گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔آخری قسط

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ ...
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔آخری قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے لیے چین کی دوستی تقویت کا موجب ہے۔ اس دوستی کی قدرو قیمت کو کم نہیں کیا جا سکتا، لیکن ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں ہمارے ملک کی قسمت ہے، ایک بات ہمیشہ یاد رکھے کہ ہمارے تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔ لیکن تعلقات میں تمام و کمال انحصار کی نوبت نہیں آنی چاہیے کیونکہ یہ اتنا ہی خطرناک ہو گا، جتنا خطرناک امریکہ پر تمام تر انحصار ۔ کسی دوست ملک کی طرف سے امداد کی پیشکش ہمارے لیے صحیح معنوں میں سو د مند اسی وقت ہو سکتی ہے ، جب کہ ہم کافی طاقتور ہوں۔ تاکہ وہ امدا اگر چھین لی جائے تو ہم اپنی جگہ ڈھیر نہ ہو جائیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمیں لا محالہ امداد کے علاوہ کچھ اور صورتوں کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ ایک امر لازم یہ ہے کہ ہم خارجہ معاملات میں جذبات کی رہنمائی ہر گز قبول نہ کریں۔ بدقسمتی سے تحمل ، نقدو نظر میں اختیاط اور قدر شناسی میں توازن کی صفات ایسی نہیں، جن کا بہرۂ و افر ہمارے ماضی یا حال کے رہنماؤں کو میسر آیا ہو ۔ پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے، اور مشرق وسطیٰ نیز جنوب مشرقی ایشیا کے نقطہ ہائے نظر سے جغرافیائی طور پر ایک اہم جگہ پر واقع ہے۔ چنانچہ اسے متعدد ریاستوں بالخصوص ہمسایوں کے ساتھ احتیاط اور چوکسی کی پالیسی پر کاربند رہنا پڑے گا اور اس کیلئے ان کے ساتھ انتہائی خوشگوار تعلقات قائم کرنے ضروری ہیں۔ ہمیں اس حقیقت سے ہمیشہ باخبر رہنا چاہیے کہ اقوام کی دوستی محض محبت پر مبنی نہیں ہوتی، بلکہ اس کا تمام تر انحصار ذاتی مفاد پر ہوتا ہے ۔ جب تک ایک دوسرے سے فائدے کی اُمید نہ ہو یہ دوستی قائم نہیں رہ سکتی۔اس صورت میں بڑے ملکوں کے ساتھ دوستی میں کچھ زیادہ ہی شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا مفاد یہ ہوتا ہے کہ اپنے اثرورسوخ کا دائرہ وسیع کر کے اسے ہماری سرحدوں تک پہنچا دیں اور ان کے نقطۂ نظر سے یہ بات کہیں بہتر ہو گی کہ وہ اپنی سرزمین کے بجائے ہمارے ملک میں لڑیں۔

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 85 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کا سب سے اہم پلو ہندوستان کے بارے میں ہمارا طرزِ عمل ہے ۔ ہندوستان کو صحیح معنوں میں ’’ایک ملک کی حیثیت اس وقت حاصل ہوئی جب برطانیہ نے اس برصغیر میں مؤثر فرمانروائی کا آغاز کیا۔ یہ ڈیڑھ سو برس کا عرصہ ہے۔ برصغیر پر بالا دستی کی صورتیں مغلوں کے زمانے میں بھی مختلف رہی ہیں۔ اس کا انحصار دہلی کے بادشاہ کے اقتدار و اختیار پر تھا۔ لیکن خارجی مقاصد کے لیے ہندوستان کو ایک مضبوط سلطنت قیاس کیا جاتا ہے۔ جس کا مقابلہ یورپ میں روم کی سلطنت سے کیا جا سکتا ہے ۔ اس میں بہت سی بادشاہتیں، ریاستیں اور جمہورتیں قائم تھیں اور ان میں سے ہرایک کی اپنی اپنی حکومتیں اور عدالتیں موجود تھیں۔
ہندوؤں نے ہندوستان کی تقسیم کو بڑی شدت سے محسوس کیا تھا ۔ دونوں طرف پانچ لاکھ سے زائد افراد کے بے رحمانہ قتل نے ان کے ذہنوں میں پاکستان کے لیے محبت کے جذبات یقیناًپیدا نہیں کیے ، ہمیں یہ تو قع تھی کہ سترہ برس کے بعد ہندوستان نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کر لیا ہو گا، لیکن میں اکثر یہ محسوس کرتا ہوں ککہ وہ آج بھی ہم پر اعتماد نہیں کرتے جس طرح ہم ان پر نہیں کرتے۔ سرحدی تصادم کے واقعات اور کشمیر کے تنازعہ کے سبب وہ زخم اب بھی تازہ ہو جاتے ہیں جو تقسیم کے وقت لگائے گئے تھے لیکن اختلافات کے تصفیہ کی خاطر جنگ کا طریقہ حقیقت پسندی سے بعید اور بے فائدہ ہے۔ وہ دن گزر گئے، جب اُنیس مسلمانوں نے بنگال پر حملہ کر دیا تھا، اور وہاں کے حاکم نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ ہندوستان کئی لحاظ سے پاکستان کے مقابلہ میں پانچ گنا بڑا ہے اور خام مال کے کثیر و سائل کی بنیاد پر اتنے وسیع پیمانہ پر اسلحہ تیار کر سکتا ہے کہ پاکستان اسلحہ سازی کی خاطر تمام شعبوں کی ترقی کو قربان کر دینے کے بعد بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ہمارے علاقہ کے مسلمان پیدائشی سپاہی ہیں، چنانچہ ہندوستان میں پاکستان سے جنگ کا جو خوف پایا جاتا ہے، وہ ہماری دھمکیوں ہی کار ردِ عمل ہے۔ صورتِ حالات اگر جوں کی توں بر قرار رہی تو پاکستان کا اس سے مضطرب ہونا فطری امر ہے، کیونکہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی دیسی ریاستوں کے ساتھ ہندوستان نے ظالمانہ سلوک کر کے ہمیں ان علاقوں سے اور خاص طور پر کشمیر سے محروم کر دیا ہے۔ لیکن محض دھمکی دینے سے جنگ نہیں چھڑجاتی اور نہ اس سے کوئی جانی نقصان ہوتا ہے۔ تاہم میں وزیر خارجہ اور بعد میں وزیراعظم کی حیثیت سے دھمکی کی حکمت کا قائل نہیں تھا۔ اس کے برعکس مجھے یقین تھا کہ صرف اعتماد اور مکمل اخلاص کا سلوک ہمارے متعلق ہندوستان کے رویہ میں تبدیلی پیدا کر سکتا ہے، ہم مسلمان ڈپلومیسی کے لطیف قرینوں سے واقف نہیں۔ لہٰذا ہم سے یہ ممکن نہیں کہ عیار ہندوستانیوں کو بیوقوف بنا لیںیا انہیں ڈرا دھمکا لیں۔
نہری پانی کا تنازعہ اگر چہ مسئلہ کشمیر کے برابر ہم نہ تھا ، تاہم اب اسے حل کیا جا چکا ہے۔ ہندوستان نے جب راوی اور بیاس کا پانی بند کر دیا تھا تو ہمارے مویشی کثیر تعداد میں پیاسے مر گئے اور فصلیں سوکھ گئیں۔ اس وقت پتا چلا کہ ان دریاؤں پر ہمارا کس قدر انحصار ہے۔ ہندوستان نے ہمیں نیچا دکھانے کیلئے یہ ایک انتہائی غیر قانونی اور بھونڈا طریقہ اختیار کیا تھا۔ ہندوستان نے ہماری اس تجویز کی ہمیشہ مخالفت کی کہ ہمیں انصاف کی خاطر ہیگ کی بین الاقوامی عدالت سے رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ کوئی بھی عدالت ہمیں مشرق دریاؤں کے پانی سے جن پر ہمارا طبعی حق ہے، محروم نہیں کر سکتی تھی، لیکن عدالت میں مقدمہ جیت لینے سے کیا فائدہ جب تک اس کے پیچھے فیصلہ کے نفاذ کی مؤثر طاقت موجود نہ ہو؟ ہندوستان میں بندوں کی تعمیر کے بعد پاکستان ہر سال موسمِ سرما میں چھ ہزار کیوسک فٹ پانی سے محروم ہو جایا کرے گا۔ ایک کیوسک کے معنی ہیں، ایک سکینڈ میں ایک مکعب فٹ پانی ۔ ہندوستان کے لیے یہ آسان تھا کہ وہ ہمیں برسات کے موسم میں بیس ہزار کیوسک پانی حاصل کر لینے دے۔ چنانچہ یہ بات اس نے منظور کر لی۔ اب سرما کے موسم میں چھ ہزار کیوسک پانی کی تقسیم کا سوال رہ گیا تھا لیکن ہندوستان محض اپنی حماقت کی بنا پر اس صورتِ حال سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکا اور پانی کی یہ مقدار فراہم کرنے کی ضمانت دے کر ہمیں اپنا دستِ نگر نہ بنا سکتا ۔ یہ امر حیران کن ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں اپنی اپنی جگہ ایک ایسی حکمت عملی پر کاربند تھے، جو انجام کا ر خود ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی۔ ہم پاکستانی پانی مانگ کر ہندوستان کے جذبہ خیر سگالی کے دستِ نگر بن رہے تھے اور ہندوستان یہ اصرار کر کے کہ پاکستان پانی کی فراہمی کا متبادل انتظام کر ے، ہمیں اپنے اثرات اور دستِ نگری سے آزاد کر رہا تھا۔
اسی بنا پر میرا یہ نظریہ تھا کہ ہم اپنے لیے بند اور نہریں جتنی جلد تعمیر کر لیں ہمارے مستقبل کے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا ۔ ۱۹۵۳ ؁ء میں وزیر اعلیٰ مقرر ہونے کے بعد میں نے اپنی اس رائے کا اظہار مرکزی حکومت اور مسٹر معین الدین سی ایس پی سے کیا، جو نہری پانی کے معاملات پر بات چیت کرنے والے پاکستانی وفد کے ایک رکن تھے۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ آخر کار میرا ہی خیال حاوی رہا۔ پوری بات چیت حقیقت پسندانہ بنیاد پر جاری رہی، اور فیصلہ ہو گیا۔عالمی بنک نے قابل تعریف تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ اس کا جذبہ خیر سگالی لائقِ داد تھا۔ چنانچہ اس کی مستقل مزاجی کی فتح ہوئی۔ زیر تعمیر منگلا بند کا معائینہ کر کے اور فنِ تعمیر کے اس عظیم منصوبہ کو زیر عمل دیکھ کر تھوڑا سا افسوس ہوتا ہے کہ یہ رقم نئے ترقیاتی منصوبوں پر نہیں بلکہ صرف متبادل انتظام پر صرف کی جا رہی ہے، تاہم اس متبادل انتظام سے پاکستان کی آزادی کے تحفظ میں مدد ملے گی۔
تنازعۂ کشمیر کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اور ہم پاکستانیوں کو اقوامِ متحدہ کو بین الاقوامی کونسل میں جب بھی یہ مسئلہ پیش کرنا پڑا ہے، کونسل میں شریک مندوبین کے منہ سے بیزاری اور کوفت کا اظہار ہوا ہے ، لیکن پاکستان کے پاس جنگ کے سوا، یہی ایک راستہ تھا کہ اقوامِ متحدہ میں جائے، کیونکہ ہندوستان نے باہمی گفت و شنید یا مشترکہ قابلِ اعتماد دوستوں کی ثالثی کے ذریعہ اس مسئلہ کے تصفیہ پر کسی طرح کی آمادگی ظاہر نہیں کی۔

ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں ۱۹۵۶ءمیں ایک پاکستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے سلامتی کونسل میں گیا تھا، کیونکہ ہندوستان نے دوسری صوبائی اسمبلیوں کی طرح کشمیر اسمبلی کے لیے بھی انتخاب کی تجویز کی تھی اور اس طرح ایک غیر آئینی اور من مانی کارروائی کا مرتکب ہوا تھا۔ ہندوستان مرکزی اسمبلی میں کشمیر کے نمائندے شامل کر کے ، اس علاقہ کو پوری طرح اپنی ریاست میں مدغم کر رہا تھا ، لہٰذا اس کارروائی کے خلاف سلامتی کونسل کی ہدایت حاصل کرنا بیحد ضروری تھا، وہاں اس مضمون کی قرار داد دس ووٹوں سے منظور ہو گئی کہ ہندوستان ایسی کوئی ایک طرفہ کارروائی نہ کرے۔ روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ کشمیر کے مسئلہ پر ہمارے مؤقف کو اتنی شاندار کامیابی پہلی بار حاصل ہوئی تھی۔ مسٹر کرشنا مینن ہندوستانی مند بین کے سربراہ تھے اور مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ ان کی تمام تر ذہانت اور پر بیچ لفاظی کے باوجود ، جسے سبھی مندوبین نے ’’مینیات ‘‘ کا نام دیا تھا پاکستان کو شاندار اخلاقی فتح حاصل ہوئی۔ اس قرار داد کی منظوری کے بعد میں نے معاملے کو مزید آگے بڑھایا اور فوجوں کی واپسی کے متعلق ٹھوس تجاویز پیش کیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ اقوامِ متحدہ کی فوجوں کی موجودگی میں پاکستان ، ہندوستانی فوجوں کے انخلا کے ساتھ ہی اپنی فوجوں کا ایک حصہ ریاست سے باہر نکال لے گا، لیکن پاکستان اس بات پر آمادہ نہ ہو سکا کہ ہندوستانی دستے کے انخلاء سے پہلے وہ اپنی تمام فوجیں باہر نکال لے۔ ہندوستان کا یہی مؤقف تھا۔ یہ دوسری قرار داد ہماری تجویز کے مطابق ایک بار پھر دس ووٹوں سے منظور ہو گئی، لیکن روس نے اسے مسترد کر دیا، اگر یہ قرار داد منظور ہو گئی ہوتی تو آج کشمیر میں بین الاقوامی فوجی دستے متعین ہوتے اور یہ خطہ بہت سی مصیبتوں سے بچ جاتا۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے متعدد مواقع پر پاکستان کو جنگ نہ کرنے کے معاہدہ کی پیشکش کی، لیکن کشمیر کا مسئلہ جب تک حل نہ ہو اس طرح کا معاہدہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اگر کبھی یہ مسئلہ حل ہو گیا تو امتناعِ جنگ کے معاہدہ کی ضرورت ہی نہیں رہ جائے گی ، کیونکہ کوئی پاکستانی ہندوستان پر حملہ کرنے کی تصور بھی نہیں کر سکتا، چاہے معاہدہ ہو یا نہ ہو۔ختم شد