کالا باغ ڈیم مفاد پرست سیاست دانوں کی نظر  

کالا باغ ڈیم مفاد پرست سیاست دانوں کی نظر  
کالا باغ ڈیم مفاد پرست سیاست دانوں کی نظر  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


  ہندوستان میں مغلوں  کے دور حکومت سترویں صدی میں  برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کئے اس مقصد کے لئے انہوں نے ہندوستانی نوابوں، راجاؤں اور درباریوں کو تحائف و مراعات دے کر اپنے ساتھ ملانا شروع کیا  آہستہ آہستہ ایسٹ انڈیا کمپنی برطانوی حکومت کے ہراول دستے میں تبدیل ہو گئی اور ہندوستان برطانیہ کے زیر تسلط چلا گیا جب 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا کچھ نام نہاد سیاست دان، وڈیرے اور نواب ہندوستان اور انگریزوں کے لئے کام کرتے رہے جس کے نتیجہ میں پاکستان دو لخت ہوا اور بقیہ پاکستان مصائب کا شکار ہو گیا۔ ایوب خان نے اپنے دور حکومت میں دلیرانہ فیصلے کئے جس کے نتیجے میں تربیلہ ڈیم، منگلا ڈیم اور سندھ طاس معاہدہ وجود میں آیا۔ زراعت و صنعت میں بے پناہ ترقی ہوئی مزید ترقی خوشحالی کے لئے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بنا جس نے پاکستان کو مزید خوشحال بنانا تھا۔ ہندوستان و دیگر طاغوتی طاقتوں کے ایجنٹ سیاست دانوں نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت شروع کی اور اس کی تعمیر کو رکوانے میں کامیاب ہو گئے جس کے بھیانک نتائج پوری قوم سیلابوں، لوڈشیڈنگ اور بنجر زمینوں کی شکل میں بھگت رہی ہے۔ پاکستان کے دریاؤں میں اوسطاً سالانہ 144MAF پانی گزرتا ہے جس میں 70 فیصد پہاڑوں کے برف پگھلنے اور تیس فیصد نارمل بارشوں کی وجہ سے آتا ہے 144MAF پانی میں سے 98MAFمنگلا، تربیلہ، چشمہ و دیگر چھوٹے ڈیموں میں سٹور ہوتا ہے جو کہ زراعت و بجلی کے لئے ناکافی ہے بقیہ پانی مون سون کے مہینوں میں تباہی پھیلاتا ہوا سمندر میں چلا جاتا ہے 2010ء میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشیں تو معمول کے مطابق رہیں لیکن پہاڑوں پر برف معمول سے 160 فیصد سے زائد پگھلی جس سے دریاؤں میں طغیانی بہت زیادہ آئی جس نے سیلابی شکل اختیار کر لی اور نقصانات بہت زیادہ ہوئے اس سال مزید موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سندھ، بلوچستان اور سدرن پنجاب میں مون سون کے چھ سپیل آئے جبکہ معمول کے مطابق ایک سے دو سپیل آتے ہیں زیادہ سپیل کی وجہ سے تقریباً 450 فیصد زیادہ بارش ہوئی دریائے کابل میں زائد بارشوں کی وجہ سے معمول سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ کیوسک کا ریلا آیا، دریائے سوات میں تین لاکھ پینتیس ہزار کیوسک کا ریلا آیا، تونسہ کے مقام پر ساڑھے سات لاکھ کیوسک کا ریلہ آیا، دریائے سوات، کابل، سندھ، جہلم، چناب اور دیگر چھوٹے ندی نالوں کا بہاؤ بڑھتا گیا جو سندھ کو تباہی و بربادی کی طرف لے کر جا رہا ہے جس سے معیشت، زراعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے چالیس سال پہلے ہر پاکستانی کو پانچ ہزار کیوبک فٹ پانی دستیاب تھا جو گھٹ کر ایک ہزار کیوبک فٹ پر آ گیا ہے جبکہ  دو ہزار کیوبک فٹ سے کم پانی والا ملکپانی کی کمی والے ملک میں شمار ہوتا ہے موجودہ ڈیموں کی سٹوریج بھی ریت جمنے کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے ان تمام مسائل میں تیس فیصد کمی کا واحد حل کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہے۔ نام نہاد سیاست دانوں نے کالا باغ ڈیم کے بننے سے نوشہرہ ڈوبنے کا تاثر دیا تھا جو کہ حقائق پر مبنی نہیں۔ نوشہرہ تو بغیر ڈیم کے ڈوب رہا ہے کالا باغ ڈیم کے بننے سے سب سے زیادہ سندھ کو فائدہ ہوگا ڈیم کے بننے سے سیلابی پانی سٹوریج میں چلا جائے گا جس سے بنجر زمینوں کا تیس فیصد حصہ آباد ہوگا اور پورا سال فصلوں کو مناسب پانی ملتا رہے گا ساڑھے چار ہزار میگا واٹ اضافی بجلی تقریباً تین روپے فی یونٹ میں حاصل ہو گی جو  دس سالوں میں پچاس پیسے سے کم  ہو جائے گی جبکہ دیگر ایندھن سے بجلی پر 22 روپے سے زیادہ فی یونٹ لاگت آتی ہے اور کثیر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے پہاڑوں سے برفیلا پانی ذخیرہ ہوگا اور دریائے سندھ کی خصوصاًسطح بھی کنٹرول میں رہے گی جس سے پنجاب، سندھ کے کچے کے علاقے زیر آب نہیں آئیں گے اور ضروری پانی نہروں سے دستیاب ہوگا موجودہ صورت حال میں جب زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو میدانی علاقوں والی بارش کا پانی دریا میں جانے کی بجائے انہی علاقوں میں کھڑا رہتا ہے جس سے فصلیں، مویشی انسان  متاثرہوتے ہیں۔ ڈیم بننے سے دریاؤں کی سطح کم رہے گی اور بارشوں کا پانی آسانی سے دریاؤں میں چلا جائے گا جس سے فصلیں، مویشی، انسان اور مکان تباہی سے بچ جائیں گے۔ سستی بجلی مہیا ہو گی۔ صنعتیں ترقی کریں گی ٹیوب ویل زراعت کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ حکومت پاکستان، فوج و دیگر سیاست دانوں کو ملکی مفاد میں کالا باغ ڈیم کی افادیت کے پیش نظر تمام ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر اس کی تعمیر فوراً شروع کرانی چاہئے اور خصوصاً سندھ کی غریب عوام کو آفت سے بچانے کے لئے اہم کردار ادا کریں اور ملک کی ترقی میں اضافہ کریں۔

مزید :

رائے -کالم -