قانون کی حکمرانی سے ہی پاکستان ترقی کرے گا
پاکستان صرف قانون کی حکمرانی اور امن و امان کی بحالی سے ہی ترقی یافتہ ملک بن پائے گا۔ امن و امان کے بغیر ہم گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ دنیا سے بھاری سود پر قرض حاصل کر کے کب تک ہم پاکستان کو چلاتے رہیں گے۔ یہ بات بھی ایک حقیقت بن کر ہمارے سامنے آئی ہے کہ ہم سود کے کھاتے میں پڑنے والی رقوم کو بھی قرض لے کر ادا کرتے ہیں۔ ساری دنیا ہمارے سامنے بدل چکی ہے۔ قوموں کا نظام زندگی اور ان کے معاشرے تبدیل ہو کر فلاحی ملکوں میں بدل چکے ہیں، وہاں حکومتوں کا فرض اول ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ان کی اہلیت اور قابلیت کی مناسبت سے روزگار دیں۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو پھر ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ تمام بے روزگار لوگوں کو معقول مالی امداد دیں، جس سے ایسے لوگ اپنے اخراجات کو خوش اسلوبی سے پورا کر سکیں۔ ایسے لوگوں کو مفت رہائش مہیا کرنا بھی ضروری ہے۔ مَیں نے خود اپنی آنکھوں سے برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں مفلوک الحال لوگوں کی امداد اور اُن کی آباد کاری کے کاموں کو ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
عام زبان میں ایسے ملکوں کو فلاحی معاشرے کا نام دیا جاتا ہے۔ مطلب یہی ہوتا ہے کہ ملک کے شہری پُرامن اور پُرسکون زندگی بسر کر سکیں۔ کسی بھی شہری کے ساتھ غیر انسانی سلوک وہاں ممکن نہیں ہے۔ ہر کام آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ جب بھی وہاں کسی جرم کا ارتکاب ہوتا ہے تو قانونی ادارے فوراً حرکت میں آجاتے ہیں۔ ملزمان کو موقع پر پکڑ لیا جاتا ہے۔ وہاں جو ایک اٹل اور آخری بات ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہر کوئی قانون کے سامنے برابر ہے، کوئی بھی قانون کو توڑ کر راہ فرار اختیار نہیں کر سکتا ۔ اسی دائرے میں حکمران اور شاہی خاندان کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ وہاں یہ کہنے کی نوبت نہیں آتی کہ وہ حکمران ہے ، اس وجہ سے وہ قانون کی گرفت سے آزاد تصور ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے معاشروں نے زندگی کے ہر میدان میں شاندار ترقی کر رکھی ہے۔ کوئی بھی شہری وہاں بھوک یا بلا علاج موت کے منہ میں نہیں جاتا۔ ہر بیمار کا علاج مفت ہوگا۔ بے روزگار کو بے روزگاری الاو¿نس مل سکے گا۔ کوئی بھی شہری اُدھر بلا رہائش سڑک پر پڑا ہوا نہیں ملے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ سڑکوں کے کناروں اور باغات میں آرام کرتے ہوئے دیکھے جائیں گے۔
جب تک کسی قانون کی صاف خلاف ورزی نہ ہو، اس وقت تک قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے کسی کی ذاتی زندگی میں ہرگز مخل نہیں ہو سکتے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ان معاشروں میں صرف فرشتے نہیں رہتے۔ وہاں بھی قانون شکن لوگ موجود ہیں، مگر ان کی تعداد میرے نزدیک بہت ہی قلیل ہوگی۔ وہاں ”ریپ“ کے عام مقدمات ہوتے ہیں۔ ان مقدمات کی نوعیت ہمارے ہاں ہونے والے مقدمات کی نوعیت سے مختلف ہوگی۔ ان ملکوں میں جرائم کرنے والے لوگوں کا عدالتوں سے بچ نکلنا بہت ہی مشکل ہوگا۔ وہاں دروغ گوئی کرتا ہوا گواہ شاید ہی نظر آئے ۔ زیادہ تر لوگ اقبالِ جرم کا اعلان کرتے ہیں۔ اس طرح وہاں کی عدالتوں کا کام بھی بہت حد تک آسان ہو جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں سزائے موت کا تصور کم ہوتا جا رہا ہے۔ وہ زندگی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ملزمان کی ذہنی اور دماغی اہلیت اور قابلیت کو اچھی طرح دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ ایسا کرنے کے بعد ہی جرم ثابت ہونے پر ملزم کو سزا کا مستحق قرار دیا جاتا ہے۔
