میں وہاں سے جتنی جلدی ہوسکے اندلس روانہ ہوجانا چاہتا تھا لیکن کاؤنٹ کارڈول نے کہا تھا کہ وہ مجھے اپنی خاص کشتی میں بٹھا کر اس جزیرے سے لے جائے گا، چنانچہ جب میں نے کھانے کی میز پر اس سے اپنی روانگی کے بارے میں پوچھا تو اس نے مسکرا کر کہا
’’سینیور! دو ایک روز یہاں آرام کرو، پھر تمہیں لے چلوں گا۔ تم میریم حسن ہو میں تمہاری خدمت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
کھانے کی میز پر بھی میں نے دیکھا کہ ازابیلا کا چہرہ اداس اداس تھا۔ وہ نئے لباس میں تھی۔ خادماؤں نے اس کے بالوں میں گلاب کے پھول سجائے ہوئے تھے۔ ادھیڑ عمر کاؤنٹ بار بار اپنی بھانجی کو کچھ نہ کچھ کھانے کو کہہ رہا تھا۔ جوں جوں رات گہری ہرہئی تھی، ازابیلا کی اداسی اور بے چینی میں اضافہ ہورہا تھا اس کی تبدیلی کو میں بڑے واضح طور پر محسوس کررہا تھا۔ رات کے دوسرے پہر کھانے کی محفل تمام ہوئی۔ ادھیر عمر کاؤنٹ نے مجھے میری دوسری منزل والے کمرے میں بھجوادیا اور خود ازابیلا کا ہاتھ تھام کر اسے اس کے کمرے میں چھوڑنے چل دیا۔ ازابیلا کا رنگ زرد تھا اور وہ کاؤنٹ کا ہاتھ تھامے ایک برگ خشک کی طرح کپکپاتی ہوئی چل رہی تھی۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 155 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میرے کمرے کی محرابی کھڑکی کے آگے خادمہ نے بھاری پردہ گرادیا تھا اور بستر لگا ہوا تھا۔ کونے کے شمع دان میں چراغ روشن تھا، اس کی روشنی دھیمی او رنرم تھی۔ یہاں موسم سرد تھا۔ میں نے چراغ بجھایا اور بستر میں لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں۔ میرے ذہن میں کئی قسم کے خیالات آرہے تھے۔ پھر مجھ پر غنودگی سی طاری ہونے لگی، حالانکہ اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ میں اپنی مرضی سے ضرور کبھی کبھی نیند لے لیتا تھا مگر اپنے آپ مجھ پر غنودگی طاری نہیں ہوتی تھی۔ میں نے آنکھیں کھول دیں، میری پلکیں بوجھل ہورہی تھیں، کمرے میں اندھیرا تھا۔ میرے سرہانے کے پاس ہی کھڑکی والے بھاری پردے کی رسی لٹک رہی تھی۔ میں نے رسی کو تھوڑا سا کھینچ دیا۔ پردہ کھڑکی کے آگے سے تھوڑا سا ہٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی ستاروں بھری رات کی پھیکی پھیکی ہلکی کافوری روشنی کمرے میں ایک پراسرار آسیب کی طرح پھیل گئی۔
میری پلکیں دوبارہ بھاری ہونا شروع ہوگئیں۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا، میں عالم بے بسی میں نہیں سونا چاہتا تھا۔ کمرے کی فضا میں ضرور کوئی آسیب تھا۔ جس کا مجھ پر اثر ہورہا تھا۔ لیکن بظاہر کمرے میں کسی آسیب کی ایک بھی نشانی نظر نہیں آرہی تھی۔
ایک دن رات کی گہری خاموشی میں مجھے کسی بچے کی رونے آواز سنائی دی۔ میں متعجب سا ہوکر ہمہ تن گوش ہوگیا کہ یہ آواز کہاں سے آئی۔ جب کہ سارے ویران محل میں مجھے بچہ کہیں نظر نہیں آیا تھا۔
بچے کے رونے کی آواز ایک بار ابھر کر پھر معدوم ہوگئی۔ اس آواز نے اپنے پیچھے آسیبی خاموشی کا ایک خلا سا پیدا کردیا تھا۔ ایک پل کے لیے خیال آیا کہ شاید میرا وہم تھا۔ ایک ایسے محل سے کسی بچے کی رونی کی آواز کیسے آسکتی ہے۔ جہاں کوئی بچہ ہی نہیں ہے۔
میری پلکیں ایک بار پھر بوجھل ہونا شروع ہوگئیں۔ میں اپنی بھرپور قوت ارادی سے کام لیتے ہوئے اپنی آنکھیں کھلی رکھے ہوئے تھا۔ اب مجھے کمرے کی فضا میں ایک عجیب قسم کی بو محسوس ہوئی، جو میں نے ایک بار میسو پوٹیمیا کے علاقے میں ایک ایسے غار میں محسوس کی تھی جہاں چمگادڑوں کا بسیرا تھا۔ میں ابھی اس بو کے بارے میں غور ہی کررہا تھا کہ وہی بچے کے رونے کی آواز دوبارہ سنائی دی۔ آواز کھڑکی سے باہر نیچے باغ سے تھوڑی دیر کے بعد مسلسل آنے لگی۔ میں بستر سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس آیا او رباہر جھانک کر دیکھا۔ آدھی رات کے موت ایسے سناٹے میں نیچے سنسان باغ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ رونے کی آواز اس بار بلند ہوئی تو محسوس ہوا کہ یہ کسی بلی کے رونے کی آواز ہے۔ میں مطمئن ہو کر کھڑکی سے ہٹنے والا تھا کہ مجھے ایک پھڑپھڑاہٹ سنائی دی۔ یہ کسی بڑے پرندے کے لمبے پروں کی پھڑپھڑاہٹ تھی۔ اندھیرے میں مجھے اب ہر شے دھندلی دھندلی نظر آنے لگی تھی۔ میں نے دیکھا کہ سیاہ رنگ کے کسی بہت بڑے پرندے کا سایہ محل کی پہلی منزل کی کھڑکی میں سے پھڑپھڑاتا ہوا نکلا اور انجیر کے درختوں کی طرف جاکر اندھیرے میں غائب ہوگیا۔ یہ کیا معمہ تھا؟ اتنا بڑا پرندہ محل کے کمرے میں سے کہاں سے نکل آیا تھا؟
اجڑے ہوئے ویران محل میں پھر وہی موت کا سناٹا چھاگیا۔ خوشگوار بو اب کم ہوگئی تھی۔ میں دوبارہ کھڑکی سے پیچھے ہٹنے ہی والا تھا کہ جس کھڑکی پر سے پراسرار سیاہ پرندہ پھڑپھڑاتا ہوا اڑا تھا۔ وہاں دھیمی روشنی ہوئی۔ میں بڑے غو رسے اس دھندلی روشنی کو تکنے لگا۔ یہ روشنی بڑھنے لگی۔ میرے دیکھتے دیکھتے ایک عورت کھڑکی میں سے باہر نکل آئی۔ اس کے ہاتھ میں موم بتی جل رہی تھی میں اس عورت کو پہچاننے میں ذرابھی غلطی نہیں کرسکتا تھا۔ یہ کاؤنٹ کی بھانجی ازابیلا تھی۔ اس نے ایک باریک سا لمبا ریشمی گاؤن پہن رکھا تھا۔ سیاہ بال شانون پر کھلے ہوئے تھے، ہاتھ میں موم بتی روشن تھی۔ وہ کھڑکی میں سے اتر کر نیچے زیتون کے درختوں کے درمیان آکر کھڑی ہوگئی۔ وہ ساکت کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں سامنے باغ کے گھنے درختوں کی تاریکی پر جمی ہوئی تھیں۔ میں حیران ہورہیا تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ اتنے میں بلی کے رونے کی آواز ایک بار پھر بلند ہوئی۔ یہ واقعی بڑی ڈراؤنی آواز تھی۔ لگتا تھا کوئی سنگدل شخص بلی کو ذبح کررہا ہے۔ بلی کی چیخ فضا میں بلند ہوکر ختم ہوگئی۔
ازابیلا نے ایک دم سے پھونک مار کر موم بتی کو بجھادیا۔ اندھیرے میں وہ مجھے ہیولے کی طرح نظر آرہی تھی۔ ازابیلا نے بجھی ہوئی موم بتی کو کھڑکی میں رکھا اور دونوں بازو نیچے گرائے کسی زندہبت کی طرح تاریک درختوں کی طرف چل پڑی۔ یہ ایک ایسے راز کی بات تھی جس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے میرے اندر ہلچل سی مچ گئی۔ آخر ازابیلا کہاں جارہی ہے؟ بڑے سیاہ پروں والا پرندہ کیسا تھا اور بلی کے رونے کی آواز کہاں سے آئی تھی؟ میں محل کی ٹھنڈی سنسان سیڑھی سے اتر کر نیچے باغ میں آگیا۔سارامحل اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایک ڈراؤنی خاموشی اور سناٹے نے ہر شے کو اپنی دبیز چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ میں تیزی سے اس کی طرف چل پڑا جدھر ازابیلا گئی تھی۔ وہ اب مجھے نظر نہیں آرہی تھی۔ جب میں انجیر کے درختوں کے تاریک سایوں میں آیا تو ازابیلا مجھے کہیں نظر نہ آئی۔ میں نے پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے ہوئے اسے محل کے باغ میں جگہ جگہ تلاش کیا مگر وہ کہیں بھی نہیں تھی۔ آگے محل کی دو منزلہ اونچی پرانی زنگ آلود دیوار آگئی۔ جس کی دوسری طرف سمندر کی لہریں ساحل کی ریت کو تھپک تھپک کر سلارہی تھیں۔
مجھے ازابیلا کے بارے میں تشویش ہوئی کہ آخر وہ کہاں غائب ہوگئی۔ وہ اتنی اندھیری رات میں اپنے کمرے سے موم بتی جلا کر کیوں نکلی تھی۔ ناخوشگوار بو کا معمہ کیا تھا اور بلی کی آخری چیخ پر اس نے موم بتی کیوں گل کردی تھی؟ یہ سب کچھ کسی طلسبی کہانی کا تانا بانا لگ رہا تھا۔ دل میں بار بار یہ خیال بھی آرہا تھا کہ کہیں ازابیلا کی زندگی خطرے میں نہ ہو۔ میں نے ایک بار پھر درختوں کے نیچے اندھیرے میں ازابیلا کی تلاش شروع کردی مگر پھر وہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ مایوس ہو کر واپس اپنے کمرے میں آکر بستر پر لیٹ گیا۔ اب نہ تو میری پلکیں بوجھل ہورہی تھیں اور نہ وہ ناخوشگوار بو فضا میں باقی رہی تھی۔ میں نے اٹھ کر کھڑکی میں سے جھانکا۔ باغ دم توڑتی رات کے اندھیرے میں ساکت و جامد سادکھائی دے رہا تھا۔ اسی طرح باقی رات بھی گزرگئی۔(جاری ہے)