شہبازحکومت کی مضبوطی میں ملک و قوم کی بہتری
سیاست کا کھیل بھی عجیب ہوتا ہے ایک فریق دوسرے فریق کی چال کو نہ صرف دیکھ رہا ہوتا ہے بلکہ سمجھ بھی رہا ہوتا ہے دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ منافقت اور دھوکہ بازی کا کھیل جاری رکھتے ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ وہ دھوکہ بازی کررہے ہیں۔ کھیل جاری رکھتے ہیں کیونکہ دونوں کا مقصد ایک ہوتا ہے، منزل ایک ہوتی ہے اور وہ ہے اقتدار۔ وسائل پر قبضہ۔ ذرا پیپلزپارٹی اور ن لیگی اتحادی حکومت کو دیکھ لیں دونوں اقتدار سے چمٹے رہنے کی پالیسی پرگامزن ہیں۔ دونوں نے مل کر 2022ء میں عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا تھا۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی نالائق حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ پھر دونوں نے مل جل کر 16ماہ تک حکمرانی کے مزے لوٹے، خواب انجوائے کیا۔ بلاول بھٹو زرداری تو اس دوران جہاز سے اترے ہی نہیں بلکہ قومی سفارتی مسائل کو حل کرنے کے لئے ملکوں ملکوں گھومتے رہے اس دور میں کہاجاتا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری اقتدار میں رہنے کی، وزیراعظم بننے کی نیٹ پریکٹس کررہے ہیں انہوں نے خوب پریکٹس کی، عوام کے خون پسینے کی کمائی، سرکاری خزانے کا بے دردی سے استعمال کیا کیونکہ عمران خان اور ان کی پارٹی مسائل میں گھری ہوئی تھی اس لئے شہبازشریف کی 16ماہی حکومت کو کسی موثر اپوزیشن کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی، پنجاب اور کے پی میں حکومتیں ہونے کے باوجود، سیاسی بصیرت کی عدم موجودگی کے باعث قومی سیاست میں کوئی فعال کردار ادا نہ کر سکی ہاں پنجاب اور مرکز میں خوب دنگا فساد برپا رہا۔ بزدار کو ہٹا کر ن لیگی حکومت بنی جسے عدالتی فیصلے کے ذریعے چلتا کیا گیا اور پھر چودھری پرویز الٰہی، پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ بنے، لیکن حکومت جم نہ سکی۔ 2024ء میں عام انتخابات ہوئے۔ پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ ووٹ لئے انتخابی نشان نہ ہونے کے باوجود ان کے نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ ملے پاپولر ووٹ ہونے کے باوجود، پی ٹی آئی الیکٹورل برتری ثابت نہ کر سکی۔ سیاستی فہم و فراست اور بصیرت کا مظاہرہ نہ کر سکی جس کے باعث وہ ابھی تک احتجاجی موڈ میں پھر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے تو انہیں کھلے عام دعوت دی تھی کہ وہ حکومت بنائیں پیپلزپارٹی انہیں سپورٹ کرے گی لیکن عمران خان تو پہلے ہی ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے انہوں نے اس پیشکش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔پھر پیپلزپارٹی نے اپنا وزن (ن) لیگ کے پلڑے میں ڈال دیا ان کا مسئلہ تو صرف اقتدار تھا اور ہے۔ وہ انہیں چاہے پی ٹی آئی کے ساتھ شراکت کے ذریعے ملے یا ن لیگ کے ساتھ اتحاد کرکے۔ سو انہوں نے شہبازشریف کو حکومت بنانے میں مدد کی انہیں اپنے ووٹوں کی سپورٹ دی اتحادی ہے لیکن حکومت میں شریک نہیں ہوئے۔ ویسے انہوں نے اہم ترین آئینی عہدے ضرور حاصل کرلئے۔ ڈنکے کی چوٹ پر جو چاہا حاصل کرلیا لیکن کابینہ میں شریک نہیں ہوئے۔
ن لیگ کے ساتھ پی پی پی روز اول سے ہی منافقت کی سیاست کررہی ہے انہیں یقین تھا کہ ملکی معاملات جس بگاڑ کا شکار ہیں وہ اتنی جلدی ٹھیک ہونے والے نہیں ہیں۔ عمران خان اپنے 44ماہی دورحکمرانی میں ملک کا جس طرح بیڑہ غرق کر گئے تھے وہ اتنی جلدی سدھرنے والے نہیں تھے۔ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار تھا۔ چین، ترکی، سعودی عرب،یو اے ای جیسے دوست ممالک ہم سے ناراض تھے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرکے اس کی خلاف ورزی کرنے کے باعث اس کے ساتھ بھی ہمارے حالات کشیدہ تھے عالمی مالیاتی و زری اداروں نے ہمارے ساتھ معاملات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ قدر زر شدید گراوٹ کا شکار تھی۔ مہنگائی عروج پر تھی،بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بے قابو ہو چکی تھیں حالات کی بہتری کی امید نہیں تھی اسی لئے پیپلزپارٹی نے اقتدار میں اس طرح رہنے کا فیصلہ کیا کہ مزے بھی لئے جائیں اور ذمہ داری بھی نہ اٹھانا پڑے۔ حکومت کی ناکامی میں کسی قسم کی شراکت کے بغیر اقتدار کے مزے لوٹنا، یہ ایسی حکمت عملی تھی جو بڑی وضاحت کے ساتھ نظر آ رہی تھی ن لیگ بھی اقتدار میں رہنا چاہتی تھی ہر صورت میں انہیں اقتدار چاہیے تھا مریم نواز کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بھی تو بنانا تھا سو ن لیگ نے پیپلزپارٹی کے ساتھ رکھنے، مرکز میں اقتدار میں رہنے کی قیمت ادا کی۔ اب ایسے لگتا ہے کہ شہبازشریف حکومت سنبھل چکی ہے۔ معاملات واضح طور پر بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ تعمیر و ترقی کے کام ہو رہے ہیں۔ برادر اسلامی ممالک بھی نہیں دیگر ممالک کے ساتھ بھی معاملات مثبت سمت میں آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ سفارتی محاذ پر کامیابیاں مل رہی ہیں اور یہ کامیابیاں پاکستان کی معاشی حکمت عملی میں مثبت کردار ادا کررہی ہیں، مہنگائی کا جن بوتل میں بند تو نہیں ہوا لیکن اس کی عزاہٹ دھیمی پڑ چکی ہے قدر زر میں افاقہ اور ٹھہراؤ نظر آ رہا ہے۔ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا ماحول بن چکا ہے۔ سپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل کی کاوشوں کے باعث اندرون ملک سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ عالمی ادارے پاکستان کی معیشت کے بارے میں مثبت رائے دے رہے ہیں۔ سفارتی محاذ پر بھی پاکستان کامیابیاں حاصل کررہا ہے۔ کابل کے طالبان کے ساتھ معاملات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے، تمام ٹھکانے پاکستانی فورسز کے نشانے پر آ چکے ہیں ہم نے گھس کر انہیں مٹانے کی پالیسی اختیار کرلی ہے۔ معاملات مثبت سمت میں چلنے لگے ہیں اور چلتے نظر بھی آ رہے ہیں۔
عمران خان اور اس کی پارٹی پر گھیرا تنگ ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی کی ہنگامہ خیزی کی کالوں کا بھرپور جواب دیاجا چکا ہے۔پی ٹی آئی نے بشریٰ بی بی کو لانچ کرکے اپنا آخری پتہ بھی کھیل لیا ہے انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ عمران خان اب چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں فارم 47کی وہ حکومت جسے وہ ناجائز قرار دیتے رہے ہیں، کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں۔ ویسے ان مذاکرات کا کوئی حاصل وصول نظر نہیں آتا۔ مذاکرات ہمیشہ برابر کی پارٹیوں میں ہوتے ہیں۔ اس وقت حکومت برتر پوزیشن میں ہے جبکہ عمران خان پارٹی انتہائی ابتر پوزیشن میں ہے ایسے میں مذاکرات کا کامیاب ہونا نظر نہیں آ رہا ہے لیکن ان مذاکرات کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ عمران خان کا گھمنڈ بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے وہ چوروں،ڈاکوؤں کے ساتھ ہی مذاکرات کرنے پر مجبور نظر آ رہے ہیں۔ ان کا بیانیہ مکمل طور پر پٹ چکا ہے۔ ان کی سیاست کہیں گم ہو چکی ہے لیکن سیاسی میدان میں فتنہ و فساد کا تاثر قائم کرنے میں انہیں یدطولیٰ حاصل ہے اور وہ اس میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ مذاکرات کے دوران بھی ان کے مطالبات شرانگیزی کا باعث بنتے ہیں۔ مایوسی، ناامیدی ہی ان کی پالیسی ہے۔پاکستان بہت سارے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ داخلی اورخارجی محاذوں پر جنگ لڑ رہا ہے۔ عمران خان تو پہلے ہی ملک میں فتنہ اور فساد کی آبیاری کرتے رہے ہیں اب بھی کررہے ہیں لیکن پیپلزپارٹی تو ایسی جماعت نہیں رہی ہے۔پھر ایسے وقت میں جب پاکستان استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے اس کو سیاسی عدم استحکام کا شکار بنانے کی کوشش کرنا، سمجھ سے بالاتر ہے۔ پیپلزپارٹی کو سیاست سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے لئے سوچنا چاہیے۔ شہباز حکومت کی مضبوطی میں ہی ملک و قوم کی بہتری ہے۔