وہاں کے ”جیل خانہ جات بھی اصلاح گاہوں میں تبدیل کر دئیے گئے ہیں۔ ملزمان اور مجرمان دونوں کو جیل کی سلاخوں کے اندر بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی جیلوں میں باقاعدہ سکول کھولے جائیں۔ تمام قیدیوں کو لازمی تعلیم دینے کا بندوبست ضروری ہوگیا ہے۔ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے، جس سے انسانی دماغوں کو بدل دیا جاتا ہے۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ آزادی کے 64 سال گزر جانے کے بعد بھی تعلیم کے میدانوں میں کوئی ”بریک تھرو“ ممکن نہیں ہو سکا۔ بامقصد تعلیم سے آراستہ بہت کم لوگ جرائم کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ میری رائے کے مطابق بہت تھوڑے پڑھے لکھے برسرروزگار لوگ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں بے روزگاری جرائم کرنے کے لئے ایک بڑی وجہ نظر آتی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں لوگ معقول روزگار سے محروم ہیں۔ ایسے ہی لوگ جرائم کی طرف اپنا رخ موڑ لیتے ہیں۔ بے روزگاری کو ختم کرنا جرائم میں کمی کا موجب بن سکتا ہے۔ ہمارے ماہرین کا فرض ہے کہ وہ بھی اس موضوع پر توجہ دیں۔ تمام سکولوں اور کالجوں میں ٹیکنیکل تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا سب سے بڑا شہر کراچی اس وقت بدامنی اور ہر قسم کے چھوٹے بڑے جرائم کا بہت بڑا مرکز بن چکا ہے۔وہاں آئے روز قتل و غارت، ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے۔ کراچی دنیا کے چند بڑے شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کی آبادی کروڑ کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ وہاں لاکھوںغیر پاکستانی بھی آکر آباد ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں میں زیادہ تعداد جرائم پیشہ لوگوں کی موجود ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں نے شہر میں جگہ جگہ محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ جرائم پیشہ لوگ جرائم کرنے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ان پناہ گاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ ان پناہ گاہوں کی درست طور پر نشاندہی کریں اور پھر قانون کے مطابق ان پناہ گاہوں کو تباہ کر دیں۔ ملزمان کو رنگے ہاتھوں گرفتار کریں۔ ان کے قبضے سے غیر قانونی طور پر جمع کئے ہوئے ہتھیار ضبط کر لیں۔ ایسا کیا جانا ممکن ہے بشرطیکہ ہماری پولیس اور دیگر ادارے ایمانداری سے اس کام کا آغاز کریں۔ ہمارے پاس لاکھوں رینجرز اور پولیس والے کراچی میں موجود ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں یہ جرائم پیشہ لوگ چند ہزار کی تعداد سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ کراچی دنیا کے ہزاروں بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔
میرا سوال ہے کہ کیا کراچی کے حالات دنیا کے دیگر شہروں جیسے ہیں؟.... ٹوکیو، بیجنگ، ماسکو، لندن، تہران، مکہ، مدینہ، دمشق، کابل، واشنگٹن، دہلی، ڈھاکہ، سنگاپور بالکل ہمارے کراچی جتنے بڑے بڑے دنیا کے شہر ہیں۔ یہ تمام شہر پُرامن ہیں۔ ان شہروں میں کراچی جیسا فساد اور لگاتار قتل وغارت کے واقعات نہیں ہوتے۔ صرف ہمارا بدقسمت شہر کراچی ہی رہ گیا ہے۔ جہاں دن رات قتل و غارت اور لوٹ مار کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ آپ ذرا سوچیں کہ یہ کون لوگ ہیں، جو ہمارے وطن کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتے ہیں؟
دنیا والے حیرت سے ہمارا یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم مُٹھی بھر لوگوں کو قابو نہیں کر سکے۔ ہمارے حکمران سب کے سب سوئے پڑے ہیں، جبکہ ہماری قوم تباہ و برباد ہوتی جا رہی ہے۔ ہماری انڈسٹری تباہی کے دہانے پر کھڑی نظر آتی ہے۔ کیا یہ سارے کے سارے جرائم پیشہ لوگ ہماری سیاسی جماعتوں کے لوگ ہیں؟.... یہ سوال بھی انتہائی اہم اور قابل غور ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہماری بہت سی سیاسی جماعتوں میں اَن گنت لوگ شرافت کا لبادھا اوڑھ کر شامل ہوگئے ہیں۔ ہر کوئی بھتہ خوری کا کام نہیں کر سکتا ۔ بھتہ خور لوگ معاشرے کے بدکردار اور بدمعاش لوگ ہوا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا روزگار ہی بھتہ خوری ہوتا ہے۔ ایک ایک کر کے ایسے لوگوں کی نشاندہی ممکن ہو سکتی ہے۔ بہت سے ایسے لوگ پاکستان میں بڑی بڑی آسامیوں پر مدت سے براجمان چلے آ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو بوگس ڈگری کی بنیاد پر حقِ حکمرانی حاصل کرتے ہیں، کیا وہ لوگ بھتہ خوری کی بنیاد پر دولت اکٹھی کرنے سے باز آجائیں گے؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا ہے۔ ان لوگوں کے رگ و ریشے میں جائز ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھی کرنے کا جنون موجود ہوتا ہے۔
ان لوگوں کی طویل فہرست ہمارے ملک میں موجود ہوئی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کب ہوگی؟ ان کو کون پکڑے گا؟ ابھی تک تو مجھے ایسا کوئی بھی رہنما نظر نہیں آتا۔ پکڑنے والے خود منافع خور اور دولت کے پجاری بنے ہوئے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ہم سب کا معاشی اور اقتصادی دارالخلافہ کراچی جل رہا ہے۔ بجائے پانی ڈالنے کے اس پر مزید تیل پھینکا جا رہا ہے۔ یہ نہ ختم ہونے والی گینگ وار ہے۔ اس میں ہر کوئی کسی نہ کسی لحاظ سے حصہ ڈالتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اگر یہ لوگ واقعی کم ہیں تو پھر ان کو گرفتار کرنے میں کیا مشکلات ہیں؟ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ”اس گینگ وار“ کو جاری و ساری رکھنے کے لئے باہر کی طاقتوں کے ہاتھ اور سرمایہ نظروں سے ہرگز اوجھل نہیں ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں جدید ہتھیار اور گولہ بارود کہاں سے اور کیسے ان قانون شکن عناصر کے ہاتھوں میں آ رہا ہے۔ یہ ساری قتل و غارت اور لوٹ مار کی وارداتیں محض شوقیہ نہیں کی جاتی ہیں۔ بلکہ یہ تو ہماری قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش دکھائی دے رہی ہے۔ اگر ہمارے ہاتھ موجود ہیں تو ان آہنی ہاتھوں کو کب استعمال میں لایا جائے گا؟
کیا یہ مناسب ترین وقت نہیں ہے کہ معاشرے کی بنیادوں کو کمزور کرنے والوں کے ہاتھوں کو ایک ہی وار میں تباہ و برباد کو دیا جائے۔ ان کی تمام پناہ گاہوں کو ایک ایک کر کے ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ آج کل نگران حکمران پاکستان کے ہر قسم کے معاملات کو چلا رہے ہیں۔ ان کے سامنے سب سے اہم مسئلہ امن کا قیام ہے۔ خوش قسمتی ہے کہ اس وقت ہمارے وزیراعظم مسٹر جسٹس(ر) میر ہزار خان کھوسو ہیں۔ ان کو اس عہدے پر براجمان ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ساتھ ہی ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ملک کے دیگر حصوں میں امن بحال کریں۔ صوبائی حکومتوں سے مل کر تمام قانون شکن عناصر کو گرفتار کرنا بہت ضروری ہے، حکمرانوں کی ہنگامی بنیادوں پر میٹنگ بلائیں ، اس کے بعد تمام ملک میں پھیلی ہوئی شورش کو ختم کریں۔ امن کی بحالی کے لئے تمام حکمران دور رس نتائج کے حامل اقدامات اٹھائیں اور حکومتی رٹ کو بحال کریں۔ اگر ہمارے حکمران امن بحال کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ تاریخ پاکستان میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اس کام میں قوم کا بچہ بچہ ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہوگا۔ جب انسان عزم و ہمت سے کام کرنا شروع کرتا ہے تو مشکل سے مشکل کام آسان تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سری لنکا بھی ہمارے ملک جیسے حالات سے دو چار رہا ہے۔ انہوں نے کس طرح ایک مدت سے جاری جنگ کو انتہائی کامیابی سے ختم کیا تھا؟.... یہ مثال بھی ہمارے لئے قابل غور ہوگی۔ میری یاداشت کے مطابق سری لنکا نے طاقت کے بل بوتے پر باغیوں پر فتح حاصل کی تھی۔ ہمیں بھی طاقت کے استعمال سے گریز نہ کرنا ہوگا۔ مسلح بغاوت کو مسلح لوگ ہی کچل سکتے ہیں۔ یہی راستہ قابل عمل مجھے نظر آتا ہے۔ ٭