس مین سرمایہ کاری سے کترا رہے ہیں اور اپنے خاندانوں کو ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر رہے ہیں۔رواں سال کے ابتدائی ماہ میں1400 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کراچی میں سالانہ کروڑوں ڈالر بھتے کی نذر ہو جاتے ہیں۔50نو گو ایریاز ہیں، جہاں پولیس بھی نہیں جا سکتی۔کراچی میں امن وامان کی بد تر صورت حال وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو درپیش کئی چیلنجوںمیں سے ایک ہے۔پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر لانے کے لئے نواز شریف کا اسے ٹھیک کرنا ضروری ہے۔
ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی تاجروں اور دکانداروں سے اِسی طرز پر بھتہ وصول کیا جاتا ہے، جس طرح پولیس برسوں سے وصول کرتی آرہی ہے۔ اغوا کاروں کے لئے کراچی سونے کی کان ہے۔ کراچی میں دہشت گردی اور اغوا کاری کا زیادہ تر تعلق سیاسی ہے۔ اس وقت کراچی دہشت گردی کا بڑا ذریعہ اِس لئے ہے کہ سیاسی جماعتوں نے دیگر گروپوں کو خوفزدہ یامخالفین کو ووٹ دینے والوں کو ڈرانے کے لئے اپنے مسلح ونگ بنائے ہوئے ہیں۔ ان مسلح گروپوں میں مقامی جرائم پیشہ گروہ بھی ہیں،جو سیاست سے زیادہ پیسے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔حکومت نے بعض اوقات ہوش کے ناخن لینے کی کوشش کی اور ان گینگز کو ختم کرنا چاہا،مگر وہ ایسا نہ کر سکی،کراچی میں ان جرائم پیشہ گروپوں کا خاتمہ مشکل ہے۔ پاکستان میں سیاست ایک کھیل ہے، سیاسی جماعتوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ الیکشن جیتنے کے لئے جرائم پیشہ گروہوں کو ساتھ رکھتی ہیں۔ غنڈوں کا سربراہ اکثر سیاست میں داخل ہو تا ہے اور اپنے سرپرست سے مطالبات منواتا ہے، اس طرح سیاسی جماعتیں بھی جواز پیش کرتی ہیں۔
اب کراچی میں اغواکاری کو بڑی صنعت بننے سے روکنے کے لئے پولیس کو حکم دیا گیا ہے۔ یہ مشکل نظر آتا ہے، کیونکہ ہر قسم کے جرائم کی وجہ سے کراچی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ گزشتہ چند سال میں سندھ میں دہشت گردی سے 3500 افراد ہلاک کئے گئے، جن میں 95فیصد ہلاکتیں کراچی میں ہوئیں۔ دہشت گردی اور اغوا کاری سے متعلقہ ہلاکتیں زیادہ تر کرائے کے قاتلوں سے کرائی گئیں۔ اغوا کاری پیسہ اکٹھا کرنے کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس پیسے کو دہشت گردی کے حملوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان بھر میں گزشتہ سال اغوا کے 3386 واقعات ہوئے،جبکہ2011ءمیں 2954 واقعات سامنے آئے، بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد کی طرف سے بھتے کے مطالبے پر کراچی میں کاروبار شدید متاثر ہے۔اس کی جہ سے کئی مالکان نئی سرمایہ کاری کرنے میں تاخیر کرنے پر مجبور ہیں۔اسی صورت حال سے تنگ آکر وہ اپنے خاندانوں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔سی پی ایل چیف احمد چنائے کے مطابق رواں سال جنوری سے وسط جون تک 630 شکایات موصول ہوئیں، جبکہ گزشتہ پورے سال میں 589 شکایات ملیں۔ ان شکایات میں زیادہ تر ان کی ہیں، جنہوں نے بھتہ نہیں دیا۔بھتے کی مد میں کتنا پیسہ جاتا ہے، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ پولیس کے مطابق سالانہ کروڑوں ڈالر بھتہ دیا جا رہا ہے، جبکہ2013ءمیں اس میں ریکارڈ اضافہ ہو گا۔
اب صوبہ بلوچستان کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ بلوچستان مےں امن و مان کے قےام اور مسائل کے حل کے لئے سنجےدہ اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ صوبے مےں بےرونی مداخلت سے بھی حالات خراب کئے گئے ہےں، وزےراعظم مےاں محمد نواز شرےف نے وزارت اعلیٰ کی قربانی دے کر بلوچ عوام کو اےک مثبت پےغام دےا ہے، اب صوبائی وزےراعلیٰ کا کڑا امتحان ہے اور انہےں عوامی توقعات پر پورا اترنا ہو گا ۔ تحرےک قےام پاکستان کے لئے بلوچ جرگہ نے اےک تارےخی فےصلہ کےا تھا اور صوبے کے عوام محب وطن ہےں لےکن گزشتہ چند سال سے وہاں حالات خراب کر دئےے گئے۔ گزشتہ دنوں وزےراعظم مےاں محمد نواز شرےف نے کوئٹہ کا دورہ کر کے اچھا اقدام کےا ہے، لےکن انہیں بار بار کوئٹہ اور کراچی جانا ہو گا اور صوبائی حکومت کی مدد بھی کرنا ہوگی تاکہ بلوچستان اور سندھ میں حا لات معمول پر آسکےں۔ ٭