ٹرانس جینڈر: اختلاف کیا، کیوں اور کیسے؟

ٹرانس جینڈر: اختلاف کیا، کیوں اور کیسے؟
ٹرانس جینڈر: اختلاف کیا، کیوں اور کیسے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 سوشل میڈیا پر ایک خواجہ سرا/ٹرانس جینڈر کا ویڈیو کلپ وائر ل ہے۔ اس میں صاحب /بی بی نے نرم لہجے اور شائستہ انداز میں اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے، مکالمہ اسی انداز میں ہونا چاہیے۔نرمی سے بولے گئے اس کلپ میں مگر کچھ باتیں خلاف واقعہ، بعض کمزور اور دو تین سے اتفاق ہے۔
یہ ضروری ہے کہ جوابی طور پر پورا مقدمہ مختصر نکات میں سامنے رکھا جائے۔ اس بلاگ میں ممتاز ماہر قانون اور استادڈاکٹر مشتاق خان کی تحقیق اور تجزیوں سے استفادہ کیا گیا، اللہ انہیں اور ان کے ہم نام سینیٹر مشتاق احمد خان کو جزائے خیر دے، آمین۔
خواجہ سرا کا مخالف کوئی نہیں 


سب سے پہلے یہ کہ خواجہ سراؤں سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ اس پر اتفاق رائے ہے کہ خواجہ سرا کمیونٹی کے ساتھ ماضی میں زیادتیاں ہوئیں۔ ان کے لئے بہت سے اچھے اقدامات کرنے چاہئیں۔ شناخت کا مسئلہ، صحت، تعلیم، ہنر کی تربیت وغیرہ، وراثت کے ایشو، جان مال کا تحفظ، ملازمت وغیرہ۔۔۔ یہ سب ہونی چاہئیں۔ ہم اس سب کی حمایت کرتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء میں اس حوالے سے بعض اچھے اقدامات تجویز کئے گئے، ان سب پر عمل درآمد ہونا چاہیے، کوئی اس کا مخالف نہیں۔ میں تو اس کے بھی حق میں ہوں کہ خواجہ سراؤں کے قتل کے کیسز انسداد دہشت گردی عدالت میں چلا کر قاتلوں کو عبرت ناک اور فوری سزائیں دیں۔
اس ویڈیو میں خواجہ سراؤں کی مشکلات اور مصائب کا ذکر کر کے جذباتی ہمدردی لینے کی کوشش کی گئی۔ اسے اگر ایموشنل بلیک میلنگ نہ کہا جائے تو ایموشنل وار ضرور کہیں گے۔ خواجہ سرا سے ہمیں ہمدردی ہے، ان کے مسائل حل ہونے چاہئیں۔، اس میں اختلاف ہے ہی نہیں۔ مخالفت کون کرر ہا ہے؟کوئی مذہبی جماعت، گروہ اس کا مخالف نہیں۔
مسئلہ ٹرانس جینڈر کی تشریح کا ہے


اختلاف خواجہ سرا سے نہیں بلکہ ٹرانس جینڈر اور ٹرانس جینڈر کی تعریف وتشریح سے ہے۔ خواجہ سرا پیدائشی ڈس آرڈر والے لوگ ہیں، صدیوں سے یہ کمیونٹی یہاں موجود ہے، اس کا تاریخی پس منظر ہے۔ ٹرانس جینڈر نئی وبا کہہ لیں، فتنہ یا نیا مسئلہ، جو دل چاہے سمجھ لیں۔
مغرب میں ٹرانس جینڈر ایک ایسی وسیع (امبریلا) تعریف ہے جس میں کوئی بھی شامل ہوسکتا ہے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء کے مطابق ہر شخص جو بھی سیلف پرسیوڈ جینڈرآئیڈینٹٹی Self Percieved Gender Identityیعنی اپنے ذہن میں خود کو کچھ بھی تصور کرے، نادرا اور باقی تمام سرکاری محکموں کو بلا چوں چرا، کسی سوال کے بغیر اسی شناخت کو درج کر لینا چاہیے۔ یہ شرعی، اخلاقی، آئینی اور ہماری تہذیبی روایات کے مطابق ہر اعتبار سے غلط ہے۔
ایکٹ بنیاد ہے، رولز ثانوی


ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ بڑی ہوشیاری سے ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء  پر بات کرنے کے بجائے اس ایکٹ یعنی قانون کے تحت بنائے جانے والے رولز (قواعد)2020ء کی بات چھیڑ دیتے ہیں کہ اس رولز کے تحت نادرا کسی ٹرانس جینڈر کا جینڈر نہیں تبدیل کر سکتا وغیرہ وغیرہ۔ان کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ اس حوالے سے موجود خطرات اور اندیشے غلط اور غیر حقیقی ہیں۔ بات یہ نہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اصل بنیاد ٹرانس جینڈر ایکٹ ہے۔ رولز تو کبھی بھی تبدیل ہوسکتے ہیں۔ آج نہیں تو کل نئے رولز بن جائیں گے۔ اس لئے ہمارا ہدف رولز(Rules) نہیں بلکہ ایکٹ ہے۔ جب تک ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء میں ترمیم نہیں ہوتی، تب تک رولز میں تبدیلی کا خطرہ برقرار رہے گا۔ دوسرا رولز کے مطابق بھی موجودہ ٹرانس جینڈر کو اپنا نیا شناختی کارڈ بناتے ہوئے مرد یا عورت کے بجائے ایکس xصنف الاٹ کی جاتی ہے، تاہم پہلی بار کارڈ بنانے والے ٹرانس جینڈر کی جنس/صنف وہی ہوگی جو وہ بتائے گا۔
یعنی اگر ایک لڑکاپہلی بار شناختی کارڈ بنواتے ہوئے جسمانی طور پر میل ہوتے ہوئے بھی خود کو لڑکی یعنی فیمیل بتائے گا تو نادرا کے عملہ کی مجال نہیں کہ وہ کوئی سوال پوچھے، چپ کر کے انہیں لڑکی لکھنا پڑے گا۔ یہ خطرناک اور تباہ کن چیز آج بھی موجود ہے۔
میڈیکل ٹیسٹ کیوں ضروری


ڈاکٹر معیز ہو یا دیگر ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ، ان سب کو تکلیف میڈیکل چیک اپ کی شرط عائد کرنے سے ہے۔ حالانکہ یہ نہایت فطری بات ہے۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میری جنس وہ نہیں جو بظاہر لگ رہی ہے تو ظاہر ہے اس کا میڈیکل چیک اپ ہونا چاہیے تاکہ یہ مسئلہ کلیئر ہو۔ یہ دلیل ہی نہایت بودی اور کمزور ہے کہ ڈاکٹر کے سامنے بے پردگی ہوگی۔ کیا ہم علاج کرانے انہی ڈاکٹرز کے پاس نہیں جاتے؟ خدانخواستہ کسی کو ران پر پھوڑا نکلے یا جانگھ پر کوئی پھنسی، ریش، زخم ہوجائے تو ڈاکٹر کو نہیں دکھائیں گے؟ تب بے پردگی نہیں ہوگی؟ٹرانس جینڈر کے میڈیکل چیک اپ کے لئے یہ بھی تجویز کیا گیا کہ ایک مرد اور ایک خاتون ڈاکٹر ہو، تاکہ کسی قسم کا مسئلہ نہ پیدا ہو اور وہ کمفرٹیبل بھی رہے۔
ہمارا میڈیکل ٹیسٹ کیوں نہیں؟
نہایت معصومیت سے ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آپ نے یہ ٹیسٹ کرایا تھا؟ اگر آپ نہیں کراتے تو ہم کیوں؟ یہ ایک اور مغالطہ اور دھوکہ آمیز نکتہ ہے۔انہیں جواب دینا چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک کا میڈیکل چیک اپ اور ٹیسٹ ہوا تھا۔ شناختی کارڈ بنوانے سے پہلے ب فارم بنانا پڑتا ہے اور ب فارم میں اندراج سے پہلے برتھ سرٹیفکیٹ بنوانا لازمی ہے اور برتھ سرٹیفکیٹ ہمیشہ ڈاکٹر بچے کے چیک اپ کے بعد ہی بناتا ہے اور اس کی جنس واضح کرتا ہے۔ میرے ماشااللہ سے چار بچے ہیں، ایک بیٹی، تین بیٹے۔ ان سب کے برتھ سرٹیفکیٹ ڈاکٹروں نے بنائے اور ان کی بنیاد پر ب فارم میں اندراج ہوا اور اب دو بچوں کا شناختی کارڈ بھی بننے کے قریب ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر اس برتھ سرٹیفکیٹ سے انحراف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک معاملہ ویسا نہیں تو پھر ٹھیک ہے، ایک نیا میڈیکل چیک اپ ہوجائے، اس کی بنیاد پر ان کی جنس /صنف طے ہوجائے گی۔


جنس اور صنف الگ نہیں 
ویڈیو کلپ میں اسی ٹرانس جینڈر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں جنس یعنی سیکس کے حوالے سے ٹیسٹ ہو نہیں سکتے۔ یہ بات درست نہیں۔ نہایت آسانی سے ڈاکٹر اس کو چیک کر سکتے ہیں۔ وہ فزیکل چیک اپ کے بعد بھی بتا سکتے ہیں کہ فرد مرد ہے یا عورت یا انٹرسیکس یعنی درمیانی شکل یعنی خواجہ سرا۔ اس کے ٹیسٹ بھی ہوسکتے ہیں۔ اسی کلپ میں کہا گیا کہ جینڈر کا ٹیسٹ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ہمارا اس بات پر اعتراض ہے۔
ہم جینڈر کو جنس سے الگ مانتے ہی نہیں۔ اس لئے کہ جینڈر اور سیکس ایک ہی ہے۔ جینڈر کو الگ کرنے کا مقصد ہی یہی دھوکا ہے کہ یہ تو خیالی تصور ہے، اسے کس طرح جانچا جائے؟
 یہاں یہ واضح رہے کہ شریعت کی رو سے اور پاکستان کے قانون کی رو سے بھی جنس(Sex) اور صنف (Gender)ایک ہی ہے۔ آپ مرد ہیں یا عورت یا پھر درمیانی شکل ہے، انٹر سیکس یعنی خنثیٰ جسے عام اصطلاح میں خواجہ سرا یا ہیجڑا کہہ دیتے ہیں۔
اسلام کو خطرہ نہیں، تصورات پر تو حملہ ہوا


اسی ویڈیو کلپ میں انہی ٹرانس جینڈرنے بڑی ملائمت آمیز معصومیت سے یہ فقرہ کہا کہ اسلام اتنا کمزور تو نہیں کہ خواجہ سرا سے اسے نقصان پہنچے۔ یہ ایک اور جذباتی بلیک میلنگ سے لیس وار ہے۔ ہمارے لبرلز کے پاس بھی آخری وار یہی ہوتا ہے۔ ایک طرف تو انہیں مذہبی تصورات، مذہبی طبقے سے خدا واسطے کا بیر ہے لیکن اپنا بیانیہ اور مقدمہ بنانے کے لئے وہ خود کو مذہب کی سائیڈ پر کر کے پولا سا منہ بنا کر یہ بات کہہ دیتے ہیں۔
الحمدللہ اسلام کو کوئی خطرہ نہیں، اسلامی تصورات پر مگر ہمیشہ حملے ہوتے رہے ہیں۔ ان کا دفاع کیا جاتا ہے، ہر عہد میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے اکابرین، نامور اہل علم نے ایسا کیا اور یہی آگے بھی چلے گا۔ آج کا زمانہ ویسے بھی تصورات کی جنگ کے  گرد گھومتا ہے، اگر بروقت درست نہ کیا جائے تو پرسیپشن (Perception)ہی حقیقت (Reality)بن جاتی ہے۔ یہ حلقے دانستہ ابہام اور کنفیوڑن پیدا کرتے ہیں، مقصد یہی ہوتا ہے کہ اتنا گند پڑ جائے، اتنی گرد اڑے کہ اصل چیزیں چھپ جائیں۔
ہم ان چیزوں پر اسی لئے مسلسل لکھتے ہیں، اسی وجہ سے ہر وار کے بعد، ہرحملہ آور بیانیہ کے بعد اس کا جوابی بیانیہ دیا جاتا ہے تاکہ ہر نکتہ واضح رہے۔ بات یہ ہے ہی نہیں کہ اسلام کو خطرہ ہے یا نہیں۔ بات یہ ہے کہ غلط تصورات ہمارے سماج میں ڈالنے، شامل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ان کی مزاحمت ہونی چاہیے۔ اگر کوئی قانون غلطی سے بن گیا یا اس میں کچھ سقم ہیں تو انہیں دور کردینا چاہیے۔
پاکستان اسلامی ریاست ہے جہاں کوئی بھی قانون شریعت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ ٹرانس جینڈر اگر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جنس الگ ہے، صنف یعنی جینڈر الگ اور سب کچھ ذاتی تصور ہے، سیلف پرسیوڈ جینڈر آئیڈنٹٹی پر ہی معاملہ طے ہونا چاہیے، معاشرے کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں تو انہیں یہ سب کچھ شریعت کی رو سے ثابت کرنا ہوگا۔ انہیں اپنا مقدمہ مغربی لادین تصورات کی بنیاد پر نہیں، شریعت اور قرآن وسنت کی روشنی سے ثابت کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ پولے پولے منہ سی کی گئی نرم وملائم باتیں ان کے کمزور دلائل کو مضبوط نہیں بنا سکتیں۔

مزید :

رائے -کالم -