ڈاکٹر انور سجاد ۔”کثیرالجہات شخصیت “

ڈاکٹر انور سجاد ۔”کثیرالجہات شخصیت “
ڈاکٹر انور سجاد ۔”کثیرالجہات شخصیت “

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ غالباً 1974ء اتوار کی ایک شام کا ذکر ہے ۔میں نوجوانی کی دہلیز پر تھا ۔ادب کا ایسا لپکا تھا کہ ہر ادبی محفل ، تقریب اور پروگرام میں پہنچ جاتا تھا۔مال روڈ ( لاہور) واقع وائی ایم سی اے کی عمارت کے برآمدے سے گزر کر بڑے مستطیل کمرے کی جانب میرے قدم بڑھتے جارہے تھے ۔لیکن جونہی میں کمرےھ کے دروازے کے قریب پہنچا ایک گرجدار آواز بلند ہوئی ” چلے جاوء ۔ میری آنکھوں سے دور ہٹ جاوء۔ مجھے تیم سے کوئی بات نہیں کرنی ۔۔۔“ میں اس اچانک حملے پر ایک دم پریشان ہو گیا ۔کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے ؟ ۔یہ اچانک کون مجھ پر حملہ آور ہوگیا ہے ۔ایک لمحہ کے لیے دم بخود رکے رہنے کے بعد قدرے حواس بحال کرکے میں کمرے کا دروازہ کراس کرکے اندر داخل ہوا تو وہاں کمرہ کچھا کھچ بھر ا ہوا تھا۔لوگ بڑی میز کے گرد بچھی کرسیوں پر براجمان تھے۔پِن ڈراپ خاموشی تھی اور ایک ہی آواز پوری گھن گرج کے ساتھ سنائی دے رہی تھی ۔جو کسی وقت آہستہ ہوجاتی جیسے کو خود کلامی کررہا ہو اور کسی وقت بہت تیز ہوجاتی ۔یہ حلقہ ارباب ِ ذوق کا ہفتہ وا ر اجلاس تھا جس میں ڈاکٹر انور سجاد اپنا ڈرامہ تنقید کے لیے پیش کررہے تھے ۔ڈرامے کے مکالمے اور سچوایشن جس قسم کی آواز کے در و بست کا تقاضا کرتے تھے وہ ویسے ہی ادا کررہے تھے ۔اور کمرے میں موجود تمام لوگ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ یہ سن رہے تھے ۔ میں عمر کی ابھی ایسی منزل پر تھا کہ جہاں مجھے ابھی تجریدی افسانے ، علامتی کہانیوں وغیرہ کی کوئی شد بد بھی نہیں تھی ۔ بس ادب کا ٹھرک ہمیں اس کوچے میں لے آیا تھا ۔کمرے کے کھڑی برآمدے کی جانب کھلی ہو ئی تھی جس میں جگہ بنا کر میں بیٹھ گیا اور اجلاس کے کاروائی میں مگن ہوگیا۔ ڈرامہ ختم ہوا تو ڈاکٹر انور سجاد نے سگریٹ سلگا یا اور حاضرین کی طرف سے ڈرامے پر نقد و تبصرہ سننے کے لیے قدرے ریلیکس ہو کر بیٹھ رہے ۔ ڈاکٹر انور سجاد کے ساتھ یہ میری پہلی شناسائی تھی ۔خوبصورت ، کلین شیو، گھٹے ہوئے بدن کے ساتھ ( سینڈو ٹائپ ) خوب صورت بال ، یوں لگتا تھا جیسے کوئی ہیرو کسی فلم کی عکس بندی کروا رہا ہو۔
