ایک خوفناک بیماری میں مبتلا جنات جو کرایہ داروں کا جینا حرام کردیتے تھے،ان سے گھر کا قبضہ کیسے لیا گیا؟لاہور میں پیش آنے والا ایسا واقعہ کہ جان کر آپ کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں

ایک خوفناک بیماری میں مبتلا جنات جو کرایہ داروں کا جینا حرام کردیتے تھے،ان ...
ایک خوفناک بیماری میں مبتلا جنات جو کرایہ داروں کا جینا حرام کردیتے تھے،ان سے گھر کا قبضہ کیسے لیا گیا؟لاہور میں پیش آنے والا ایسا واقعہ کہ جان کر آپ کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یقینی طور پر میں یہ کہانی سن کر میں اس کو جھٹلا دیتا لیکن جب اسکے متاثرین نے مجھے حلفاً یہ بات بتائی تو مسلمان ہونے کے ناطے میں میں نے اس واقعہ کے رونما ہونے کا یقین کیا ۔یہ کہانی مجھ تک کئی حوالوں سے پہنچی تھی اس لئے میں نے پیر ابونعمان رضوی صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ یہ کہانی سنی اور مجھے ہضم نہیں ہورہی تو وہ مسکرا دئےے ” وللہ مجھے بھی یہ ہضم نہیں ہورہی تھی بلکہ میں تو ابھی تک ہانپ رہا ہوں “
” کیا مطلب ،ایسا کیا ہوگیا ؟“
بولے ” یہ میری زندگی کا ناقابل فراموش کیس ہے اور ایک بار تو مجھے گمان ہوگیا کہ یہ جنات اپنی برادری کے ساتھ مجھ پر غلبہ پالیں گے “ میں نے اس پر وضاحت مانگی تو بولے ” صدر لاہور میں ایک گھر ہے جہاں جنات کی پوری پکھی آباد تھی ۔یہ جنات کسی ایسی بیماری میں مبتلا تھے کہ سبھی معذور تھے ،کسی کا بازو نہیں تھا تو کسی کا بازو تن سے لٹک رہا تھا کسی کی ٹانگیں گھسٹ رہی تھیں تو کوئی اندھا تھا ۔ہر کوئی کسی نے لعنت زدہ مرض میں مبتلا تھا ،نسل در نسل معذور جنات کی یہ پکھی سو سال سے صدر کے اس گھر میں رہ رہی تھی ۔اب تک ستائیس کرایہ دار یہاں آئے اور سبھی بھاگ گئے۔“
” کیا میں ان لوگوں سے مل سکتا ہوں “ میں نے سوال کیا
” کن سے ،جنات سے ؟“ پیر ابو نعمان رضوی نے پوچھا ۔
” ان سے بھی ہوجائے تو اچھی بات لیکن اس گھر میں رہنے والوں سے تو لازمی ملاقات کرادیں“ پیر صاحب نے اگلے روز ان لوگوں کو اپنے آستانے پر بلایا۔یہ دونوں بھائی فیصل ٹاون میں قصاب کی دوکان کرتے ہیں ۔ویسے نارووال کے رہائشی ہیں ہیں لیکن کاروبار کے سلسلہ میں صدر لاہور میں قیام رکھا ہوا ہے ۔
” ہم تو ابھی تک اس منظر سے باہر نہیں نکل سکے جناب “ وقاص نامی نوجوان نے میرے سوال پر بات شروع کی۔” میرے بڑے بھائی نے یہ گھر کرایہ پر لیا تھا ،جگہ پرانی ہے ،پرانا گھر مسمار کرکے نیا بنایا گیا ہے لیکن اس میں جنات کا بسیرا تھا ۔پہلے ہم نے سنا تھا کہ جو بھی اس گھر میں رہتا ہے اسکو بیماریاں چمٹ جاتی ہیں اور اگر ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتو وہ پیدائشی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ہمارے ساتھ جب گھر میں پے در پے حادثے ہونے لگے ،بیماری ،لڑائی ،مالی نقصان ،رشتوں میں ناچاقی اور راتوں کو عجیب و غریب آوازوں کا آنا ۔ایسے معاملات شروع ہوئے تو ہم نے عاملوں کو بلانا شروع کیا لیکن کوئی بھی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا تھا ۔پھر ہمیں پیر صاحب کا معلوم ہوا تو ہم انہیں گھر لیکر گئے تو پیر صاحب نے پہلے استخارہ کرکے بتایا کہ گھر میں جنات کے اثرات ہیں ۔اسکے بعد انہوں نے حاضری لگائی تو ان میں سے کئی جنات تو ظاہر بھی ہوگئے ۔ان کی شکلیں دیکھ کر ہم خوف سے سہم گئے ۔بچوں بڑوں نے چیخیں مارنی شروع کردیں ،اللہ معاف کرے ابھی تک انکی شکلیں دماغ سے چمٹی ہوئی ہیں “
”آپ کو علم تھا یہاں جنات کی پکھی آباد ہے “میں نے پیر صاحب سے دریافت کیا
” پہلے نہیں تھا لیکن جب انکی شکلیں دیکھیں اور تعداد بھی بڑھنے لگی تو میرے بھی پسینے چھوٹ گئے لیکن اللہ پر توکل نے مجھے حوصلہ دیا ۔یہ جنات حقیقت میں قابل رحم تھے ۔ہندو تھے ،ان کے بڑوں کے پاپ ان کی نسلوں کو بھگتنے پڑ رہے تھے ۔ان کے بڑوں نے ایک مسلمان بزرگ کی شان میں گستاخی کی تھی اورمسلمانوں کی لڑکیوں کو کراب کرتے تھے جس پر ان بزرگوں نے ان جنات میں سے کئی کو ماردیا اور باقی انکی بددعا سے معذور ہوگئے۔میں نے ان جنات سے مکالمہ کیا۔ وہ جانے کے لئے تیار نہیں تھے ۔اس پر میں نے انہیں مارنے کی دھمکی دی لیکن پھر انہیں آفر دی کہ اگر وہ یہ جگہ چھوڑ دیں گے اور پاکستان سے نکل جائیں گے تو ان کی آنے والی نسلیں صحت مند پیدا ہوں گی ۔انہیں یہ بات پسند آگئی اور میں نے انہیں کچھ تعویذات دئےے اور وہ چلے گئے ۔لیکن جانے سے پہلے انہوں نے ہر طرح سے مجھے اور اہل خانہ کو بہت ڈرایا ۔بڑا اودھم مچایا ۔لیکن کلام اللہ کے سامنے ان شیطانوں کی ایک نہ چلی ۔ مجھے اس دن یہ بات سمجھ آئی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ جن گھروں میں معذور بچے نسل در نسل پیدا ہوتے ہوں وہاں ایسے معذور جنات وغیرہ رہتے ہوں جو انسانی خون میں شامل ہوکر انسانوں کی صحت اور نسل برباد کردیتے ہوں ۔اس پر ہم سب کو تحقیق کرنی چاہئے ۔“ پیر صاحب کی بات نے مجھے سوچ میں ڈال دیا ۔کیا جنات کا وائرس بھی انسانوں کے خون میں شامل ہوجائے تو انسان ایسے مہلک اور ناقابل علاج بیماری میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔اسکا علاج روحانی ہوگا یا میڈیکلی ؟ اس پر تحقیق کرنی چاہئے۔ (شاہد نذیر چودھری)