حالات کا دباؤ، سنبھلنے کیلئے نیک نیتی کی ضرورت ہے!

   حالات کا دباؤ، سنبھلنے کیلئے نیک نیتی کی ضرورت ہے!
   حالات کا دباؤ، سنبھلنے کیلئے نیک نیتی کی ضرورت ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ روز لکھا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ غیر متوازن شخصیت ہیں، جس کا وہ بار بار ثبوت دیتے رہتے ہیں لیکن اب تو انہوں نے خود اپنی انتظامیہ کی تمام وضاحتوں کو رد کرکے واضح طور پر پھر سے کہہ دیا کہ مکمل جنگ بندی کے بعد اسرائیل غزہ امریکہ کے حوالے کر دے گا اور فلسطینی مصر، اردن اور کسی اور جگہ بسیں گے حالات حاضرہ میں اگرچہ اسرائیل کی طرف سے بھی تعجب کا اظہار کیا گیا لیکن صدر ٹرمپ بہت واضح ہیں انہوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور پھر سے اپنے ارادے کا اظہار کر دیا ہے، اس سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ محترم ٹرمپ صاحب نے جنگیں بند کرنے کا جو نعرہ لگایا اس سے ان کی مراد یہی ہے کہ جنگ بند کرتے جائیں اور خطے امریکہ کے حوالے کرتے جائیں کہ امریکہ ابھی تک موجودہ کائنات کے کسی اور سیارے کو تسخیر کرکے وہاں آبادی کاری نہیں کر سکا تو اب دنیا میں متاثرہ حصوں کو ہی سیارے تصور کرکے وہاں امریکی بستیاں بسانے کا ارادہ کررہا ہے، اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کل کلاں یوکرین، روس جنگ بند ہوئی تو ٹرمپ صاحب یوکرین پر دعویٰ کر دیں گے اور اسے بھی امریکی بستی قرار دے دیں گے۔ یوں جنگ بندی کا جونعرہ لگایا گیا تھا اس کے پیچھے مقاصد یہی کارفرما تھے کہ اس جدید تر دور میں بھی سیارے جان کر امریکی بستیاں بنائی جائیں۔ صدر ٹرمپ ایک معتبر بڑے ملک کے صدر اور باہوش بھی ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے سکتے تھے لیکن وہ تو بہت گہرے اور بڑے تاجر پیشہ ہیں، حتیٰ کہ ان کو وہ دیوانہ بھی کہا جا سکتا ہے جو سڑکوں سے اینٹیں اٹھاتا اور اپنے گھر کے صحن میں پھینکتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے توسیع پسندانہ عزائم سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا اسی لئے دنیا میں ردعمل بھی دیا جا رہا ہے، ٹرمپ صاحب کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں، لیکن دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ کھنڈروں میں واپس آنے والے فلسطینی اپنی سرزمین کو چوم کر انہی کھنڈروں میں زندگی گزار دیں گے، وہ یہاں سے چلے جانے سے واضح اور صاف انکار کر چکے ہیں، یوں اگر دیکھا جائے تو ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ آمد بھی ایک نئی تبدیلی کی علامت ہے۔

حالات بالکل واضح ہیں، ہم اگر کبوتر کی طرح آنکھ بند کرکے بلی کا خطرہ ٹالنا چاہتے ہیں تو ہماری مرضی ورنہ تبدیلی واضح نظر آ رہی اور ٹرمپ سے خیر کی کوئی توقع وابستہ کرنا خود کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے، وہ جو کچھ کہتے رہے وہ کرتے چلے جا رہے ہیں، اب یہ باقی دنیاکا اپنا عمل ہے کہ وہ کس ردعمل کا اظہارکرتی ہے، اس کے لئے دیگر ممالک کو تو سوچنا ہے لیکن اصل پریشانی اسلامی ممالک کے لئے ہے اور یہ وقت ہے کہ سب سنبھل جائیں، آپس کے اختلاف ختم کریں اور مکمل اتفاق رائے سے فیصلے کریں کہ مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔ ہم مسلمان ممالک کا جہاں تک تعلق ہے تو ان کو خود اپنے ممالک کے اندر بھی دیکھناہوگا اور ادراک کرکے اندرونی طور پر بھی استحکام پیدا کرنا ہوگا۔

میں نے اپنے ملک پاکستان کے لئے بھی گزارش کی تھی، ہم تو پہلے ہی قرضوں پر انحصار کرکے معیشت کو سنبھال رہے ہیں، حالانکہ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اگر استحکام اور امن کے ساتھ جذبہ صادق ہو تو ہماری زمین گیس، تیل اور کوئلے کے علاوہ فولاد، سونا اور زمرد بھی اگلتی ہے، یہ اور بھی بہتر ہو سکتے ہیں۔ریکوڈک اور سیندک اپنی جگہ یہاں سوات،اٹک اور سندھ کی زمینوں سے اللہ ہمیں بہت کچھ دے سکتا اور دے رہا ہے، معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ مسئلہ نیتوں کا ہے آج ہمارے سرکاری محکموں کے حوالے سے اچھی رپورٹیں نہیں ہیں کام چوری کے علاوہ رشوت اور غبن بھی عام ہے اس سے بھی توبہ کرنا ہوگی جبکہ عام زندگی میں ہمارے جو رویے بن چکے ہیں ان کو بھی تبدیل کرنا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ کر چلنا ہوگا۔

کہا تو یہی جاتا ہے کہ بات چیت مسائل کا حل ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ مذاکرات کی ڈور بھی ٹوٹ گئی اور ففتھ جنریشن وار جاری ہی نہیں مزید شدت اختیار کر گئی ہے، حالانکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم ماضی سے تائب ہوں اور مستقبل کے لئے یک جان ہو جائیں یہ وقت کا تقاضا ہے جب تک اندرونی طور پر مکمل استحکام نہیں ہوگی، بیرونی خطرات اور خدشات سے بھی نمٹا نہیں جا سکے گا، کسی فریق کو کوئی الزام دیئے بغیر پھر سے گزارش ہے کہ مل بیٹھو۔ ملک کے لئے، قوم کے لئے، دین کے لئے اور آئندہ نسلوں کے لئے، ہم جوبڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں ان سمیت ہی قبر اتر جانا ہے کہ جب سکندر (فاتح دنیا) دنیا سے گیا تو اس کے ہاتھ بھی خالی تھے، اللہ کے نبی،رسولؐ اور تمام پیغمبر اور مصالح بھی تمام تر دینی خدمات اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونے کے بعد بھی اس کے پاس خالی ہاتھ لیکن بھرپور نیکیوں کے ساتھ گئے اور اپنا اپنا کام بخوبی کر گئے، ہمیں بھی اسی دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کا سامان بھی کرنا چاہیے۔ ایک بار پھر تمام سیاسی فریقین سے تحمل اور حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے کی درخواست ہے اور یہ فریقین کے لئے ہے۔

معیشت کی حالت، سیاست کی جنگ اور اقتدار کی ہوس نے ہم سب کو ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں سے آگے کا راستہ دکھائی نہیں دیتا اور پاکستانی جو قدرت کی عطا سے ایک ایٹمی قوت اور دنیا کی بہترین تربیت یافتہ افواج کے حامل ہیں اندرونی خلفشار کی وجہ سے خطرات کی بات کرتے ہیں اور اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہیں، نوجوانوں کی بھاری بھرکم تعداد، زرخیز زمین اور محنتی لوگوں کے ساتھ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کی حامل افرادی قوت کے ہوتے ہوئے بھی ہم ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرکے بلندیوں کی طرف نہیں لے جا سکے بدقسمتی سے ہمارے نوجوان موبائل اور ایسی ہی ٹیکنالوجیز سے مفید طور پر کام لینے کی بجائے اس ایجاد کے مالکان کی طرف سے پھیلائے جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ معصوم بچوں کو موبائل دے کر اپنا کام کرنے کا وقت نکالا جاتا ہے، خواتین گھریلو کام کاج کے لئے یہ نسخہ استعمال کرتی ہیں جبکہ ان ایجادات والے اسی ذریعہ کو استعمال کرتے ہوئے ذہن سازی کررہے ہیں، ہم اگر آپس کی لڑائی کو چھوڑ دیں اور اتفاق رائے سے توجہ دیں تو ان جدید سہولتوں کی برائیوں کی روک تھام مہارت سے کر سکتے ہیں اور یہ ٹیکنالوجی ہمارے لئے بھی مفید ہو سکتی ہے، نیت کی صفائی شرط ہے، ہمارا تو موقف ہی قومی مفاہمت ہے اور پھر سے یہی اپیل کرتے ہیں اور اب تو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی پھر اہمیت بڑھ گئی ہے اور ان کے درپر حاضری شروع ہو گئی، مولانا کو بھی اب بزرگ بالغ ہو کر سنجیدگی سے صحیح مفاہمت کے لئے جدوجہد کرنا چاہیے۔ حضرت سے مجھے تو ہمیشہ اچھی توقعات رہی ہیں میں نے ہمیشہ ان کو نوابزادہ نصراللہ خان کے بعد مرد درویش کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ان کو حقیقی رنج کیا ہے، میری خواہش لیکن یہ ہے کہ بہت وقت گزر گیا اب اس شکوہ کو ماضی جان کر بھول جائیں اور اندرونی ملکی استحکام کے لئے کام کریں، اللہ ان کو جزا دے گا۔

مزید :

رائے -کالم -