قانون کی حکمرانی اور بالادست طبقات

عمومی طور پر مُلک میں بہت سے شعبوں میں بہتری آ رہی ہے، لیکن قوموں کی ترقی میں قانون کی حکمرانی بنیادی کردار کی حامل ہوتی ہے، بدقسمتی سے ہم قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور صورتِ حال بہتری کی بجائے روبہ زوال ہے، ہمارے بااثر، طاقتور اور بالادست طبقے روزِ اول سے ہی اپنے آپ کو کسی قانون قاعدے کا پابند نہیں سمجھتے ،بلکہ جس قدر ہماری سیاست ترقی کر رہی ہے اور دولت مند کلاس وجود میں آ رہی ہے، قانون کو نظر انداز کرنے کی روش مزید زور پکڑ رہی ہے۔ اصولی طور پر قومی لیڈر قوم کی رہنمائی کرتے ہیں اور انہیں منزل مقصود تک پہنچانے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ لیڈر قوم کے لئے نمونہ ہوتے ہیں اور عوام اپنے لیڈروں کی طرح کا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت عمومی طور پر عوام کے لئے رول ماڈل کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے، جس کی وجہ سے مُلک میں قانون کی بالادستی اور حکمرانی کی منزل دور سے دور تر ہوتی جا رہی ہے۔ عوام بالخصوص نوجوانوں کے مقبول لیڈر عمران خان نے حال ہی میں فرمایا ہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کا اُن کے خلاف ریفرنس سے کوئی تعلق نہیں اور اگر سپیکر نے انہیں اِس سلسلے میں بلایا تو وہ پیش نہیں ہوں گے۔ سپیکر کا ادارہ ایک قانونی ادارہ ہے، اسی طرح عمران خان قانون کے مطابق ہی قومی اسمبلی کے ممبر ہیں اور انہوں نے سپیکر کے ذریعے حلف اٹھایا۔ عمران خان کے خلاف حکمران جماعت نے جو ریفرنس دائر کیا ہے اُس کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کے بارے میں عمران خان خود فیصلہ نہیں کر سکتے۔ یہ فیصلہ بہرحال سپیکر قومی اسمبلی نے کرنا ہے کہ اِس ریفرنس کی قانونی حیثیت کیا ہے اور سپیکر کے بعد اعلیٰ عدلیہ اِس سلسلے میں فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔
قومی لیڈر شپ کے اِس طرح کے رویے عوام کے لئے کسی طرح بھی مشعل راہ نہیں بن سکتے اور اِس طرح قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو سکتی۔ اِسی طرح حکمران جماعت اور مُلک کے طاقتور اور بالادست طبقے بھی ملکی قانون کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، بلکہ عوام بھی اگر بس چلے تو قانون کی خلاف ورزی سے لطف اندوز ہونے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ پولیس، عدلیہ اور دیگر سرکاری محکموں سے عام آدمی کو کوئی واسطہ پڑ جائے تو اُسے ذلت اور رسوائی ہی ملتی ہے اور اُسے ہر لحاظ سے تنگ بھی کیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے طاقتور طبقے اِن اداروں کی موجودگی میں قانون کا مذاق اڑاتے ہیں اور اُن کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ عدالتوں میں اگر عام آدمی کو واسطہ پڑ جائے تو اسے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جبکہ ہمارے طاقتور سیاسی لیڈر جب عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بادشاہ سلامت تشریف لا رہے ہیں۔
حال ہی میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن کمیشن اور سپیکر قومی اسمبلی سے رجوع کیا ہے۔ پیشی کے وقت یہ لوگ لاؤ لشکر کے ساتھ آئے نامور وکلاء اور بااثر افراد کا جم غفیر بھی ان لیڈروں کے ہمراہ ہوتا ہے، جبکہ ایک آدمی جب عدالت میں پیش ہوتا ہے تو وہ پریشانی اور ڈیپریشن کی تصویر دکھائی دیتا ہے، جبکہ یہ بااثر افراد قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے نمودار ہوتے ہیں، جیسے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہو اور فتح کے جھنڈے گاڑے ہوں۔ حال ہی میں تبدیلی کی علمبردار جماعت پی ٹی آئی کے ایک ایم این اے کے والد کا ٹریفک پولیس نے چالان کیا تو چالان کرنے والے اہلکار کو کڑی سزا کا مستحق گردانا گیا، کیونکہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ قانون کی پاسداری کا اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
دراصل ہماری موجودہ سیاسی لیڈر شپ کا عوام سے صرف اتنا ہی رشتہ ہے، جتنا ایک بادشاہ اور رعایا کا ہوتا ہے۔ اگر بادشاہ مہربان ہو یا موڈ اچھا ہو تو رعایا کے کسی فرد سے گلے بھی مل لیتا ہے اور اگر جلال میں آ جائے تو گلا کاٹنے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔ بدقسمتی سے تمام بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ، جس میں مسلم لیگ(ن)، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سرفہرست ہے، ایک خاص طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کا رہن سہن، بودو باش،اُٹھنا بیٹھنا عام آدمی سے میل نہیں کھاتا، لیکن یہ لوگ اپنے آپ کو عوام کا لیڈر اور خادم کہتے ہیں۔سیاسی لیڈر شپ کی تو بات ہی کیا، ہماری بیورو کریسی نے بھی آج تک اپنے آپ کو عوام کا خادم نہیں سمجھا، حالانکہ اُن کی تنخواہیں اور دیگر لوازمات، جن میں بڑی بڑی گاڑیاں، عالیشان دفاتر شامل ہیں، اُن کے اخراجات غریب عوام ہی برداشت کرتے ہیں۔ اب تو میڈیا کے چند افراد بھی بالادست اور بااثر طبقات کی صف میں شامل ہو گئے ہیں اور انہیں بھی غریب عوام کے مسائل اور ضروریات سے زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔
اِس رویے کا اظہار ہمارے نیوز بلیٹنز میں بھی ہوتا ہے۔ دور دراز دیہی علاقوں کو میڈیا میں بالعموم نمائندگی بہت کم ملتی ہے، جبکہ بڑے شہروں کے چھوٹے چھوٹے مسائل بھی میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ٹماٹر کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے تو میڈیا پر شور برپا ہو جاتا ہے، جبکہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا عموماً نوٹس نہیں لیا جاتا۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ ٹماٹر شہری علاقوں کی مڈل کلاس استعمال کرتی ہے، جبکہ غریب اور زیادہ تر دیہی علاقوں میں کھانا آج بھی ٹماٹر کے بغیر ہی تیار ہو جاتا ہے۔ ٹماٹر جن طبقات کی ضرورت ہے، وہ زیادہ بااثر ہیں، اِس لئے ٹماٹر کی مہنگائی یا قلت کا شور مچ جاتا ہے، جبکہ آٹا اِن لوگوں کا زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ آٹا انتہائی غریب اور پسے ہوئے طبقات کا مسئلہ ہے، جن کی آمدن نہ ہونے کے برابر ہے اور بچے بھی زیادہ ہیں اور چونکہ یہ طبقے بااثر نہیں ہیں، اِس لئے آٹے کی مہنگائی کے بارے میں بہت کم بات ہوتی ہے۔