"بیٹا! اس کا نام سرفراز ہے، اس کی شادی ہمارے گاؤں میں ہوئی ہے۔ اگر اس کا کام نہ ہواتو ان لوگوں میں ہماری بہت بدنامی ہوگی، ہماری ناک کٹ جائے گی۔ جیسے بھی ہو اس کاکام ہونا چاہیے،بے شک اس کے لئے کسی کی پگ کو مایا ہی کیوں نہ لگانے پڑے۔ یہ بڑے مان سے مجھے آپ کے پاس لے کر آیا ہے۔"
جب بھی میرے دفتر میں،احباب میں سے کوئی شخص کسی کام کے کرنے کی سفارش لے کر حاضر ہوتا ہے تو میرے ذہن میں بابا فضل دین کے مذکورہ الفاظ گونجنے لگ جاتے ہیں۔ بابا فضل دین میرے پڑوس کے گاؤں کا نمبردار ہے اور میرے والد مرحوم سے اچھے تعلقات کا دعویدار ہے۔ اسی تعلق کی بنا پر وہ اپنے گاؤں کی بیٹی کے شوہر کو ملازمت دلوانے کیلئے میرے پاس تشریف لے آیا۔ سرفراز ایک بی۔اے پاس، پچیس سالہ نوجوان تھا۔اس کی شادی بابا فضل دین کے گاؤں میں ہوئی تھی۔ وہ بابا فضل دین کومیرے گاؤں کی پڑوسداری کے حوالے سے اپنی نوکری کے لئے ساتھ کھینچ لایا تھا۔بابا فضل دین کی باتوں اور والد مرحوم و مغفور کے ساتھ ان کے دیرینہ تعلقات کی داستان نے مجھے مضطرب کر دیا۔ مگر میری بے بسی دیکھیئے کہ میں بابا فضل دین کو نہ تو یہ سمجھا سکتا تھا کہ آجکل سرکاری نوکریوں کے لئے پہلے اخبارات میں اشتہارات دیئے جاتے ہیں،پھر امیدواروں کو مشتہر نوکریوں کے حصول کیلئے درخواستیں جمع کرانا پڑتی ہیں اور ایک باقاعدہ مقابلہ جاتی طریقہء کار سے گزر کر منتخب ہونا ہوتا ہے۔ اور نہ ہی میں بابا فضل دین کو صاف انکار کر سکتا تھا کیونکہ اس سے اس کا مان ٹوٹ جاتا۔ مگر بابا فضل دین تو اپنے گاؤں کے داماد کی نوکری کے فی الفور آرڈرزجاری کرانے کا متقاضی تھا۔ بہرحال میں نے دیہاتی ثقافت کے اصولوں کے تحت اور والد گرامیؒ کی نصیحت کے عین مطابق مہمانوں کی خاطر مدارات میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ روٹی پانی سے فراغت کے بعد میں نے انہیں دفتر کے دروازے پر اس وعدے کے ساتھ خدا حافظ کہا کہ میں سرفراز کو نوکری دلوانے کی پوری کوشش کروں گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا کہتے ہوئے میرا ضمیر مجھے شدید ملامت کر رہا تھا، مگر کیا کرتا منہ رکھنی ضروری تھی کیونکہ باباجی کی سرفراز کے ساتھ اپنے گا ؤں کی طرف با عزت واپسی درکار تھی۔
قارئین!
مندرجہ بالا واقعہ او ر اس سے ملتے جلتے بیسیوں واقعات سرکار میں موجود احباب کے ساتھ اکثر و بیشتر پیش آتے رہتے ہیں۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں رشتہ داریاں، والدین، اولاد، بہن بھائی، چچا زاد، تایازاد، پھوپھی زاد،ماموں زاد، دوسرے درجہ کے چچا زاد، تایا زاد، ماموں زاد،پھوپھی زاد اور پھر اسی طرح تیسرے درجے کے چچا زاد، تایا زاد، ماموں زاداورپھوپھی زادکے علاوہ ملک کے مختلف مقامات پر آباد برادری کے افراد اور ان کے رشتہ دار، دوست احباب اپنے گاؤں، ساتھ والے گاؤں، یونین کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح پر مختلف رشتوں ناتوں میں بندھے تعلقات و مراسم کے دعویدار اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں کہ سرکاری اداروں میں بیٹھے افسران و دیگر احباب ان کے کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں، خواہ اس کی خاطر انہیں اپنے ایمان تک کو یکسر الوداع کہنا پڑے یا کسی کی پگ کو مایا لگانا پڑے۔ سب کے سب نہ سہی کئی ایک افسران اپنی دفتری عزت اور رشتے ناطے بچانے کی خاطر یہ بھی کر گزرتے ہیں۔
ہماری اس معاشرتی تہہ در تہہ تعلق داری نے ایک ایسے معاشرے کو جنم دے دیا ہے۔جسے ہم مناسب ترین الفاظ میں کزن سوسائٹی کا نام دے سکتے ہیں۔یہ اس کزن سوسائٹی کا فیض ہے کہ اگر آج ہم سرکار کے خود مختار اداروں، خصوصی اداروں اوربورڈز وغیرہ میں مطالعاتی تحقیق کرائیں تو پتا چلے گا کہ یہ ادارے خاندانی اداروں (فیملی آرگنائزیشنز)کا روپ دھار چکے ہیں جہاں باپ بیٹا، پہلے، دوسرے اور تیسرے درجے کے کزن اور دیگررشتوں میں بندھے احباب ملازمت کے ثمر لوٹ رہے ہیں۔ بھرتی کے معیار پہ حقیقی معنوں میں پورا اتر کے کسی بھی خاندان کے افراد کا ملازمت پر آنا بنیادی حق ہے مگر تعلق داری اور کزن سوسائیٹی کا معیار پر یوں غالب آنا یقینا گڈ گورنینس کا سریحاً مزاق ہے۔
آج بہترین انتظامی منصوبہ بندی کے تحت بہت مہنگے تعمیری و دیگر منصوبے شروع کیے جاتے ہیں مگر شائد ہی کوئی منصوبہ اس بنیادی ڈھانچے اور اسی مالی تخمینے کے تحت تعمیل و تکمیل کی منزل تک پہنچتا ھے ہو جو اس کے آغاز کے وقت مد نظر رکھا گیا تھا۔ آج اکثر سرکاری شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں بد انتظامی اذانیں دیتی دکھائی دیتی ہے۔ مایوسی ہی مایوسی سایہ زن ہے اور ہر شخص دوسرے شخص کو اورہر سروس دوسری سروس کو مورِد الزام ٹھہراتی ہے۔ ان فیملی آرگنائزیشنز میں کزن سوسائٹی کے سرسبز و شاداب کلچر کی وجہ سے اگر کبھی کسی بدچلن گورنمنٹ ملازم کے خلاف مالی یا اخلاقی بد چلنی کا مرتکب ہونے کی تا دیبی کاروائی کا آعاز ہوتا ہے تو کزن سوسائٹی کے مختلف کردار متحرک ہو جاتے ہیں اوریوں وہ بد چلن سرکاری ملازم سزا سے بچ نکلتا ہے۔ اس صورت حال کا تعلق کسی مخصوص وقت یا حکومت سے نہیں بلکہ اس عمل کو تہذیبی شکل مل چکی ہے۔
کزن سوسائٹی کے مارے اس معاشرے کا ایک اور ناسور خود حکومتوں اور ان کے پاور فل حلقوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مخصوص اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لئے بھی اکثر کزن سوسائٹی ہی معیار کی کسوٹی ٹھہرتی ہے۔
ہم اپنی تقریروں اور تحریروں میں معیار و ترقی کی مثالیں ترقی یافتہ ممالک سے دیتے ہیں۔ مطالعہ یہ کہتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں اٹھارہ سال کی عمر میں والدین اپنے بیٹے، بیٹی کو اس شرط پر ساتھ رکھتے ہیں کہ وہ گھر کے اخراجات اور کرایہ مکان میں اپنی ذاتی کمائی سے حصہ ادا کریں گے۔گویا جہاں اولاد سے لگاؤ مادی معاملات و مفادات کا متقاضی ہو وہاں پر چچا زاد، ماموں زاد، تایا زاد، پھوپھی زاد وغیرہ کی درجہ بدرجہ رشتہ داریوں کے پِنپنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر ہمارے ہاں تو لفظ "زاد"سے نکل کر علاقائی زبانوں میں ہر رشتے کے لئے ایک باقائدہ لفظ موجود ہے جو اس رشتے کی پوری تشریح کرتا ہے۔جیسے پنجابی میں پتریر (چچازاد)،مسیر (خالہ زاد)، پھپھیر(پھوپھی زاد)، ملویر (ماموں زاد) وغیرہ موجود ہیں۔ اسی طرح والدین کے بہن بھائیوں کے حوالے سے چچا، تایا، ماموں، پھوپھا، خالو،چچی،تائی کے خوبصورت نام رشتہ موجود ہیں۔ یورپ کے اندر اس طرح کی رشتہ داریاں سرے سے مفقود ہیں۔ وہ والدین اور اولاد سے نکل کر صرف تین الفاظ کزن، انکل اور آنٹی سے رشتوں کی پہچان کرتے اور کراتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی طرح کی بھی رشتہ داری ان کے ذاتی اور پیشہ ورانہ معاملات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ جس سے ہر شعبہ ہائے زندگی ایسے چل رہا ہے۔ جیسے خود کار مشین۔ نہ لوگوں کو دفاتر کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں، نہ سفارشیں ڈھونڈنا پڑتی ہیں اور نہ ہی کسی کی پگ کو مایا لگانا پڑتا ہے۔ ملک کے سربراہ سے لے کر کسی بھی شہریا دیہات کی گلیوں میں جھاڑو دینے والے تک ہر شخص اپنے فرائض خود کار طریقے سے انجام دے رہا ہے اور ان کے حقوق خود کار اور شفاف طریقے سے بجا لائے جا رہے ہیں۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ کزن سوسائٹی کا مادہ ہماری رگوں میں خون کے ساتھ ساتھ بہہ رہا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص دوسرے سے توقع رکھتا ہے کہ وہ خدا کا خوف کرے اور اپنے منصب سے انصاف کرے تا کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو، مگر ہر شخص بذات خود کسی نہ کسی وجہ سے ایسا کرنے سے گریزاں ہے۔نتیجتاً معاشرے کی پوری تصویر جھوٹ، فریب،دھوکہ دہئی،چوری اور بد اعتمادی کی گار سے لتھڑی پڑی ہے۔ہر کرپٹ شخص کے پیچھے کزن سوسائٹی میں اس کے مشیر، مہیا کار اور معاون موجود ہیں۔معیار و انصاف ہمیں کاغذی اصول دکھائی دیتے ہیں جو صرف نصابی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
کزن سوسائٹی کے ثمرات سمیٹنے والوں کی زندہ مثالیں ہمارے اردگرد موجودہیں۔ دسویں سکیل میں آکر بیسیویں بائیسیویں سکیل تک رسائی ہر کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ کزن سوسائٹی کے معزز فرد کو اگر گاڑی چلانی آتی ہے تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جہاز بھی چلا سکتا ہے، ایم۔ اے اسلامیات ہے تو مالیات وخزانہ کے دقیق معاملات کی گتھیاں سلجھاسکتا ہے، ان پڑھ ہے توشعبہ تعلیم کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لئے بطور وزیر اپنی اعلیٰ صلاحیتیں بروئے کار لا سکتا ہے۔ معذور ہے تو کھیل کے شعبہ میں اہم ذمہ داری نبھا سکتا ہے۔ قصہ کو تاہ،ہر جگہ بابا فضل دین موجود ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جیسے بھی ہو اس کاکام ہونا چاہیے اور اس کی ناک نہیں کٹنی چاہیے خواہ اس کے لئے کسی کی پگ کو مایا ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔
جب تک کزن سوسائٹی ہمارے انتظامی ایمان کا جزو لاینفک رہے گی، ادارے فیملی آرگنائزیشنز بنتے رہیں گے اور بابا فضل دین مختلف روپوں اور شکلوں میں اپنی ناک کٹنے کے خدشے سے معیار سے رو گردانی کرنے کی سفارش کرتا رہے گا۔