ڈاکٹر انور سجاد پیشہ ورانہ تعلیم یعنی ایم بی بی ایس حاصل کرنے کے بعد اپنے والد ڈاکٹر دلاور علی کے کلینک پرہی پریکٹس کرتے رہے ۔لیکن ایک اچھے ڈاکٹر ہونے کے باوجود آج کے ڈاکٹروں کی طر ح انہوں نے مریضوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا اور ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔وہ عوام دوست آدمی تھے ۔ عام آدمی کے دکھ درد کو محسوس کرتے تھے ۔وہ کثیرالجہات شخصیت کے مالک تھے۔ مسیحا ہونے کے علاوہ وہ افسانہ نگار، ناول نویس ، ڈرامہ نگار، نقاد ، سیاسی دانش ور ، ایکٹیوسٹ ، رقاص اور اداکار بھی تھے ۔ان کے والد ڈاکٹر دلاور علی علاقے کی ایک ہردلعزیز شخصیت تھے ۔ڈاکٹر انور سجاد کھلی ڈلی لیکن ہمہ وقت بے چین اور لاابالی طبیعت کے مالک تھے۔انہوںنے معروف رقاص مہاراج کتھک سے کلاسیکل رقص کی تعلیم بھی حاصل کی اور رقص کے اسرارو رموز سے آگاہی حاصل کی ۔ بہت سے ڈرامے تخلیق کیے ۔ ۔ پیپلزپارٹی قائم ہوئی تو اس کے ساتھ نظریاتی طورپر وابستگی اختیار کرلی ۔وہ پیپلز پارٹی کے جیالے تھے اور بھٹو صاحب کے عاشق ۔ضیا ءالحق کے دور میں انہوںنے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔البتہ جیل میں بھی انہوںنے قلم و قرطاس سے رشتہ برقرار رکھا اور نیلی نوٹ بک جیسی کتاب وجود پذیر ہوئی ۔انٹظار حسین کے افسانے کلاسیکی رنگ لیے ہوئے تھے تو ڈاکٹر انور سجاد کے افسانے اس کے برعکس جد ید طرز احساس لیے ہوئے تھے ۔انہوںنے افسانے کی ہیئت ہی تبدیل کردی اور جدید افسانہ تخلیق کیا جو اگرچہ اہل ادب کو فوری طورپر تو ہضم نہ ہوسکا لیکن بعد میں اس نے اپنی شناخت منوا لی اور ڈاکٹر انور سجاد اپنی الگ پہچان اور انفرادیت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ڈاکٹر انور سجاد کی اہم تصانیف میں سمندر، زرد کونپل،رسی کی زنجیر، نگار خانہ ¾ صبا اور نیلی نوٹ بک خاص طورپر قابل ِ ذکر ہیں ۔حکومت پاکستان نے ڈاکٹر انورسجاد کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طورپر 1989ءمیں تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
ڈاکٹر انورسجاد سے متعدد ملاقاتیں رہیں ۔ میں اسلامیہ کالج آف کامرس میں بی کام کا سٹوڈنٹ تھا ۔ اسی دور میں میں نے اپنے ایک ادب نواز دوست اور اپنے کالج فیلو قاری مراتب علی شیخ ، جو ریڈیو ٹی وی کے معروف قاری بھی تھے ، کے ساتھ مل کر ایک میگزین کے لےے اہل قلم کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کررکھا تھا۔ہم نے پروفیسر مرزا منور، مرزا ادیب،عبدالعزیز خالد،پروفیسر عثمان، مرتضیٰ برلاس ، پروفیسر محی الدین خلوت وغیرہ کے انٹرویوز کیے ۔ ڈاکٹر انور سجادکے ساتھ بھی ایک مصاحبہ ان کی چونا منڈی کی رہائش گاہ پرہوا تھا جو نہ صرف بہت دلچسپ تھا بلکہ معلوما ت افزا بھی ۔وہ بہت زندہ دل آدمی تھی ۔ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے کی اپج ان کے ذہن میں رہتی تھی۔وہ حقیقی فنکار تھے ۔جس شعبہ میں بھی گئے اس میں پوری طرح ” کھُب “ گئے۔ ڈاکٹر انور سجاد نے بھرپور زندگی گزاری۔انہوں نے اپنی تحریروں سے اردو ادب کے قاری کو متاثر کیا یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہی میں نہیں بھارت سمیت پاکستان سے باہر بھی ان کے نام اورکام کاشہرہ تھا ۔چند برس قبل ان کے دوستوں کو اچانک پتا چلا کہ وہ اپنی جنم بھومی لاہور کو چھوڑ کر کراچی منتقل ہوگئے ہیں ۔ یا حیرتا ۔ ایک لاہور ی کسیے کراچی میں جا پراجا اور وہاں سیٹل ہوگیا ؟ بڑی عجیب سی خبر تھی ۔شائد وسیلہ ء روزگار انہیں وہا ں لے گیاتھا۔میرے خیال میں ان کا لاہور سے کراچی جانا ہی ان کو اپنے حلقہ ءاحباب سے دور کر گیا۔وہ سنگی ساتھی جن سے ان کی محفلیں جما کرتی تھی انہیں وہ چھوڑ کر جب کراچی کے مکین بن گئے تو بہت سے سماجی اور خانگی مسائل نے ان کے گرد گھیر ا تنگ کرنا شروع کردیا اور پھر رفتہ رفتہ ” آنکھ اوجھل ، پہاڑ اوجھل “ کے مضداق وہ گوشہء تنہائی میں چلے گئے اور ایک بھولی بسری داستان بن کر رہ گئے ۔لاہور کے اہل ِ علم وادب اور اہل فنون و ثقافت میںڈاکٹر انورسجاد کا تذکرہ تو کسی نہ کسی صورت میں ہوتا رہتا تھا لیکن ایک تاسف اور ایک دکھ کے احساس کے ساتھ کہ لاہور ان کے بنا واقعی سونا ہو گیا تھا۔
ابھی گزشتہ ماہ یہ خبر ملی کہ ڈاکٹر انور سجاد واپس لاہور آگئے ہیں لیکن اب وہ اندرون شہر کے بجائے شہر سے بہت دور رائے ونڈ روڈ پر لیک سٹی ہاوسنگ سوسائٹی میں فروکش ہو گئے ہیں۔لیکن اب وہ پہلے والے لاہوریے نہیں رہے تھے۔ وقت اور حالات نے ان سے ان کا یہ ورثہ چھین لیا تھا۔ ان کے قویٰ مضمحل ہو گئے تھے ۔نقاہت اور ضعف نے ان پر غلبہ پالیا تھا ۔جس کی وجہ سے ان کی آواز میں نہ پہلی سی گھن گرج رہی نہ شوخی و شرارت ۔وہ ایک بیمار اور لاغر جسم کے ساتھ بے بسی اور بے چارگی کی تصویر بن گئے تھے ۔کسی دوست نے ان کے حالات کا کہیں ذکر بھی کیا تھا اور پھر حکومت نے سرکاری خزانے سے ان کے علاج معالجے کے لیے مالیامداد بھی کی تھی لیکن پہلے والا انور سجاد واپس نہ آسکا۔ان کی صحت بحال نہ ہوسکی اور آخر کار اسی کسمپرسی کے عالم میں 84 برس کی عمر میں وہ عالم فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گئے ۔ان کا یوں دنیا سے اٹھ جانا البتہ ان کے بہت سے دوستوںاور چاہنے والوں کو دکھی کرگیا ہے ۔

ع حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

(شہباز انور خان کا شہرِ لاہورکے بزرگ صحافیوں میں شمار ہوتا ہے ،علم و ادب سے گہرا شغف رکھنے والے شہباز انور خان تین دہائیوں سے بھی زائد عرصہ سے  اہم قومی اخبارات میں رپورٹنگ کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے آ رہے ہیں ،،فیڈ بیک  کے لئے اُن کے وٹس ایپ اور موبائل نمبر 03208421657 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -