اہل قلم کا تخلیقی کرب اور دلچسپ عادتیں

اہل قلم کا تخلیقی کرب اور دلچسپ عادتیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app




 وہ لوگ جو ادب سے خاص لگاﺅ رکھتے ہیں اور مطالعہ کرنا جن کا خصوصی شغف ہے،وہ یقینا مشہور و معروف ادیبوں، شاعروں اور اہل ِ قلم کی تصانیف اور اُن کے اسلوب ِ تحریر سے واقف ہوتے ہیں، لیکن لکھتے وقت وہ جس تخلیقی کرب سے گزرتے ہیں اور لکھنے کے عجیب و غریب دلچسپ طریقے اختیار کرتے ہیں، اُن سے بہت کم لوگ باخبر ہوںگے۔ تو آیئے آج ہم اُن مشہور اہل ِ قلم سے متعلق جانتے ہیںجو نہایت انوکھے اور منفرد انداز سے اپنے شہ پارے تخلیق کرتے ہیں:
اُردو کے بہت ممتاز و منفرد افسانہ نگار، ناول نویس، کرشن چندر کمرہ بند کر کے مکمل تنہائی میں لکھتے تھے۔ ایک بار اُن کی بیگم سلمیٰ صدیقی نے چپکے سے کمرے میں جھانک کر دیکھا اُن کا بیان ہے کہ کرشن چندر اِردگرد سے یکسر بے خبر، اپنے لکھنے کے پیڈ پر جھکے ہوئے تھے۔ اس لمحے اُن کا چہرہ بہت بھیانک اور اجنبی سا لگا۔ تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں، ہونٹ بھنچے ہوئے تھے اور اُن کے ہاتھ میں قلم خنجر کی مانند نظر آ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد کرشن چندر کمرے سے نکلے اور سیدھے کھانے کی میز پر پہنچے، اُس وقت اُن کا چہرہ پُرسکون اور بہت معصوم نظر آیا۔!
مشہور فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو کی یہ عادت تھی کہ وہ سیدھا کھڑا ہو جاتا اور لکھنے کے لئے اپنے کندھے جتنی اونچی ڈیسک استعمال کرتا۔ ونسٹن چرچل بھی ابتدا میں، لکھتے وقت اسی قسم کا انداز اپناتے تھے۔
فرانسیسی ناول نگار الیگزنڈر ڈیوما لکھنے کے دوران لیموں کے جُوس کے علاوہ کسی اور پھل کا مشروب نہیں پیتا تھا ۔ آئر لینڈ کے مشہور ناول نویس جیمز جوائس نے اپنی تمام تحریریں بستر پر اُلٹے لیٹ کر لکھیں، اُس کا کہنا تھا: مَیں اس طریقے سے لکھتے ہوئے بڑا آرام اور سکون محسوس کرتا ہوں“۔!
بہت سے شاعر، ادیب لکھتے وقت بے شمار سگریٹ پی جاتے ہیں اسی طرح بعض ادیب چائے پینے کے عادی ہوتے ہیں۔ مشہور ادیب ایڈگر رائس اپنی دلچسپ اور چونکا دینے والی کہانیاں، چائے کی لاتعداد پیالیاں پی کر لکھتا تھا۔ فرانسیسی ادیب بالزاک چائے کے بجائے کافی پیتا تھا وہ آدھی رات سے لے کر اگلے دن کی دوپہر تک لکھتے لکھتے کافی کی بے شمار پیالیاں پی جاتا تھا۔ ایک بار اُس نے کہا تھا کہ ” مَیں کافی کی دس ہزار پیالیاں پی کر مروں گا“۔
بعض اہل ِ علم ایسے بھی گزرے ہیں جو لکھتے وقت اپنی میز پر یا اپنے بالکل قریب سیب یا شہد رکھ لیتے اور اس کی و جہ یہ بیان کرتے کہ سیب یا شہد کی خوشبو سُونگھنے سے خیالات کو تحریک ملتی ہے۔
بی جے پریسٹلے صرف کسی تحریر کی تصحیح یا دستخط کرنے کے لئے پنسل استعمال کرتا تھا۔ اس کے برعکس لارڈ ویوڈسلی نے اپنی طویل سوانح عمری پنسل سے ہی لکھی۔!
ایک زمانہ تھا جب اہل ِ قلم اتنے نازک مزاج ہوتے تھے کہ بلی کی میاﺅں میاﺅں اور مرغے کی ککڑوں کُوں سے بھی بے چین ہو جاتے اور ایک دم اُن کے قلم رُک جاتے۔ آپ اِسے عہد ِ وکٹوریہ کہہ سکتے ہیں،اب ملکہ وکٹوریہ کے دور کے برعکس بیشتر ادیب و شاعر لکھتے وقت ہلکا پُھلکا شور یا دھیمی دھیمی موسیقی کی دُھن پسند کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ لکھنے لکھانے کی کیا بات، آج بھی مشہور مصنفہ نیلم احمد بشیر اپنے خاص لمحات ِ تخلیق میں بلی کے آ جانے سے ڈسٹرب ہو جاتی ہیں اور اُن کا مخصوص مُوڈ آف ہو جاتا ہے۔
اُردو کے منفرد، صاحب ِ طرز، صاحب اسلوب عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو صوفے پر بیٹھ کر دونوں گھُٹنے سیکٹر لیتے اور ایک چھوٹی سی کچی پنسل(Led Pencil) سے کہانی لکھتے۔ وہ افسانہ شروع کرنے سے پہلے786 ضرور لکھتے جسے غلط یا صحیح طور پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ مشہور نقاد، ادیب اور ماہر تعلیم پروفیسر سید وقار عظیم ”کُھرّی چار پائی“ پر بیٹھ کر تصنیف و تالیف کا کام کیا کرتے تھے بہت ترقی ہوئی تو پلنگ یا مسہری پر یہ عمل جاری ہوا۔ لکھنے کی میز کرسی کبھی استعمال کی نہیں جبکہ ڈاکٹر عبادت بریلوی خصوصیت سے لکھنے کی مخصوص میز اور کرسی کے عادی تھے۔
اُردو کی مشہور بیباک افسانہ نگار، ناول نویس، ڈراما نگار عصمت چغتائی، جیمز جوائس کی طرح اوندھی لیٹ کر لکھتی تھیں اور لکھتے وقت عموماً برف کی ڈلیاں چباتی جاتی تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”برف کی ڈلی چبانے سے میرے ذہن میں نت نئے خیالات آتے ہیں“۔
اُردو کے منفرد و ممتاز طنز و مزاح نگار شفیق الرحمن، وکٹر ہیوگو اور ونسٹن چرچل کی طرح کھڑے ہو کر لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے اپنا ہم قد ڈیسک بنوا رکھا تھا، جس کو وہ روسٹرم کی طرح استعمال میں لاتے۔
 انگریزی کی مشہور اہل ِ قلم خاتون کیرولین ویج وُڈ کا کہنا تھا کہ لکھے وقت ر یڈیو سننے سے بعض اوقات اپنے خیالات کو مجتمع کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
 برطانیہ کا مشہور ادیب چلن میکنیزی لکھنے کے دوران پس منظر میں کلاسیکی موسیقی کے ریکارڈوں کی دُھنیں سنا کرتا تھا۔ میکنیزی کا کہنا تھا کہ ایسی موسیقی اس کے خیالات کو جلا بخشتی ہے۔
انگریزی کا ایک مشہور ادیب لموتھی ڈیکسٹر اپنی تحریر میں کامے، فل اسٹاپ اور ڈیش وغیرہ نہیں لگاتا تھا، وہ اپنی تحریروں میں انگریزی لکھائی کے اس قاعدے کا بھی خیال نہیں رکھتا تھا کہ ہر نیا فقرہ بڑے حروف ِ تہجی سے شروع ہو۔ نتیجتاً اُس کی تحریر ایک طویل ترین فقرہ لگتی۔ اُس کی کتاب کے ایک ناشر نے پریشان ہو کر اُسے لکھا کہ ” آپ کی تحریر مَیں نہ تو کاما ہے، نہ فل سٹاپ، مَیں کیاکروں؟“۔ لموتھی ڈیکسٹر کو تاﺅ آ گیا۔ اُس نے کچھ کاغذوں پر بے شمار کامے، فل سٹاپ اور ڈیش وغیرہ ڈالے اور ناشر کو اس پیغام کے ساتھ روانہ کر دیئے کہ جہاں جہاں ضرورت ہو،وہ اس کاغذ سے ڈیش، کامے، فل سٹاپ وغیرہ لے لے“۔!
