اڑسٹھ لاکھ پچاس ہزار کم نہیں  

   اڑسٹھ لاکھ پچاس ہزار کم نہیں  
   اڑسٹھ لاکھ پچاس ہزار کم نہیں  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 جیرے میراثی کا بیٹا مرا تھا لیکن وہ دل میں خوش تھا۔ عام حالات میں اگر بیٹا مرتا تو اسے شدید دکھ ہوتا کہ وہ اس کی زندگی کی واحد کمائی تھا جو اس کے پاس تھی، لیکن جس طرح بابو ایک امیرزادے کی تیز رفتار بے قابو گاڑی سے کچلا گیا تھا اور ٹی وی پہ اس کی بات ہورہی تھی، جیرا سمجھ گیا تھا اب زندگی کی ڈگر بدلنے والی ہے، اس کا بیٹا مرا تھا لیکن وہ اور باقی گھر والے بہت دیر تک بہتر زندگی جینے والے ہیں۔ بیٹے کے مرنے سے اس کے بھاگ جاگ گئے تھے، ورنہ جب سے بابو پیدا ہوا تھا گھر میں کل کل ہی ختم نہیں ہوتی تھی، اس کی بیوی رکھی کہتی بیٹے کو پڑھا لکھا کر بابو بناؤں گی  اور جیرا کہتا میں اسے اپنے کام میں لگاؤں گا، پڑھ کے بھی اسے نوکری نہیں ملنی، مل بھی گئی تو افسر نہیں لگ سکتا، بڑا افسر لگنے کے لیئے بڑے تعلقات اور پیسہ چاہیئے ہوتا ہے اور ہم غریبوں کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں، ہم جیسے ماڑے لوگ چھوٹے کاموں کے لیئے بنے ہیں۔ کسی دفتر میں چائے بنادی، فائلیں پکڑادیں یا پھر بلدیہ میں جمعدار بھرتی ہوگئے  اور اب تو جمعداری کی نوکری کے لیئے بھی تگڑی رشوت چلتی ہے، نوکری نہ ملی تو ایویں کڑھتا رہے گا ساری عمر۔ پڑھ گیا تو زیادہ دماغ خراب ہوگا اس کا، باپ دادا کے کام سے نفرت کرے گا، دوکان ڈالنے کے ہمارے پاس پیسے نہیں۔ پیچھے کیا رہ جائے گا کرنے کو نشہ یا خود کشی،بہتر ہے عزت کے ساتھ اپنا ہی کام کرے۔

 جیرے نے  تو میراثی کا میراثی ہی رہنا  ہے، میرا بابو چار بہنوں کا اکلوتا بھائی خیری صلا کیوں کرنے لگا نشہ یا خود کشی، منہ اچھا نہیں تو بات ہی اچھی کر لیا کر، لیکن تو نے قسم کھائی ہے اپنے منہ جیسی ہی بات کرنی ہے۔

جیرے میراثی کا اکلوتا بیٹا سکول جاتا۔ بیوی کالی رنگت پہ گہری لال سرخی لگا کر ڈھولک پکڑے کام پہ نکل جاتی۔ رکھی اور اس کی ساتھی خیراں محلے محلے جاتیں، جہاں پتہ لگتا شادی یا کاکا ہوا اس گھر کی دہلیز پکڑ لیتیں، گھر کے بند دروزے اکثر ان پر کم ہی کھلتے وہ گلی میں ہی ڈھولک بجا اور گا گا کر بدھائیاں مانگتی رہتیں، اکثر جھڑکیاں اور گالیاں بھی کھاتیں لیکن ڈھیٹ بنی رہتیں، ویلیں لے کر ہی اٹھتیں۔ اور پھر جا کر اپنے خصموں کو بھیج دیتیں، رات کو جیرا ایک تھیٹر میں کام کرتا۔ کبھی کبھی کوئی نئی جگت بھی لگا لیتا، جتنی فحش جگت لگاتا اتنی زیادہ داد ملتی، لیکن پیٹ داد سے نہیں روٹی سے بھرتا ہے، سارے دن کی خواری کے بعد مشکل سے دال روٹی نصیب ہوتی۔

رکھی اور جیرا بوڑھے ہورہے تھے اور ان کی امیدیں بیٹے کی صورت جوان، بابو نے فیل ہو ہو کر بارہ جماعتیں پاس کر ہی لی تھیں۔ 

