دعا مرزا کابروقت علاج کیوں نہ ہوا؟

دعا مرزا کابروقت علاج کیوں نہ ہوا؟
دعا مرزا کابروقت علاج کیوں نہ ہوا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اس ڈاکٹر کی مریض کے دل میں کتنی عزت ہوگی جو مریض درد سے چیخ رہاہو اور ڈاکٹرکی دوائی سے اس کا درد ختم ہوجائے?ایسے بہت سے ڈاکٹرزہمارے معاشرے میں انسانی خدمت کے جذبے سے سرشارہوکرلوگوں کی جان بچانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں لیکن تب آپ کیا محسوس کریں گے?آپ کے دل پر کیا بیتے گی جب آپ اپنا علاج کرانے،اپنے زخم پر پٹی لگوانے اور درد کی دوا لینے جائیں مگر ڈاکٹر نامی وہ عناصر جوآپ کے ہی ٹیکس سے تنخواہ لے کر اس عہدے پر براجمان ہوں،وہ بے حسی کی انتہا کردیں?۔یہ سوچئے گا ضرور،مگر اس سے پہلے دعامرزاکی فیس بک وال سے کاپی کی گئی یہ تحریرپڑھیں(دعامرزالاہورسے تعلق رکھنے والی صحافی ہیں جوآج کل "ڈیلی پاکستان" سے وابستہ ہیں،اس سے قبل انہوں نے سٹی نیوزنیٹ ورک، پبلک نیوزاور92نیوزپربھی بہترین اندازمیں رپورٹنگ کی،فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتی ہیں)۔۔

’’کورونا وباء کے پورے وقت میں ڈاکٹرز کو میں نے ہر روز سلام پیش کیا، اکثر دوست کہا کرتے تھے کہ ڈاکٹر ہونا ایک کیفیت ہے،یہ انسان نہیں ہوتے لیکن میں ہمیشہ یہ کہتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے خاص لوگ ہیں یہ، انہیں کچھ نہ کہا کریں مگر آج ہم بھی ان کی زد میں آئے تو رائے ہی بدل گئی ۔ کرائم سٹوری سے واپسی پر میں اور میرا چھوٹا بھائی اپنی اپنی موٹر سائیکل پر مناسب سپیڈ سے آرہے تھے کہ اچانک پیچھے سے آنے والے شخص نے موٹرسائیکل کوٹکرماردی جو فون پر بات کرتا آرہا تھا۔ تینوں موٹر سائیکلیں گر گئیں۔ توقیر چوٹ لگنے سے اچانک بے ہوش ہوگیا ۔میں نے 1122 کو کال ملائی اتنے میں لوگ بھی جمع ہوگئے ۔ریسکیوٹیم 20 منٹ بعد بھی نہ آسکی مگر شہری کی مدد سے اسے میں ہسپتال لے گئی ۔ایمرجنسی میں اسے لٹایا ۔ وہ آنکھیں کھول رہا تھا مگر بات نہیں کر رہا تھا۔میں نے بھاگ کر ڈاکٹرکو بلایا جن کا نام خالد جاوید تھا۔ وہ موبائل استعمال کرتے ہوئے آئے اور بددلی سے یہ کہہ کر چلے گئے کہ ابھی سسٹر دیکھ لیتی ہے۔ توقیر اس وقت درد سے چلا رہا تھا اور اسکے سر سے خون بھی بہہ رہا تھا مگر ڈاکٹر صاحب کا فون شایدسب سے ضروری تھا ۔ میں نے ان کو انتہائی آرام سے کہا کہ اس کو پلیز دیکھ لیں یہ بات نہیں کر رہا جس پر وہ طیش میں آگئے اور مجھے کہا کہ مجھے سب پتہ ہے تم یہاں سے دفعہ ہوجاو ۔

پہلی بات خاتون سے بات کرنے کا یہ کیا طریقہ ہے جبکہ میری اس وقت کیا حالت تھی وہ تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔میں نے ان کو آخر تک اپنے صحافی ہونے کا احساس نہیں دلایا کیونکہ میں ایک عام مریض تھی۔اتنی دیر میں کچھ دوست لاہورکے سروسز ہسپتال پہنچے تو وہ مجھے ٹانکے لگوانے لے گئے وہاں حیران کن واقعہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب پوچھنے لگے کہ ابھی بحث آپکی ہوئی تھی ناں ۔میں نے آرام سے کہا کہ جی بس وہ مریض کے ساتھ ایموشنل اٹیچمنٹ ہے تو ذرا بحث ہوگئی۔اتنے میں انہوں نے بھی ٹانگ پر ٹانگ رکھی اور وہ انکوائری کرنا شروع ہوگئے  اور اپنے قصیدے پڑھنے لگے ۔مجھے درد ہو رہا تھا ۔۔میرے ساتھ کھڑے ایک شہری نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب انکو ٹانکے تو لگا دیں جس پر انہوں نے کہا کہ انکی اکڑ ہے ناں ۔۔اب یہ انتظار کریں ۔پوچھنے لگے کیا کرتی ہو ؟ میں نے کہا سٹوڈنٹ ہوں ۔کہتے اچھا اتنا نخرہ ؟۔اتنے میں میرے اٹینڈنٹ نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اس کا بھی خون بہہ رہا ہے، کہتے ہیں تم اب مجھے سکھاو گے اور جناب وہ بھی ہم پر ایسے پڑے جیسے دوسرے ڈاکٹر سے بحث کا غصہ نکال رہے ہوں۔ میں ڈی ایم ایس آفس گئی تو وہ سو رہے تھے ۔۔نیند میں آنکھیں ملتے باہر آئے اور ساتھ ہیلپر بھیج دیا. پھر ڈاکٹر منصور کو رحم آیا اور پینتالیس منٹ بعد مجھے ٹانکے لگنا نصیب ہوئے جو نہایت بد دلی سے لگائے گئے۔ پھرہم نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں،ہم علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کی بات کرتے ہیں،یہ کیسے ممکن ہوگا؟ کیاایک شخص جسے وزیراعظم کہتے ہیں وہ جادو کی چھڑی سے سب کچھ ٹھیک کردے گا؟ کیاسب اداروں کی ذمہ داری نہیں کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ہسپتالوں میں اگر کہیں گڑ بڑہے تواسے ٹھیک کرنے کے لیے عمران خان خود آکر بیٹھ جائیں گے؟متعلقہ اعلیٰ افسران اور وزارت کے ذمہ دارایسے معاملات پرنوٹس لیں اور جہاں کہیں بھی ایسی سستی پائی جائے،قانون کے مطابق متاثرین کو انصاف دلائیں اور ذمہ داروں کوسزائیں دیں،یہ قوم وعظ کرنے سے ٹھیک ہونے والی نہیں،سخت قانون اورقانون پر سختی سے عملدرآمدکے بعد ہی دیگراداروں کی طرح ہسپتالوں میں بھی مریض مطمئن ہوں گے بصورت دیگریہی خدشہ ہے کہ دعامرزا جیسے مریض علاج کی بجائے خوار ہوتے رہیں گے۔وزیراعلیٰ پنجاب،وزیرصحت اورسیکرٹری صحت فوری ایکشن لیں تاکہ یہ رویہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکے۔

تعارف:بلاگrمناظرعلی مختلف اخبارات اورٹی وی چینلز کےنیوزروم سے وابستہ رہ چکےہیں،آج کل لاہور کےایک ٹی وی چینل پرکام کر رہے ہیں۔عوامی مسائل اجاگر کرنےکےلیےمختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ان سےفیس بک آئی ڈی  munazer.ali  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -