یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے

یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پتا نہیں فیض صاحب کے اس لافانی شعر ” یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر.... انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں“ کو ہمارے ہاں دہرائے جانے کی ضرورت کب تک رہے گی؟ہماری رات تو شب ِ تار ہے ہی ، ہماری صبح کے چہرے پر بھی پرچھائیوں کے داغ ہیں۔ ناکامیوںکے کرب ناک سفر کے بعد ہم جس منزل پر پہنچتے ہیں وہ ایک اور ناکامی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے.... یہ کیسا صحرا ہے جہاں ہم دھول کو ابر باراں سمجھ کر خوشی کے نغمے گانے لگتے ہیں، یہاںتک کے باد ِ سموم ادھ کھلے غنچہ امید کو جھلسا دیتی ہے؟ کیا وکلا کی جدو جہد کا یہی منطقی انجام ہونا تھا ؟ کیا سرو کوپورے قد کاٹھ کے باوجود بے ثمر ہی رہناتھا؟ کیا ہمارے ہاں سرفرازی کا مطلب کج کلاہی کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا؟اُس وقت دل کس والہانہ پن سے سرشار تھے؟ بہت سے دلیروںنے آمریت کا سامنا کرتے ہوئے عدلیہ کی بحالی کے خون کا نذرانہ بھی پیش کیا ، پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں، تاہم آج اُن کے نام بھی ذہن سے محوہو چکے ہیں۔کیا اُنہوںنے جس مقصد کے لئے قربانی دی تھی وہ یہی تھا؟
درست ہے کہ پرویز مشرف کا دور اکتاہٹ سے بھر پور تھا،مگر یہ بات تسلیم کرنا ہو گی کہ اُن کی ابلاغیات کی پالیسی جدت کا تصور لئے ہوئے تھی اور اس نے ہمارے میڈیا کو زبردست ترقی سے ہمکنار کیا۔ اس کے بغیر ہمارے الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افراد کی آمدن اتنی زیادہ نہ ہوتی جو آج ہے۔ اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہم سے نہ تو ناکامی ہضم ہوتی ہے اور نہ کامیابی۔ اُس وقت ہم تبدیلی چاہتے تھے، مگر اس کے آثار کسی افق پر ہوید ا نہیں تھے، کیونکہ اُس وقت کی سیاسی قیادت نے یا تو آمریت کا ساتھ دینا بہتر سمجھا تھا یا پھر کچھ اہم رہنماو¿ں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیاتھا۔ طالبان کے خلاف جنگ بھی مغربی سرحدوںکے نزدیک ہورہی تھی اور دہشت گردی کے مہیب سائے ابھی اس سرزمین سے دور تھے، اگرچہ غروب ہوتا ہوا سورج لہو رنگ سرخی کا پتا دے رہا تھا۔ پھر آسمانی طاقتوں نے ہماری یاوری کی اور صدر پرویز مشرف سے، جو اپنے ہر قدم کو دوسروں کے لیے سنگ ِ میل سمجھ رہے تھے، ایک فاش غلطی سرزد ہو گی وہ بڑے آرام سے جوڈیشل ریفرنس بھیج سکتے تھے، مگر اُنہوںنے استعفا طلب کیا، باقی تاریخ ہے۔ اُس ایک لمحے نے، جس میں چیف صاحب کے سامنے کچھ سنجیدہ چہروں والے افسران بیٹھے تھے اور اُ ن کے درمیان جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب، جو اُس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، بھی موجود تھے، مگر ذہین آدمی ہونے کے ناطے خاموش رہے ، وقت کے دھارے کو بدل دیا۔
پھر کیا تھا، انکار کا ایک لمحہ وجہ ِ افتخار بن گیااور ایک بار پھر آزاد اور جاندار میڈیا (جو بڑی حد تک پرویز مشرف دور کی تخلیق تھا، اگرچہ آج کے میڈیا کے بہت سے بقراط اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں تامل سے کام لیتے ہیں) کاشکریہ کہ یہ معاملہ ڈرائنگ روم سے نکل کر روز روشن میں آ گیا۔ چیف صاحب کے انکار نے وکلاءمیں مزاحمت کی روح پھونک دی۔ پھر نو آزاد کردہ میڈیا نے بھی اپنی تاب وتواں کو جانچنا تھا۔بہت جلد گمنام وکلاءبھی میڈیا کے سامنے ابراہیم لنکن بن گئے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوںنے وہ دور دیکھا بار ایسوسی ایشنز میں بہت سے دوست وکلاء،جیسا کہ منیر ملک، جسٹس (ر) طارق محمود، بیرسٹر اعتزاز احسن، علی احمد کرد، حامد خاںاور بہت سے دیگر، نے فضا کو گرما دیا اور پھر کراچی کی ایک خاتون وکیل بھی تھیں جنہوںنے اسلام آباد میں ہی سکونت اختیار کر لی تھی تاکہ آمریت کی گرتی ہوئی دیوار ڈھانے میںکسی دھکے کی ”کسر“ نہ رہ جائے۔ جب وہ تقریر کرنے کے لئے دایاں بازو بلند کرتیںیا مارچ میں شریک ہوتیںتو ایسا لگتا تھا کہ آئین اور قانون کی حکمرانی بہار کے خوشگوار جھونکے کی طرح ملک کے درو دیوار کو مہکانے والی ہے مجھ جیسے افراد کو تو قانون عقل و منطق کی بجائے کیف آفرین جذبات کا مرقع معلوم ہوتا۔
تاہم کیف و نشاط کے یہ لمحات دیر پا ثابت نہ ہوئے اور بہت جلد حقائق کی تمازت نے گلستان کو خاکستر کرنا شروع کر دیا۔ تاریخی سچائی اپنی پوری سند کے ساتھ سامنے موجود تھی کہ ہر تحریک اور ہر انقلاب چاہے وہ فرانس میں بپا ہو یا چین میں خود سے وابستہ خوابوں کا خون کر دیتے ہیں، چنانچہ ہمارے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ اگرچہ وکلاءکی تحریک کو دنیا کے عظیم انقلابوں کی صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا، مگر ہماری بے سروسامانی ایسا انقلاب ہی افورڈ کر سکتی ہے۔ اس کے بعد ہماری کتاب ِ زیست نے ایک اور صفحہ پلٹا تو علم ہوا کہ کہانی ایک انجام کے بعد دوسرے انجام سے دوچار ہونے والی ہے اور قلم کار آج کا کام کل پر ٹالنے کا روادار نہ تھا۔
اب اُس تحریک کے بہادر رہنما کہاںہیں؟اب جو جذبات ، جو آئین اور قانون کی حکمرانی کا سندیسہ دے رہے تھے، کس پتھر پر سر پٹخ رہے ہیں؟کیاہم اُ س وقت خواب میں تھے یا یہ خواب ہے؟کیا اس تاریک صبح کی امیدمیں رات کے عفریتوںسے نبرد آزما ہوئے تھے؟ یہ کیا تبدیلی ہے کہ ہم تذبذب کا شکار ہو گئے ہیںکہ ماضی کے کمزور رویے بہتر تھے یا حال کی خود پسندی !اس میں کوئی دو آرا¿ نہیںکہ حکومت نا اہل اور بدعنوان ہے، مگر کیا ہر وقت اس پربلند ایوانوںسے چاند ماری کرنے سے معاملات سدھر جائیںگے؟اس فعالیت کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اداروںکے سربراہان اپنے کاموں پر توجہ دینے کی بجائے ہمہ وقت رپورٹیں لکھنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے کی فہرست طویل ہے اور ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ اس کی طوالت میں اضافہ ہو رہا ہے انتظامی معاملات پر جواب طلبی، گیس اوربجلی کی قیمتوں کا تعین،آبی ذخیروں کی تعمیر کا حکم (پرانے مسائل ابھی طے نہیںہوتے کہ نئے چھیڑ لئے جاتے ہیں)اور گڑے مردے اکھاڑنے پر اتنے کمر بستہ کہ لگتا ہے، اس دیس میں مرحومین ہونا بھی سکون کے لئے کافی نہیںہے۔ نہایت خندہ پیشانی سے ایسے ایسے احکامات پاس کر دئیے جاتے ہیں، جن کی بجا آوری کے لئے کئی ڈویژن فوج کی ضرورت ہو تی ہے اور اگر ان پر واقعتا عمل کرنا مقصود ہو تو پھر فوج کو اپنی دیگر تمام مصروفیات ترک کرتے ہوئے اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ اسی دوران میڈیا کے مردان ِ شمشیر زن حریفوں کو دعوت ِ مبازرت دیتے ہوئے میدان گرم رکھتے ہیں۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ پر، مگر جہاں تک عدالت میں آنے والے عام سائل کا تعلق ہے تو اُس کا کوئی پرسان ِ حال نہیںہے۔ کیا وکلاءکی تحریک کا بنیادی مقصد عام آدمی کو انصاف پہنچانا نہیںتھا؟....مگرہم سے یہ جھونپڑی تو بن نہ پائی ، ہم نے تاج محل تعمیر کرنے شروع کر دئیے ۔ عام آدمی واقعی عام ہی ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ کسی طے شدہ منصوبے کا نتیجہ ہے یا اچھے ارادے منہ زور گھوڑے بن چکے ہیں؟ یہ سوال بر محل ہے، کیونکہ انتخابات قریب ہیں اور ہمارا جمہوری نظام، جس کا دامن پہلے ہی نااہلی اور بدعنوانی سے داغ دار ہے، ابھی مضبوط بنیادوں پر استوار نہیںہے۔ اگرچہ ہم یہ نعرہ بھی سنتے رہتے ہیں کہ ماضی کو دفن کر دینا ہی بہتر ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ بہت سوں کا ماضی دفن ہونے سے صاف انکاری ہوتا ہے۔ چنانچہ جمہوریت کی کمزور بنیادیں بہت سا بوجھ اٹھاتے ہوئے ڈگمگاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اب صورت ِ حال یہ ہے کہ فوجی افسران اورسیاست دانوں پر کڑی تنقید ہوتی ہے، مگر ٹیکس چوری کرنے والے، دولت مندصنعت کاروں اور دھوکے بازوں سے اغماض برتا جاتا ہے ، پھر پاکستانی عوام اور میڈیا بھی کمزور اہداف پر چڑھائی کرتے ہیں۔ چنانچہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم اور پشاور میں طالبان کے خلاف الفاظ کے استعمال میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا ورنہ اس جسارت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
عدلیہ کی موجودہ فعالیت کے حوالے سے بھی یہی احتیاط ملحوظ ِخاطر رکھی جاتی ہے۔ میڈیا کے بہت سے دھڑے اس موضوع کو زیر ِ بحث نہیںلاتے، کیونکہ وہ جانتے ہیںکہ موقع شناسی ہی شجاعت ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت زیادہ ضبط بھی صحت کے لئے اچھا نہیںہوتا، پھر اب مداخلت بھی بے قابو ہو رہی ہے، چنانچہ کچھ مداخلت روا ہے۔اور پھر عدلیہ کی فعالیت نے کوئی گند صاف نہیں کیا، بلکہ غیر یقینی کی فضا قائم کر دی ہے اور ہر آدمی کا دل انجانے خوف سے دھڑکتا رہتا ہے کہ ”کچھ ہونے والا ہے“....اس ضمن میں عاصمہ جہانگیر اور جسٹس طارق محمود قابل ِ تعریف ہیںکہ اُنہوںنے اس معاملے پر بہت بے باکی سے آواز اٹھائی ہے،تاہم دیگر وکلاءنے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیںچھوڑا۔ ایک حالیہ ٹاک شو میں ، میں دو بھاری بھرکم وکلائ(ان میںسے ایک واقعی جسمانی طور پر بھاری تھے)کے درمیان بیٹھا ہوا تھا۔ پروگرا م کے میزبان سلیم صافی نے پوری کوشش کی کہ وہ اس موضوع پر کھل کر اظہار کریں، مگر اُنہوںنے نہایت چابکدستی سے براہ راست جواب دینے سے گریز کیا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتخابات سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا ؟ میرا خیال ہے کہ ان سے بہت زیادہ توقعات نہیںرکھنی چاہئیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کم و بیش یہی افراد واپس آجائیں۔ انقلابی تبدیلی کے دعوے کرنے والے شاید حقائق کی زمین پر اتر آئیں۔ فی الحال قومی معاملات کو سدھارنے والا کوئی جادوگر اس طرف نہیں آرہا ہے، تاہم دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیںہے، کیونکہ ہم بہرحال ایک تبدیلی کی طرف بڑھ ر ہے ہیں۔ ہم بہرحال ایک ساکت و جامد قوم نہیںہیں۔ اس دنیا میں سکوت کامطلب موت ہے، حرکت میں ہی زندگی ہے۔ مارشل لا اس لیے برے نہیںتھے کہ ہم پر جنرلوں کی حکومت قائم ہو گئی ، وہ اس لیے نقصان دہ تھے کہ اُس دوران تبدیلی کا راستہ مسدود ہو گیا اور کئی سالوں تک قوم ایک ہی حمام گرد باد کی اسیر رہی۔ اب کم از کم مستقبل کے تقاضے تو ہمیں آواز دے رہے ہیں اور ہم ان کی طرف صرف اسی صورت میںسفر کر سکیں گے جب موجود افراتفری ہمیںکچھ مہلت دے گی۔

مزید :

کالم -