رکھی بابو سے نوکری کرنے کا کہتی اور بابو اس موضوع سے جان چھڑاتا، اس کے سکول کا سیکورٹی گارڈ ایم اے پاس تھا، جس کی تنخواہ پچیس ہزار تھی۔ جس سے پانچ ہزار ہر ماہ کمپنی والے اپنی کمیشن رکھ لیتے، بابو کی تعلیم تو نہ ہونے کے برابر تھی، اسے کہاں نوکری ملتی۔

 آج پھر لڑ جھگڑ کر رکھی نے بابو کو نوکری ڈھونڈنے بھیجا، وہ بکتا جھکتا گھر سے نکل گیا، کچھ ہی دور گیا تھا کہ تیز رفتار گاڑی سے کچلا گیا، گاڑی اوور سپیڈ تھی اور بابو خیالوں میں مگن۔ سو دونوں ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔ 

لیکن اسے قسمت کہیئے کہ ادھر سے کسی چینل کا رپورٹر گذررہا تھا، اسے ایک بڑی خبر مل گئی۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی بوڑھے ماں باپ کی امیدوں کا واحد مرکز نوکری کی تلاش میں گھر سے نکلا تھا، کہ ایک بگڑے رئیس زادے نے اسے اپنی امارت کے نیچے روند ڈالا، رپورٹر چیخ چیخ کر ٹی وی پہ بتا رہی تھی۔ 

بابو کی لاش گھر آئی تو اس کے رشتے داروں سے زیادہ ٹی وی،اخبار کے رپورٹر آئے، خوب چرچا ہوا۔ 

 مجرم موقع پر پکڑا گیا، مجرم کو ہر صورت سزا ملنی چاہیئے، مجرم کے والدین جیرے اور رکھی کے دکھ میں برابر کے شریک۔ انھوں نے ہر قسم کے تعاون کی یقین دیانی کرائی، مجرم کے والدین دیت دینے کو تیار، بااثر مجرموں کو دیت کے نام پر کسی صورت بچنے نہیں دیں گے، ہر صورت سزا دلوا کر رہیں گے۔ سماجی تنظیموں کا بیان ، ہر ٹی وی چینل پہ ایک ہی خبر تھی۔

میں اس امیر زادے کو معاف نہیں کروں گی، پھانسی چڑھاؤں گی، رکھی کا رو رو کے برا حال تھا۔ 

شور ڈالنے تک ٹھیک ہے جتنا ڈال سکتی ڈال لے لیکن معاملہ پیسے لیکر ہی ختم ہونا، یہ بات سمجھالے خود کو۔

 تجھے شرم نہیں آتی بیٹے کی لاش کا سودا کرتے، رکھی تڑپ اٹھی۔زیادہ بک بک نہ کر۔ شکر کر پیسے مل رہے ہیں نہ ملیں، تو کیا کر لے گی، وہ پیسے والے لوگ ہیں جتنے پیسے ہمیں دے رہے  ہیں اس سے آدھے پولیس والوں کو دے کر معاملہ دبا لیں گے  اور یہ جو ٹی وی والوں کے پیچھے لگی ہے کہ وہ تجھے انصاف دلائیں گے، تو یاد رکھ یہ ہمارے لیئے نہیں اپنے لیئے کام کرتے ہیں۔ سب اپنی روٹی کمانے کے چکر میں ہیں، چار دن سے زیادہ تیری خبر نہیں چلائیں گے۔ جس طرح باسی سالن کی اہمیت نہیں ہوتی اور اسے پھینک دیا جاتا ہے، اسی طرح دو دن پرانی خبر بھی اہمیت نہیں رکھتی ان کے لیئے، پرانے مسئلے چھوڑ کر نیا مصالحہ ڈھونڈ لاتے ہیں، چار دن بعد تو اور تیرا بیٹا کسی کو یاد بھی نہیں رہنے،بہتر ہے موقع سے فائدہ اٹھا، ورنہ بیٹے سے تو گئے ہیں پیسوں سے بھی جائیں گے، تیرے بیٹے کے بدلے اڑسٹھ لاکھ پچاس ہزار مل رہے، یہ چھوٹی رقم نہیں ہے، اتنے پیسے تو ہماری سات نسلیں نہیں کما سکتیں، تھوڑی سی حجت حیل کر کے پیسے بڑھا سکتے ہم۔ 

جیرا رکھی کو سمجھانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ بابو کے قاتل کا باپ رات پیسے دے گیا، ہمیں کچھ نہیں چاہیئے ہم نے بیٹے کے قاتل کو اللہ رسوؐل کے نام پہ معاف کیا۔ جیرا اور رکھی صبح عدالت میں بیان دینے کے بعد میڈیا کو بتا رہے تھے۔

مزید :

رائے -کالم -