انگریزی کے مشہور ادیب آسکر وائلڈ نے اپنا سالِ پیدائش1854ءسے بدل کر1856ءکر لیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے خود کو کم عمر ثابت کر سکے۔ دو دو سال کم زیادہ کرنے کی مثال اُردو ادب میں زبردست طنزو مزاح نگار۔ شاعر و ادیب سید ضمیر جعفری کی ہے جن کا سال ِ پیدائش مختلف جگہوں پر یکم جون1914ئ۔ یکم جون 1916ءاور پھر یکم جون1918ءتک جا پہنچا۔ (یکم جون بہرحال برقرار رہا) اُن سے بھی بڑھ کر ہمارے ممتاز عالم ِ دین، مشہور اہل ِ قلم مولانا عبدالقادر آزاد تھے جو ہر دس سال بعد اپنی عمر دس سال کم کرا لیتے تھے۔! خطائے بزرگاں گرفتن خطا است، بڑے آدمیوں کی بڑی باتیں۔ محض قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ لکھ رہا ہوں۔
آج تو کمپیوٹر کا دور آ گیا ہے۔ کمپوزنگ کا چلن ہے، مگر گزرے زمانے میں تحریر صاف رکھنے کے لئے ٹائپ رائٹر استعمال کیا جاتا تھا تاہم چارلس ڈکنز اس کا صحیح استعمال نہیں جانتا تھا، اس لئے ڈکنز کی تحریریں پڑھنا بہت دشوار مرحلہ ہوتا تھا۔ اُس کی تحریں خاردار تار کی مانند اُلجھی ہوئی نظر آتیں۔ یقینا ڈکنز کی تحریریں ناظرین کو پریشان کئے رکھتی ہوں گی۔ ٹائپ رائٹر سے یاد آیا کہ آخر آخر میں سعادت حسن منٹو نے بھی ایک ٹائپ رائٹر لے لیا تھا اور وہ اس پر اپنی لازوال کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ آج کے دور کے ممتاز افسانہ نگار، ناول نویس ذکاءالرحمن بھی اپنی تحریریں ٹائپ رائٹر پر ہی لکھتے رہے۔
سب سے عجیب و غریب اور دلچسپ حرکتیں اُن اہل ِ قلم کی ہوتی تھیں، جو خاص قسم کے ماحول میں خاص قسم کا لباس پہن کر لکھتے تھے مثلاً مشہور ادیب الیگزنڈر ڈیوما ایک اونچا اور لمبا ٹوپ پھول دار جاپانی چوغے کے ساتھ پہنتا۔ وہ خود کہتا تھا:
”میرے آدھے خیالات ان جرابوں میںہیں جو مَیں روحانی مناظر لکھتے وقت پہنتا ہوں“۔!
ایسی ہی ایک دلچسپ مثال میری مرتب کردہ کتاب ”لطائف الادب“ میں بھی ملے گی۔
مرزا مظفر حسین بارق ایک موقع پر داغ دہلوی سے کہنے لگے:
”آپ تو بڑی آسانی سے شعر کہہ لیتے ہیں مجھے تو شعر کہنے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے پان بنوا کر داہنے، بائیں خاصدان رکھتا ہوں، چار پانچ چلمیں حقے کی بھری جاتی ہیں۔ پلنگ پر لیٹ کر کروٹیں بدلتا ہوں تو شعر کہتا ہوں“۔
یہ سن کر داغ دہلوی نے ہنستے ہوئے بارق صاحب سے کہا:
”آج معلوم ہوا آپ شعر کہتے نہیں، جنتے ہیں“۔
اور آخر میں یہ بتاتا چلوں کہ عہد ساز مُدیر، ادیب اور منفرد خاکہ نویس محمد طفیل(نقوش) نہایت خوش خط تھے۔ خود کتابت کا فن عملی طور پر جانتے تھے۔ اُنہیں اپنی تخلیقی تحریروں کے ساتھ ساتھ کسی کو تین سطری خط بھی لکھنا ہوتا تو وہ چھوٹی چھوٹی سفید چِٹوں پر بار بار لکھ لکھ کر پھاڑتے جاتے۔ اُن کی ردی کی ٹوکری ہمیشہ ایسی چِٹوں سے اُبلی پڑی ہوتی۔ وہ نثر میں بھی میر انیس کی طرح” اک رنگ کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں“ کے قائل تھے۔ سینکڑوں صفحات کی چِٹیں ضائع کرنے کے بعد بڑی مشکل سے اُن کی عبارت آرائی حتمی شکل اختیار کرتی تھی۔ بلا شبہ وہ ایک منفرد، یگانہ ¿ روزگار، صاحب ِ اسلوب خاکہ نگار اور یکتائے زمانہ مُدیر تھے۔ ”نقوش“ کو ویسا مُدیر میسر نہ رہا تو ”نقوش“ بھی ”نقوش“ نہ رہا۔
چہ دلاور است دز دے!
میرا یہ تحقیقی و معلوماتی مضمون 30،35 برس پہلے پہلی بار چھپا تھا۔ حال ہی میں ہفت روزہ ”انس“ اسلام آباد کے شمارہ16تا23جولائی2012ءمیں کسی ”رانا محمد شاہد“ نامی شخص نے اپنے نام سے چھپوا لیا، لہٰذا خاصی ترمیم و اضافے کے ساتھ پھر اس کالم کی صورت میں محفوظ کرنا پڑا۔ ناصر زیدی)
٭٭٭

مزید :

کالم -