دورحاضر کے تقاضے اور شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی

دورحاضر کے تقاضے اور شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کوئی بیس بائیس برس پہلے کی بات ہے میں نے ہفت روزہ ”چٹان“ میں جماعت اسلامی کی فکر اور اُس کی سیاسی جدوجہد پر ایک تنقیدی جائزہ لکھا تو اُس میں جماعت کی تمام کتابوں کی فہرست بھی شامل کی تھی۔ دکھانا یہ مقصود تھا کہ اُن میں کوئی کتاب ایسی نہیںجس کا تعلق پاکستانی معاشرے کے عملی مسائل و معاملات سے ہو۔ کسی ایک کتاب میں بھی اُن چیلنجز کا جواب نہیں ملتا جو حصول آزادی کے بعد ہمیں پیش آتے رہے ہیں۔ یہ تمام لٹریچر بڑی حد تک نظری مباحث پر مشتمل ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اسلام فی الواقع سچا اور بہترین دین ہے۔
جس وقت مولانا سیّدابو الاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، امین احسن اصلاحی، نعیم صدیقی، ملک غلام علی، صدر الدین اصلاحی، پروفیسر خورشید احمد اور اسعد گیلانی یہ لٹریچر تیار کر رہے تھے تو اُس دور میں سوشلسٹ اور سیکولر فکر سے مسلمان نوجوان متاثر ہو رہے تھے۔ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ ہماری اگلی نسلیں دہریت اور الحاد کا شکار ہو جائیں گی، چنانچہ جماعت کے خالص نظریاتی لٹریچر نے اُنہیں اسلام کی بنیادی سچائیوں پر یقین اور اعتماد عطا کیا تھا۔ لیکن چونکہ وہ لٹریچر معاصر معاشرتی اور ریاستی نظام کی بحث سے یکسر خالی تھا، اِس لئے جنرل ضیاءالحق بڑی آسانی کے ساتھ جماعت کو فریب دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اُنہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد اپنی پہلی تقریر خطبہ مسنونہ سے شروع کی تو اسلام پسند حلقوں کو یوں لگا جیسے وہ سحر طلوع ہوا چاہتی ہے، جس کا مدت سے خواب دیکھا جا رہا تھا۔ گیارہ سال بعد محسوس یہ ہوا کہ سحر کیا طلوع ہوتی،اُلٹا تاریکیاں دبیز ہوتی چلی گئیں اور آج پاکستانی قوم اُنہی میں بھٹکتی پھر رہی ہے۔ نہ منزل سامنے ہے اور نہ کوئی بڑا دماغ راستہ دکھانے والا نظر آتا ہے۔
آج جب میں شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے شائع ہونے والی تازہ کتاب ”ارمغانِ علامہ علاﺅ الدین صدیقی“کی ورق گردانی کر رہا ہوں تو میری مایوسی دو چند ہو گئی ہے۔ پہلے ”ارمغان“ کی وضاحت کر دوں۔ ارمغان، کا مطلب ہے تحفہ۔ علمی برادری کبھی کسی بڑی علمی شخصیت کی خدمت میں اعلیٰ پایہ کے مضامین و مقالات کا مجموعہ بطور تحفہ پیش کرے تو اُسے ارمغان کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ گویا اُس شخصیت کی علمی خدمات کا اعتراف ہوتا ہے۔ علامہ علاﺅ الدین صدیقی (1907ءتا 1977ئ) بھی ایک صاحب علم شخصیت تھے۔ تعلیم میں ایم اے فارسی، ایم او ایل اور ایل ایل بی تھے۔ اُنہیں تحریک پاکستان میں بھی شمولیت کا اعزاز حاصل تھا۔ 1935ءمیں مسجد شاہ چراغ میں درس قرآن کا آغاز کیا۔ 1945ءمیں اُنہیں اسلامیہ کالج (ریلوے روڈ) میں دینیات کے استاد کے طور پر مقرر کیا گیا۔ 1946ءمیں مسلم لیگ صوبہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری بنے۔ تقسیم کے بعد بھی صوبائی سیاست میں سرگرم رہے۔ ’ارمغان‘ کی مرتبہ ڈاکٹر جمیلہ شوکت کی روایت کے مطابق ”علامہ صاحب صوبہ پنجاب کی صدارت کے لئے ممتاز دولتانہ کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔ ایک متوسط خاندان کے فرد ہونے کی وجہ سے ایک با اثر زمیندار، سرمایہ دار طبقے کے فرد کا مقابلہ نہ کر سکے اور اِس طرح دولتانہ جیت گئے۔ اس کے بعد علامہ صاحب کوچہ سیاست کو خیر باد کہہ کر تعلیم و تدریس میں مصروف ہو گئے۔


1950ءمیں پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات قائم ہوا تو حکومت نے شعبے کی سربراہی سنبھالنے کے لئے پہلے علامہ محمد اسد (لیو پولڈ) کو دعوت دی لیکن اُنہوں نے انکار کر دیا۔ اِس کے بعد علامہ علاﺅ الدین صدیقی کو بلایا گیا۔ علامہ صاحب 1964ءسے 1973ءتک اسلامی مشاورتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ 1969ءسے 1973ءتک وہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ علامہ صاحب کی کوئی تحقیقی کتاب ہماری نظر سے نہیں گزری۔ ارمغان میں البتہ اُن کے تین انگریزی مقالات شامل ہیں، جن کے عنوان ہیں:
1- Abraham and His influence on history
2- Muhammad: the Universal prophet.
3- The Attitude of Islam Towards other religions.
ارمغان کی مرتبہ محترمہ پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے علامہ صاحب کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی تاریخ صفحہ 18 پر 1932ءاور صفحہ 21 پر 1935ءدرج کی ہے، معلوم نہیں درست کونسی ہے؟ خیر غلطی تو بڑی آسانی سے کمپوزر کے کھاتے میں ڈالی جا سکتی ہے، یہ کمپوزر ٹائپ لوگ تو شاید ہوتے ہی اِس لئے ہیں کہ غلطیاں ہم کریں اور ملبہ اُن پر گرا دیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے علامہ صاحب کے کوائف زندگی لکھتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ اُن کے دور میں یونیورسٹی نے ترقی کی کتنی منزلیں طے کی تھیں۔
مَیں نے ”ارمغان علامہ علاﺅ الدین صدیقی“ میں شامل علمی مقالات کے بارے میں جو مایوسی کا اظہار کیا ہے تو اِس حوالے سے نہیں کیا کہ مقالات کا علمی معیار کمتر ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلا شبہ ہر مقالہ بہت محنت سے لکھا گیا ہے۔ زبان و بیان کے سارے سلیقے برتے گئے ہیں۔ اِن سب کا تعلق ادیان کے تقابلی مطالعے سے ہے۔ یہ علامہ صاحب کا پسندیدہ موضوع تھا۔اِس اعتبار سے ”ارمغان“ کی ایک اپنی قدر و قیمت بنتی ہے۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ اگر علامہ صاحب مرحوم و مغفور کو کوئی علمی تحفہ پیش کرنا ہی تھا تو قومی زندگی کے کسی زندہ مسئلے پر لکھنے کے لئے سکالر حضرات کو زحمت دی جاتی۔
”ارمغان“ کے بعض صفحات پر شعبہ اسلامیات کے اساتذہ کی لکھی ہوئی کتابوں کی جو فہرستیں دی گئی ہیں، اُنہیں دیکھ کر شعبے کے اساتذہ کے علمی رجحان کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شعبے نے آج کی دُنیا کے مسائل و افکار سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھا ہوا۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے نقطہ نظر کی مزید تشریح کروں، آپ اساتذہ کے تصنیفی سرمائے پر ایک نظر ڈال لیں، ممکن ہے آپ میری گذارشات بہتر طور سے سمجھ سکیں۔
پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت:
-1 مسند عائشہ صدیقہ: تحقیق و دراستہ(2) الامام جلال الدین سیوطی: تحقیق و تخریج(3) تحفتہ الطالبین فی ترجمہ الامام النوری (4) اشاریہ تفہیم القرآن (5) سٹڈیزان حدیث (انگریزی)(6) اسحاق بن رواح: لائف اینڈ ورکس۔
پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی:
(1) المنہاج السوی فی ترجمتہ الامام النووی (2) انسان کاملﷺ(3) حفاظت حدیث (4) رسول رحمتﷺ (5) حضورﷺ سے ہمارے تعلق کی بنیادیں (6) پیغمبرانہ منہاج دعوت (7) اصول الحدیث (8) اسلام کا معاشرتی نظام (9) اقبال اور احیائے دین (10) اقامت الصلوٰة (11) پیغمبرانہ دعائیں (12) اسلام کے اصول تجارت (13) خلق عظیم (14) نظریہ پاکستان (15) شرح اربعین نووی۔
پروفیسرڈاکٹر بشیر احمد صدیقی:

1۔قرآن حکیم کی روشنی میں رسول کریم کی شان و عظمت2۔ورفعنا لک ذکرک3۔خطبات جمعہ4۔مثالی پیغمبر 5۔فقہ حنفی اور اِس کی خصوصیات 6۔ماڈرن ٹرینڈز اِن تفسیر لٹریچر7۔سید علی ہجویری،حالات و خدمات
پروفیسر ڈاکٹرثمر فاطمہ:
1۔مشعل راہ2۔اسلامی تہذیب و تمدن
ڈاکٹر حمید اللہ عبدالقادر:
1۔اصول حدیث2، مصباح الحدیث3۔حدیث نبوی اور مستشرقین اللولووالمرجان(ترجمہ و تشریح)
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر:
1۔استحکام مملکت اور بدامنی کا انسداد(تعلیماتِ نبویﷺ کی روشنی میں)2۔مریض کا علاج اور تیمار داری اسلام کی نظر میں
حافظ عثمان احمد:
1۔”اضطراب“(مجموعہ کلام) 2۔اللہ میاں کے نام اُداس خط۔
ڈاکٹر حافظہ شاہدہ پروین:
1۔ریت کے گھروندے2۔فہرست مقامات (1952ءتا2009ئ)بہ اشتراک۔
پروفیسر حافظ احمد یار خان:
1۔یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
شعبہ کے اساتذہ کی کتابوں کے عنوانات سے ظاہر ہوتا ہے جیسے یہ لوگ کسی غار میں رہ رہے ہیں، اُنہیں خبر ہی نہیں کہ دُنیا کن تغیرات سے گزر رہی ہے اور ہمارا وطنِ عزیز کن مسائل کے گرداب میںپھنساہوا ہے۔جن مقاصد کی خاطریہ ملک معرض وجود میں آیا تھا اور برصغیر کے مسلمانوں نے آگ اور خون کے دریا پار کئے تھے، اُن میں سے کوئی ایک مقصد بھی آج تک پورا نہیں ہوا۔اگر پینسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی اسلام کو ریاستی نظام میں عمل دخل حاصل نہیں ہو سکا تو آخر اِس کے کچھ اسباب و محرکات توضرور ہوں گے۔اساتذہ کرام کی توجہ اِس موضوع کی طرف کیوں نہیں جاتی؟پھر اِس ملک کا دولخت ہوجانا اسلامی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی استاد کے دل میں کبھی اِس حوالے سے درد نہیں اُٹھا۔کیا اساتذہ اِس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ پاکستان کے قیام کا مقصد جدید تقاضوں کے مطابق اسلامی معاشرے کا قیام تھا۔کاش کوئی استاد اس حوالے سے بھی قلم اُٹھاتا کہ اِس مملکت خداداد میں اسلام پر کیا گزری ہے؟آخر اِن قوتوں کی نشاندہی کون کرے گا کہ جن کی سازشوں کی وجہ سے اسلامی معاشرے کے قیام کا خواب آج تک شرمندئہ تعبیر نہیں ہوا۔
کاش یہ اساتذہ کوئی ایک کتاب اِن قوتوں کے جائزہ ہی پر مبنی لکھ دیتے جو اسلام کو مروجہ استحصالی نظام کے نزدیک آنے نہیں دیتیں۔اِن اساتذہ کے سامنے افسروں کے لاﺅلشکر پالیسیاں بناتے اور اِن کا نفاذ کرتے ہیں، وہ ماشاءاللہ مسلمان بھی کہلاتے ہیں۔آخر اِن کے کیا مفادات ہیں کہ وہ ملک کو غیروں کی محتاجی سے نہیں نکالتے۔کیوں اُنہوں نے کئی قسموں کا نظام تعلیم رائج کروا رکھا ہے۔
اِسی پاکستان میں قانون کے محافظ جس جس انداز سے خود قانون ہی کی مٹی پلید کرتے اور مظلوم عوام کی کھالیں اُدھیڑتے ہیں،کیا اِن کے احوال کا جائزہ لینا اِن سکالروں کا کام نہیں؟ آخر اسلام نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے جواحکام دے رکھے ہیں،اُن کا اطلاق کن لوگوں پر ہوتا ہے؟قیام پاکستان کے فوراً بعد عوامی حلقوں سے مطالبہ اُٹھا تھا کہ انگریزی دور کی یادگار جاگیرداریوں اور وڈیرہ شاہیوں کو ختم کیا جائے۔یہ وڈیرے نہ پاکستان میں جمہوریت آنے دیں گے نہ اسلام۔جائزہ لینے کی ضرورت تھی کہ اسلام میں ان جاگیرداروں اور وڈیروں کے لئے کیا حکم ہے۔یہ اسلام پر سالوں سے لیکچر دینے اور روایتی ریسرچ کروانے اور بھاری مراعات سمیٹنے والے اساتذہ نے یہ کام نہیں کرنا تو آخر کس نے کرنا ہے، کیا یہ کام کرنے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے۔باہر عوام جس اسلامی نظام کے لئے دعائیں مانگتے اور گڑگڑاتے یا خودکشیاں کرتے ہیں، اُن بے چاروں کو خبر ہی نہیں کہ جن لوگوں نے عوام کو اِن ظالموں سے نجات پانے کے لئے شعوری طور پر تیار کرنا ہے۔وہ صدیوں پہلے کی فقہی موشگافیوں، فتاویٰ کے قلمی نسخوں اور تفسیروں کے تقابلی مطالعہ میں گم ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد جب مزدور طبقہ بہت بڑے حجم کے ساتھ منظر عام پر ظہور پذیر ہوا تو اُس کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔فیکٹریاں، کارخانے لگانے والوں نے اُن سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام تو لیا، مگر اُن کے جائز حقوق سے آنکھیں بند کئے رکھیں، نہ اُن کی صحت کی فکر کی، نہ اُنہیں بونس دیئے اور نہ اُن کی رہائش کا سوچا۔ جب مزدوروں نے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائی تو اُنہیں سوشلسٹ اور کمیونسٹ قرار دے کر روکنے کی کوشش کی گئی۔ ساری انتظامی مشینری سرمایہ دار کا دست و بازو بن جاتی رہی۔کیا اِن اساتذہ نے کبھی نچلے طبقات کی محرومیوں کا بھی جائزہ لیا، کیا اسلام محروم طبقات کی بات نہیں کرتا؟ کیا اِن اساتذہ نے قران مجید میں بیان ہونے والے اقوام سابقہ کے قصص پر تجزیاتی نظر ڈالی؟کیا اِن اساتذہ کو یہ معلوم نہیں کہ اِن اقوام کے اندر مستضعفین اور مترفین کون تھے اور آج کے مستضعفین اور مترفین کون ہیں؟
پاکستان میں گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے میڈیا جو قیامتیں برپا کررہا ہے، کیا اُس کے حسن و قبےح پر بھی اسلامیات کے اساتذہ کو کچھ سوچنا اور لکھنا چاہیے یا نہیں؟یوں لگتا ہے جیسے اُنہیں معلوم ہی نہیں کہ میڈیا نام کی کوئی چیز کب کی ہمارے معاشرتی عمل میں شامل ہوچکی ہے اور زندگی کی ساری جہتوں پر بے پناہ اثرات مرتب کررہی ہے۔کوئی استاد اِن اثرات ہی کا جائزہ لے لے، یہ بھی تو اسلام ہی کی خدمت ہوگی۔
کیا اسلامیات کے اِن اساتذہ کی نظر کبھی اے لیول اور اولیول کے تعلیمی نظام کی طرف نہیں گئی، جو نظام ہر سال کتابوں اور امتحانوں کی فیسوں کے بدلے ہم سے اربوں روپے سمیٹ کر بیرونی طاقتوں کی تجوریوں کو بھر دیتا ہے۔آخر اسلام اس حوالے سے کچھ بتاتا ہے یا نہیں؟ کیا اِس طرح کا تعلیمی نظام پاکستانی معاشرے میں کوئی یکجہتی پیدا کرسکتا ہے جہاں غریبوں یتیموں کے سکول الگ ہوں اور لاکھوں کی فیسیں بٹورنے والے الگ ۔پھر اِس امر کا جائزہ کون لے گا کہ اِن اونچے سکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے کتنے بچے وطن اور اسلام پر قربان ہونے کا جذبہ اپنے سینوں میں رکھتے ہیں؟کیا اِن اساتذہ کو نظر نہیں آتا کہ سرمایہ دار طبقے نے پنجاب یونیورسٹی کو عوام کی یونیورسٹی سمجھتے ہوئے اپنی ضروریات کے مطابق الگ تعلیمی ادارے قائم کرلئے ہیں، جہاں طلباءکو حصول ملازمت کا پورا پورا تحفظ حاصل ہے؟
کیا اِن اساتذہ نے کبھی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے احوال بھی معلوم کئے، جہاں کرپشن نے ایسے ڈیرے ڈال رکھے ہیں کہ اِس کی اصلاح کرنا آج دُنیاکا مشکل ترین کام نظر آتا ہے۔کاروباری طبقہ جس جس طرح سے افسروں اور کلرکوں کو رشوت کا عادی بناتا ہے، کیا ان گندے طور طریقوں پر تحقیقی کام کرنا غیر اسلامی فعل ہے؟آج حرام کمانے کے جو ہزارہا طریقے رائج ہوچکے ہیں، کیا اُن کا جائزہ لینا وقت کی بہت بڑی ضرورت نہیں؟ کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ دیکھتے جاﺅ اور قلم اُٹھانے سے فرار اختیار کئے رکھو ۔ ادیان کے تقابلی مطالعے کی بھی کچھ نہ کچھ اہمیت ضرور ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ شعبہ اسلامیات کے اساتذہ کرام کی توجہ عملی زندگی کی پیچیدگیوں کی طرف کیوں نہیں جاتی ؟کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ریسرچرز علاﺅ الدین صدیقی کو خرا ج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایسا ”ارمغان‘ ‘ مرتب کرتے، جس کے لئے سوسائٹی کے کسی زندہ مسئلے سے متعلق کوئی عنوان دیا جاتا؟لے دے کے صرف ایک استاد نے پاکستانی معاشرے کے ایک مسئلے پر کتابچہ تحریر کیا ہے اور وہ ہے: یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ۔جنرل ایوب خان کے دور میں یہ مسئلہ پوری شدت سے اُٹھا تھا اور اِس پر بہت لے دے ہوئی تھی۔ورنہ اساتذہ کرام کی کوئی ایک تحریر بھی اپنے ریاستی اور معاشرتی احوال سے اعتنا نہیں رکھتی۔

میرے نزدیک اسلامیات کے اساتذہ کی اِس غفلت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ دین و مذہب کے علاوہ دیگر سماجی علوم مثلاً سماجیات، تاریخ، بشریات، نفسیات، سیاسیات، ابلاغ عامہ، بین الاقوامی تعلقات، قانون، معاشیات وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔اُن کی ذاتی لائبریریوں میں شاید ہی اِس حوالے سے کوئی ایک بھی کتاب موجود ہو۔عصر حاضر کے سماجی علوم سے بے رغبتی کی وجہ ہی سے اُنہوں نے جو نصابات بھی رائج کر رکھے ہیں،وہ بھی موجودہ دور سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔اِس کے بعد پھر تبدیلی آئے تو کیسے آئے، محض دھرنے دینے سے تو یہ کام ہونے سے رہا!
وما علینا الاالبلاغ  ٭

مزید :

کالم -