ملکہ کوہسارکاغم اورہم
سانحہ مری سے پہلے تو مجھے گمان تھا کہ شاید ہم سیاحت میں کچھ بہتری کی طرف جارہےہیں مگر اس واقعہ نے جہاں پریشان کیاہے وہیں یہ بھی اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مسلمانوں کے اس ملک میں بہتری کیلئے صرف وزیراعظم بدلنے سے ہی تبدیلی نہیں آنی بلکہ مختلف محکموں کے زیادہ تر افراد کوبدلنے کی ضرورت ہے،ایک ایسا پہاڑی سلسلہ جو نہ صرف پاکستانی سیاحوں بلکہ پوری دنیا کے لیے کشش کا باعث ہے اور لوگ یہاں جانے کیلئے ہمیشہ بے چین رہتے ہیں،خاص طورپر برفباری کے دلفریب مناظر دیکھنے کے لیے ہرکوئی ملکہ کوہسار اور دیگر علاقوں کا رخ کرتے ہیں،عوام کے رش کے باعث ہماری انتظامیہ کو بھی ذمہ دار ہونے اور الرٹ رہنے کی ضرورت زیادہ ہے مگر سانحہ مری نے واضح کردیاہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
پوری دنیاکے سیاحتی مقامات میں سیاحوں کے لیے دستیاب انتظامات کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہونا ذرا بھی مشکل نہیں کہ ہم نے پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے نعروں کو ابھی تک حقیقت میں نہیں بدلا،خواہش ،نعروں اورحقیقت میں خاصا فرق ہے جو جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب اور ہفتے کے روز واضح ہوگیا۔
برفباری جتنی بھی ہوکیایہ ناممکن ہے کہ ہیوی مشینری سڑکوں پرالرٹ رہے،اہلکارجاگتے رہیں اور برف کے ڈھیروں کو سڑکوں سے ہٹاتے رہیں،اگر ایساحقیقت میں ہوتااوریہ ناممکنات میں سے نہیں تھاتوقیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا،نہ سیاحوں کو پریشانی ہوتی،ابھی یہ خبریں آرہی تھیں کہ برفانی علاقوں میں اموات ہوئی ہیں تو مجھے مختلف ممالک میں رہنے والے احباب کے پیغامات آنا شروع ہوگئے کہ پاکستان کی صورتحال اور ان کے ہاں پرسکون صورتحال میں کتنا فرق واضح ہے،وہاں برفباری بھی بہت ہوتی ہے اور اس کا دورانیہ بھی کئی ممالک میں بہت زیادہ ہوتاہے مگر نہ وہاں ٹریفک جام ہوتی ہے،نہ سڑکیں بندہوتی ہیں اور نہ ہی اتنے بڑے سانحات ہوتے ہیں،وجہ ایک ہی ہے کہ وہاں کی انتظامیہ کو یہ معلوم ہے کہ انہوں نے اپنے شہریوں اور سیاحوں کو آسانی فراہم کرنی ہے،انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ انہیں جو ماہانہ تنخواہ ملتی ہے وہ اسی کام کی ملتی ہے کہ انہوں نے سڑکوں کو برف سے کلئیر رکھنا ہے،وہاں پٹرولنگ کرنے والوں،مانیٹرنگ کرنے والوں اور کنٹرول رومز کو پتہ ہوتاہے کہ موسم ایساہو تو پھر کیسے مینج کرناہے لیکن ہم یہاں بھنگ کاشت کرکے خوش ہورہے ہیں کہ اب بہت فائدہ ہوگا،ہمارے وزراء اس اہم ایشو پر بھی اپوزیشن کی بجا تنقید کو بلاجواز تنقید کہتے نہیں تھک رہے۔۔
بھلے لوکو!!۔۔یقینا تحقیقات ہوں گی،ذمہ داروں کا تعین ہوگا،کچھ قربانی کے بکرے بنیں گے اور کچھ ذمہ دارپھر لمبی تان کر سو جائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو یہ بہت افسوسناک ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شفاف تحقیقات کرکے ذمہ دار چاہے جتنا بھی بڑا عہدیدارہو،سزادی جائے اور آپ نے اگرواقعی پاکستان کوسیاحت کے لیے سازگار بناناہے تو پھر ملکہ کوہسار کاغم سمجھیں،ان علاقوں میں انتظامیہ کو الرٹ رکھیں،سڑکیں بہتر بنائیں اور ایمرجنسی سے فوری نمٹنے کی منصوبہ بندی کریں،بصورت دیگرسیاحت کا فروغ خواب ہی رہے گااور ہم خدانخواستہ ایسے سانحات کومزید دیکھیں گے۔
نوٹ: یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں