یورپ کی ناؤ ڈوبنے والی ہے

  یورپ کی ناؤ ڈوبنے والی ہے
  یورپ کی ناؤ ڈوبنے والی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چند روز پہلے امریکی صدر اور یوکرینی صدر کے درمیان جو تلخ کلامی ہوئی تھی اس نے عالمی میڈیا میں طوفان مچا دیا تھا۔پاکستان میں بھی خواہی نخواہی ایسا ہی کیا گیا۔ ہمارے مین سٹریم میڈیا کے پنچھی کے پَرتو ایک عرصے سے کُترے ہوئے ہیں لہٰذا ہمارا میڈیا بھی وہی کچھ کہتا ہے جو اس کو کہنے کے لئے ’فراہم‘ کیا جاتا ہے۔ ہمارے میڈیا کے ناظر اور قاری وہی کچھ پڑھتے ہیں جو ان کو بتایا جاتا ہے۔ ہم گویا آئینے کے پیچھے بیٹھے ایسے طوطی ہیں کہ  ہمارا ’استاد‘ ہمیں جو کچھ فرماتا ہے، ہم وہی اگلتے رہتے ہیں۔ خواجہ حافظ شیرازی نے ٹھیک ہی کہا تھا:

در پس آئینہ طوطی صفتم داشتہ اند

آنچہ استادِ ازل گفت،ہماں می گوئیم

ویسے تو حافظ کا فرمانا، تصوف کی ذیل میں آتا ہے۔ استادِ ازل، خدائے بزرگ و برتر ہے اور ہم چونکہ اس کی مخلوق ہیں اس لئے ہمارا خالق جو کچھ ہمیں کہنے اور کرنے کو فرماتا ہے، ہم وہی کچھ کہتے اور کرتے چلے آئے ہیں۔ فارسی زبان کے صوفیائے کرام کے افکار کا توڑ تو اقبالِ لاہوری نے کیا جس نے کہا کہ خدا اور بندے کا رشتہ تو یہ ہونا چاہیے کہ خدا خود بندے سے پوچھے کہ بتاؤ تمہاری رضا کیا ہے…… یعنی حافظ شیرازی کے تصوفِ سے اقبال کا تصوف بالکل 180ڈگری اُلٹ تھا (اور ہے)۔

کبھی مسلمان بھی دنیا کی سپریم پاور ہوا کرتے تھے لیکن آج تو امریکہ سپریم پاور ہے۔ اسی لئے اس سپریم پاور کے طیارہ برداروں کا ناخدا جو کچھ بولتا ہے، باقی ساری دنیا میں نہ صرف یہ کہ اس کا نوٹس لیا جاتا ہے بلکہ اس پر آمنا و صدقنا کہا جاتا  ہے۔ اپنے پہلے دورِ صدارت میں اسی صدر ٹرمپ نے کہا تھا: ”یورپی یونین ہمارا اصل دشمن ہے اور ایسا دشمن ہے کہ امریکہ کو ”آگے“ نکلتے نہیں دیکھنا چاہتا“۔

ہم ذرا پون صدی پیچھے چل کر دیکھیں تو 1945ء میں جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تھی تو اس وقت کا یورپی یونین زخم زخم تھا۔ اس جنگ کا واحد فاتح امریکہ تھا۔ اس وقت امریکہ نے سوچا کہ اس زخمی دنیا کا تاجدار بننے کا کیا فائدہ جو پہلے ہی جنگ و جدال کے لگائے زخموں سے چُور چُور ہو۔ لہٰذا اس نے برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور جاپان کے شکست خوردہ سیاستدانوں کا ہاتھ پکڑا۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھا اور ان کو از سرِ نو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا…… کیا اس وقت کے صدر امریکہ کو معلوم نہ تھا کہ 1939ء میں جب جرمنی کا چانسلر ہٹلر تھا تو اس نے سارے یورپ بلکہ آدھے ایشیاء کے ساتھ کیا کیا تھا؟……

قارئین سے درخواست ہے کہ وہ دوسری عالمی جنگ کی چھہ سالہ تاریخ ضرور پڑھیں اور معلوم کریں کہ امریکہ نے یورپ اور ایشیاء کو نازی جرمنی کے ظلم و استبداد سے کیسے بچایا تھا۔ 1945ء سے لے کر 2025ء تک کے 80برسوں میں بقول صدر ٹرمپ آج سارا یورپ اپنے مربیّ امریکہ کا دشمن کیوں بن گیا ہے…… ٹرمپ نے بالکل درست اندازہ لگایا ہے کہ ساری یورپی دنیا جو اس کے ٹکڑوں پر پَل کر جوان ہوئی تھی وہ آج جس سیرشکمی کا مظاہرہ کررہی ہے وہ پرلے درجے کی ’احسان فراموشی‘ ہے! اسی لئے ٹرمپ نے اعتراف کیا ہے کہ:  ”یورپی یونین (EU)کو تو تشکیل ہی اس غرض سے کیا گیا تھا کہ امریکہ کی کلائی مروڑ دی جائے“۔

زیلنسکی، وائٹ ہاؤس سے بے عزت ہو کر نکلا توسیدھا 10ڈاؤننگ سٹریٹ پر حاضر ہوا جہاں برطانوی وزیراعظم نے اسے گلے لگایا اور 1945ء کے شکست خوردہ تمام یورپی ممالک (جرمنی، فرانس، اٹلی اور برطانیہ وغیرہ) نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ یعنی جب تک امریکہ اربوں ڈالر دنیا کو ”امداد“ (US Aid)کے نام پر دیتا رہا، وہ سب کا محترم بھی تھا اور مکرم بھی…… آج اگر امریکہ ناٹو سے نکل جائے تو یورپی طاقتوں کو سمجھ آجائے گی کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ یورپ نے روس کو اپنا دشمن بنا رکھا ہے اور امریکہ اب تک اسی یورپ کا ساتھ دیتا رہا ہے لیکن جب ٹرمپ نے یورپی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا ہے تو یورپ والوں کو یاد آیا ہے کہ ان کی ترقی، خوشحالی اور فارغ البالی کا اصل دارو مدار تو امریکہ پر تھا…… یہی وجہ ہے کہ آج کی یورپی یونین، امریکہ کو ناٹو کا برباد کنندہ سمجھ رہی ہے۔

امریکہ نے یوکرین پر حملہ کرنے کی مذمت نہیں کی۔ ہاں البتہ یہ مذمت، ٹرمپ کا پیشرو بائیڈن کرتا رہا ہے اور بقول ٹرمپ اربوں ڈالر یوکرین کو فراہم کرکے اور کھربوں ڈالر کا سامانِ جنگ دے کر اپنی قوم کو غریب بناتا رہا ہے۔ بائیڈن کے دور میں امریکہ میں جو مہنگائی آئی اس کی اصل وجہ یہی تھی کہ امریکہ دنیا کا  ”لکھوداتا“ بنا ہوا تھا اور جب ٹرمپ نے یہ حقیقت امریکی عوام کو بتائی تو انہوں نے ٹرمپ کو دوسری بار اپنا صدر منتخب کرلیا…… کئی پاکستانی دانشور ٹرمپ کے بارے میں حکم لگاتے ہیں کہ ٹرمپ ایک شخصیت کا نام نہیں، ایک کیفیت کا نام ہے!…… اللہ جانے شخصیت میں کیفیت کی تعداد یا حجم کتنا زیادہ یا کتنا کم ہوتا ہے!

آج امریکہ کے بعض یورپی اتحادی یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ امریکہ، تمام یورپی یونین کو برباد کرنا چاہتا ہے اور ان اتحادیوں میں برطانیہ اور جرمنی پیش پیش ہیں۔

کیا برطانیہ کو معلوم نہیں کہ وہ 18ویں اور 19ویں صدی کے دو سو برس تک تمام غریب اور ترقی پذیر ایشیائی ممالک پر قبضہ کرکے بیٹھا رہا۔ ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا لیکن اس چڑیا کا سارا گھونسلہ، برطانوی فوج اٹھا کر اپنے ہاں لے گئی اور وہاں ایک نیا ”برطانوی ہندوستان“ قائم کیا جو سونے کی چڑیا نہیں، سونے کا گدھ تھا۔ یہ تو میں اپنے کالموں میں کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ اوڈلف ہٹلر مرحوم ہمارا اصل نجات دہندہ تھا۔وہ اگر دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کی کمر توڑ کر نہ رکھ دیتا تو ہم آج بھی برطانیہ عظمیٰ کے غلام ہوتے۔نازی جرمنی ہی نے بالآخر برطانوی اقتدار کا وہ سورج غروب کر دیاجس کے بارے میں یہ مثل مشہور تھی کہ سلطنت برطانیہ میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ وہ ہندوستان میں ڈوبتا ہے تو آسٹریلیا میں طلوع ہو جاتا ہے اور اگر نیوزی لینڈ میں ڈوبتا ہے تو برما میں نمودار ہو جاتا ہے۔ یعنی اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے کا جو مصرع اقبال نے ”اہلِ ایمان“ کے لئے موزوں کیا تھا، وہ اہلِ کفر پر بھی صادق آیا:

جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید  جیتے ہیں 

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اس حوالے سے دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ واقعی اہلِ امریکہ کا بہی خواہ ہے۔ اربوں امریکی ڈالر جو ’امداد‘ کے نام پر امریکہ سے باہر لٹائے جا رہے تھے وہ اب امریکی عوام کے کام آئیں گے اور وہ دن دور نہیں جب امریکہ میں مہنگائی کا وہ دور ختم ہو جائے گا جس کا رونا آج ہر امریکی شہری رو رہا ہے۔

امریکی میڈیا ٹرمپ کا خیر خواہ نہیں اور نہ ہی امریکی دفاعی مشین اس کی مداح ہے۔ پاکستان کے کس شہری کو معلوم نہیں کہ جنگ کی مداحی، دفاعی صنعت کا دائمی شیوہ ہے؟ آج بھی امریکہ کے پاس اتنی دفاعی قوت ہے کہ وہ روس اور چین کو دو دوبار شکست دے سکتا ہے، اسی لئے وہ مزید جنگ سے گریزاں ہے۔

یوکرین میں امریکی بوٹ نہیں آئے لیکن امریکی ڈالروں کی ریل پیل توہوگئی۔ اب اگر زیلنسکی واشنگٹن سے ذلیل ہو کر نکالا گیا ہے تو اس کا واویلا بجا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب یوکرین کی مددکون کرتا ہے۔ یورپی یونین شور تو مچائے گی لیکن اس کی جیب میں نہ ڈالر ہیں اور نہ  ترکش میں اپنے بنائے ہوئے تیر ہیں۔ جیب اور ترکش میں ایک بدیہی تناسب ہوتا ہے جو اب زیلنسکی کو (انشاء اللہ) چند مہینوں میں معلوم ہو جائے گا۔ آدھا یوکرین جب روس کے پاس چلا گیا تو یورپ والوں کو لگ پتہ جائے گا کہ ان کی اپنی ناؤ بھی روس کے منجدھار میں ڈوبنے کے کتنے قریب ہے!

مزید :

رائے -کالم -