’’اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو‘‘
14اگست کو صو با ئی دا ر الحکومت سمیت پنجاب بھر میں یوم شہداء منایا گیا،۔ لا ہو ر میں ایک پر وقار تقر یب کا انعقاد الحمراہا ل میں کیا گیا۔ یوم شہدا کی اس تقریب میں صوبے کے مختلف اضلاع سے آئے شہدا ئے پولیس کے عزیز و اقارب ، چیف ایڈ یٹر روز نا مہ پا کستا ن مجیب الر حمن شا می ،صوبائی وزیر برائے بہبود آبادی ذکیہ شاہنواز ، سنئیرصحافی ضیا شاہد، سینئر پولیس افسران ، علمائے اکرام ، وکلا ، اساتذہ اور سول سوسائٹی سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔تقریب کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر برائے کھیل جہانگیرخانزادہ تھے اس موقع پر آئی جی پو لیس پنجا ب کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے کہاکہ مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایسی فورس کا کمانڈر ہوں جو غازیوں اور شہیدوں سے منسوب ہے۔ آج ہم ان بہادروں کی یاد میں اکٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے پولیس کی عزت اور وقار کو اوج ثریا تک پہنچایا۔ شہادت ہم سب کی آرزو ہے۔ یہی ہمارا مطلوب ہے اور یہی ہمارا مقصود ہے۔ یہی ہماری منزل ہے اور یہی ہمارا خواب ہے۔ ہم نے پولیس فورس میں شمولیت کے وقت یہ عہد کیا تھا کہ عوام کی عزت ، آبرو اور جان و مال کی حفاظت کے لئے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ پنجاب پولیس کے چودہ سو سے زائد شہدا ء پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جب جب وطن نے پکارا یہ افسران ا ور جوان اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے جرائم پیشہ افراد کے مقابلے پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوئے۔ ہمارے جذبات اور احساسات کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے زخموں سے چْور اپنے بھائی ، دوست اور ساتھی کو بچانے کی کوشش کی ہو یا شہادت کی صورت میں ان کا جنازہ اٹھایا ہو۔ ہم ان شہدا کے امین ہیں جو اپنی سب سے قیمتی چیز یعنی جان ملک و ملت کے تحفظ کے لیے قربان کر چکے ہیں بلا شبہ ان قربانیوں نے ہمیں مزید مضبوط کیا ہے اور پولیس فورس کا مورال مزید بلند ہوا ہے۔میں شہدا کی فیملیز کو بھی مبارک باد دیتا ہوں کہ اللہ نے انہیں وہ اعزاز بخشا جس کی تمنا سیف اللہ کیا کرتے تھے۔ یہ وہ اعزاز ہے جو خدا اپنے منتخب بندوں کو عطا کرتا ہے۔ آپ اور ہم الگ نہیں ہیں بلکہ ہم سب ایک خاندان ہیں۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پنجاب پولیس کے جوان شہریوں کے جان، مال اور عزت کے تحفظ کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہیں ، ڈاکو?ں سے مقابلہ ہو یا بم دھماکے ، ڈی آئی جی سے لے کر کانسٹیبل رینک تک پنجاب پولیس کی تاریخ ایسی ہی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ پنجاب پولیس میں شہدا کی فیملیز کی ویلفئر کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔لاہور میں ویلفئر آئی کے نام سے ایسا پراجیکٹ متعارف کرایا جا چکا ہے جس کے تحت شہدا کی فیملیز کے مسائل ایک ایس ایم ایس پر حل کئے جا رہے ہیں اور اب انہیں دفاتر کے چکر نہیں لگانے پڑتے۔ اس پراجیکٹ کو پنجاب بھر میں متعارف کرایا جا رہا ہے۔ شہدا کے خاندان کی کسی بھی شکایت کی صورت میں ہم خود مدعی بن کرشہدا کے خاندانوں کے مسائل حل کراتے ہیں۔میں نے آئی جی پنجاب کا چارج لیتے ہی فوری طور پر حکومت پنجاب سے درخواست کی ہے کہ فورس کے رسک الا?نس میں اضافہ کیا جائے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ پولیس فورس کا ہر جوان موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتا ہے۔ ایسے بہادر جوانوں کے خاندانوں کے معاشی اور معاشرتی معاملات کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔اسی لئے حکومت پنجاب نے شہدا کے لئے جس پیکج کا اعلان کیا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔یقیناًآپ کے علم میں ہو گا کہ اب شہد ا پیکج بھی بڑھایا جا چکا ہے۔ شہید کانسٹیبل کے ورثا کا پیکج بڑھا کر ایک کروڑ روپے اور گھر کے علاوہ ریٹائرمنٹ کی عمر تک پوری تنخواہ اور پینشن کی فراہمی جبکہ ڈی آئی جی اور اس سے سینئر رینک کے آفیسر کے لئے دو کروڑ روپے ، گھر ، پینشن اور ریٹائرمنٹ تک پوری تنخواہ ملے گی۔شہدا کے بچوں کی مکمل تعلیمی اخراجات محکمہ کے ذمہ ہوتے ہیں اور ایک بچے کو سرکاری ملازمت دی جاتی ہے۔ یہ سارے معاملات دیکھنے کے لئے سینٹرل پولیس آفس میں ڈی آئی جی رینک کا آفیسر مقرر ہے جبکہ ڈسٹرکٹ میں بھی ڈی ایس پی کی سطح کا آفیسر ان معاملات کی نگرانی کرتا ہے تاکہ کسی بھی سطح پر کسی قسم کی کوتاہی یا تاخیر نہ ہو۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہم شہدا کے امین ہیں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ ہم ان کے خاندانوں کی مالی و معاشرتی ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر محسوس کرتے ہیں۔ پنجاب پولیس ہر لمحہ اپنے شہدا کو یاد رکھتی ہے۔ اسی لئے صوبے بھر میں بننے والے مختلف پراجیکٹس کو ہم اپنے شہدا سے منسوب کرتے ہیں تاکہ ان کی بہادری اور قربانیوں کا ہر سطح پر اعتراف کیا جا سکے۔ آخر میں ایک بار پھر میں اس عزم کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ مجھ سمیت پنجاب پولیس کا ہر آفیسر و جوان اپنے شہدا کی قربانیوں کا امین ہے۔ یہ قربانیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔میں شہریوں کو بھی یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ان کی حفاظت اور اپنے فرائض کی تکمیل کے لئے ہم نہ تو پہلے کسی قربانی سے پیچھے ہٹے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ملک و ملت کے تحفظ کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ کریں گے۔ تقریب کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر برائے کھیل جہانگیرخانزادہ تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں شہدائے پولیس کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں خود ایک شہید باپ کا فرزند ہوں اور پنجاب پولیس کی طرح میرے عزم و حوصلے میں بھی ذرا کمی نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ وطن عزیز سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ا ن کامزید کہنا تھا کہ پنجاب پولیس تربیت یافتہ دہشت گردوں کا مقابلہ انتہائی جرات اور ثابت قدمی سے کر رہی ہے انکی قربانیاں پوری قوم کیلئے مشعل راہ ہیں اور قوم کو انکا اعتراف بھی شایان شان انداز میں کرنا چاہئیے۔ اس موقع پر روز نا مہ پا کستا ن کے چیف ایڈ یٹر مجیب الرحمن شا می نے کہا کہ ہمیں شہیدوں کو خراج تحسین پیش کر نے کے سا تھ ساتھ ز ند ہ اہلکا رو ں کا بھی خیا ل رکھنا چا ہیے اور انھیں میڈ یکل سمیت دیگر تما م سہو لتیں میسر ہو نی چا ہیں۔ تقریب میں شہدائے پولیس کے بچوں ، والدین اور عزیزو اقارب نے بھی اظہار خیال کیا اور محکمے کی جانب سے سرپرستی اوربہترین ویلفئیر مہیا کئے جانے پر خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور کیپٹن ریٹائرڈ محمدامین وینس نے کہا کہ ڈاکوؤں سے مقابلہ ہو یا بم دھماکے، پنجاب پولیس اور لاہور پولیس کی تاریخ قربانیو ں سے بھری پڑی ہے انہوں نے کہا کہ آج تجدید عہد کا دن ہے اور لاہور پولیس کے افسران و اہلکار اپنے شہریوں کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کیلئے ہر لمحہ سر بکف ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ لاہور پولیس خاص طور پر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور حال ہی میں ہم نے اپنے بہت سے بہترین آفیسرز اور جوانوں کی قربانیاں دی ہیں مگر ہمارا حوصلہ اب بھی بلند ہے اورلاہور پولیس عوام کی حفاظت اسی جوش و جذبے سے کرتی رہے گی۔ تقریب میں شہدائے پولیس کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے بنایا گیا خصوصی گیت بھی سنایا گیا۔ تقریب کے اختتام پر آئی جی پنجاب نے شہدا کے بچوں میں خصوصی گفٹس بھی تقسیم کئے۔ یوم شہدائے پولیس کا آغاز قلعہ گجرسنگھ پولیس لائنز لاہور میں نماز فجر کے بعد فاتحہ خوانی سے ہوا جس کے بعد یادگار شہدا پر پولیس کے چا ک و چوبند دستے نے سلامی پیش کی۔پولیس لائنز میں شہدا کی یادگار پر سلامی کی تقریب میں آئی جی پنجاب نے پھول چڑھائے جبکہ اسی مناسبت سے پنجاب کے تمام اضلاع کی پولیس لائنز میں بھی یوم شہدائے پولیس کی پروقار تقاریب کا انعقاد کیا گیا،جبکہ تمام اضلاع میں علی الصبح افسران نے شہدائے کی قبروں پر حاضری دی ، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی جبکہ اضلاع کی پولیس لائنز میں ہونے والی خصوصی تقاریب میں آر پی اوز اور ڈی پی اوزصاحبان نے اپنے اضلاع کے شہدا کے لواحقین اور عزیز و اقارب کو خصوصی طور پر مدعو کیا اور انکی قربانیوں کو شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔محکمہ پولیس ایک طرف تو شہریوں کی نظر میں رشوت خور اور تشدد کرنے میں مشہور ومعروف ہے لیکن دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پولیس کی نوکری کانٹوں کی سیج ہے ،10 برسوں میں دہشت گردی سمیت دیگر واقعات میں اعلی پولیس افسروں سمیت 3 ہزار سے زائد پولیس ملازمین کی شہادت نے محکمے کا مو را ل بلند کیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پولیس اپنے شہداء کی فیملیز کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی،یوں تو پولیس میں قربانیاں دینے والوں کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن اب اگست میں پہلی بار یوم شہدا ء منایا گیا، شہداء کے اہلخانہ کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی گی کہ ان کے پیاروں کے جانے کے بعد پنجاب پولیس انہیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔لاہور پولیس کے شہداء کی تعداد دو سو ترانوے ہو چکی ہے،جبکہ پنجا ب بھر میں 700سے زائد پو لیس افسران جا م شہا دت نو ش کر چکے ہیں۔ چار صوبوں کی پولیس سے حاصل کی گئی تفصیلا ت کے مطابق صو با ئی دا را لحکومت گزشتہ ما ہ کی 24تا ریخ کو کو ٹ لکھپت کے علاقہ فیروزپور روڈ پر ارفع کریم ٹاور کے قریب سبزی منڈی کے باہر دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 9پو لیس اہلکا ر شہید ہو ئے شہدا کے نا م سب انسپکٹر ریاض، اے ایس آئی فیاض، کانسٹیبل علی، معظم، ساجد، عابد اور مرتضی شامل ہیں ، رواں سال دوسرا بڑا واقعہ13فروری کو مال روڈ پنجاب اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس پر فارما سوٹیکل ایسوسی ایشن کے عہدیداران 2016ڈرگ ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور شام 6بجکر 8منٹ پراحتجاج والی جگہ پر سی ٹی او لاہور کیپٹن (ر) احمد مبین زیدی اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد محمود گوندل مظاہرین سے مذاکرات کر رہے تھے کہ اس دوران اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا جس سے ڈی آئی جی ٹریفک اور ایس ایس پی آپریشنز سمیت 13افرادشہید ہو گئے ، واضح رہے کہ آبادی کے لحاظ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے جس میں 2002 ء سے اب تک 700 سے زائد افسر وپولیس اہلکار شہیدہوچکے ہیں جن میں سب سے زیادہ 91 اہلکار سال 2009 ء میں دہشت گردوں کانشانہ بنے ،یادرہے کہ صوبائی دارالحکومت بھی دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر رہاجس میں جی پی او چوک میں ہونے والے بم دھماکے میں 16 اہلکار شہید ہوئے جن میں ریاض احمد ،نعیم احمد ،رفتاج احمد ،شیش احمد ،اصغر علی ،محمد یعقوب ،محمد منشاء ،ظہیر شوکت ،اعجاز احمد ،شاہد غفور ،محمد اصغر ،محمد سلیم ،منظور احمد ،محمد احسان ،محمد آصف، شہباز احمد ،محمد رمضان ،افتخار احمد ،شبیر احمد ،شامل ہیں اسی طرح لاہور میں بم دھماکہ ریسکیو 15 میں 14 افراد شہید ہوئے جن میں انسپکٹر عبدالرؤف سلطان ،اے ایس آئی غلام مصطفی ،کانسٹیبل مبشر ہارون،شکیل احمد ،عمیر نذیر ،نثار منشاء،حافظ محمد ندیم ،اے ایس آئی محمد نواز،کانسٹیبل ممتاز حسین ،محمد اکرم ،امداد علی،محمد یونس،انتظار حسین،طاہر علی شامل ہیں۔اسی طرح سانحہ لبرٹی میں ہیڈ کانسٹیبل فیصل رشید ،کانسٹیبل مدثر ،ظفر اقبال ،محمد سلطان ،ٹیپوفرید ،تنویر اقبال،روحیل شامل ہیں۔اب تک کی ملنے والی ر پو رٹ کے مطا بق شدت پسندی سے سب زیادہ متاثرہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں 1970 سے سال 2001 تک 31 سالوں میں کل 270 اہلکار اور افسرشہید ہو ئے جبکہ 2002 سے رواں سال کے ماہ جولا ئی تک یعنی 10 سالوں کے دوران شہید ہونے والوں کی یہ تعداد1080 ہے۔ تاہم 2007 سے 2011 کے پانچ سال اس جانی نقصان کے حوالے سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے جب 752 پولیس والوں کو نشانہ بنایا گیا اور یہ وہ وقت ہے جب ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا رجحان دیکھنے میں آیا۔2013 نومبر تک 107 پولیس والے شہیدہوچکے تھے .اس طرح سال 1970 سے 2001 تک 31 سالوں میں کل 586 پولیس والے زخمی یا معذور ہوئے اور اس کے بعد 2002 کے شروع سے لے کر رواں سال تک 2194 پولیس افسر زخمی یا معذور ہوئے۔کے پی کے صوبے میں سب سے زیادہ اعلیٰ سطح کے پولیس افسران کو نشانہ بنایا گیا جن میں ایک ایڈیشنل آئی جی ،دو ڈی آئی جیز ،پانچ ایس پیز ،14 ڈی ایس پیز،21 انسپکٹرز ،90 سب انسپکٹرز،75 اسسٹنٹ سب انسپکٹرز،93 ہیڈ کانسٹیبلز،751 کانسٹیبل شامل ہیں۔پولیس پر حملے سب سے زیادہ پاکستان کے تین اضلاع میں ریکارڈ کئے گئے جن میں پشاور 264 ،بنوں 117 اور سوات 111 شامل ہیں۔ سندھ میں پولیس سے حاصل کئے گئے گزشتہ 7 سال کے اعداد شمار کے مطابق سال 2010 میں کل 69 افسر و اہلکار ہلاک ہوئے اور اگلے سال یعنی 2011 میں کل 39،2012 میں 156 اور 2013 ء سے لے کر اب تک ساڑھے 400سے زائد اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔اسی طرح صوبہ بلوچستان کی صورتحال بھی یہی رہی،جہاں سال 1980 سے 2002 تک 87 افسر اوراہلکار شہید ہوئے جبکہ اگلے 10 سال یعنی 2003 ء سے 2017ء کے دوران 448 افسر و اہلکار شہیدہوئے ،شہید ہونے والوں میں ایک ڈی آئی جی،دو ایس پی،8 ڈی ایس پیز ،15 انسپکٹرز،41 سب انسپکٹرز،29 اسسٹنٹ سب انسپکٹرز،107 ہیڈ کانسٹیبل اور 326 سپاہی شامل ہیں۔روز اول سے لے کر آج تک ہر دور میں کرہ ارض پر ایک سے بڑھ کر ایک انسان اپنی پوری توانائیوں اور شان و شوکت سے طلوع ہوا ، اپنی شخصیت آن بان اور کارناموں سے پوری دنیا کو لرزا براندام کر دیا۔ خالق کائنات نے معاشرے اور مختلف قوموں کی ضرورت اور توازن کے لیے غیر معمولی انسان پیدا کئے اِن عظیم ترین شخصیتوں میں بعض تو مسند علم کی وارث ٹھہریں کچھ طبعیات اور سائنس کی امام بنیں، معاشروں کی اصلاح کے لیے کچھ دنیا کی مرشد قرار پائیں کسی نے آرٹ میں کسی نے فلسفے میں کسی نے شاعری اور ادب میں اپنا نام بنایا ، لیکن گردش لیل و نہار اور تاریخ کے دھارے میں بہت ساری یہ عظیم شخصیتیں بہہ گئیں ‘کچھ کو زمانے کی کروٹیں نگل گئیں ‘کچھ حوادث شبْ و روز کی نذر ہو گئیں ‘کئی عالمی تبدیلیوں کی ہوا میں تحلیل ہو گئیں ‘کچھ تو کتابوں اور تاریخ کے کوئزبکس میں زندہ رہیں، جبکہ اکثر یاد ماضی کا حوالہ داستان پارینہ یا قصہ بن گئیں ‘اِن میں سے اکثریت صدیوں کے غبار میں دھندلا گئیں۔ اربوں انسانوں کے ہجوم میں ایک بڑی تعداد ایسی شخصیات کی بھی ہے کہ گردش لیل و نہار اور زمانے کی کروٹیں بھی اْن کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں یہ دنیا میں پوری شان و شوکت سے جلوہ گر ہوئیں اور پھر اِس ابدی شہرت اور شان سے دنیا سے رخصت ہوئیں کہ قیامت تک امر ہو گئیں، یہ وہ شخصیات تھیں جنہوں نے وقت سوچ دل و دماغ جذبات تاریخ اور سمت کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے کر اِس طرح خود کو مقام امر پر فائز کر لیا کہ صدیوں کے غبار میں دھندلا ہو نے کی بجائے اِن کا نام اور کام اور نکھرتاجارہا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ اِن کی شان و شوکت اور روشنی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