ٹرین حادثہ اورلفظی گولہ باری

حادثات پوری دنیا میں ہوتے ہیں اوران کی کوئی نہ کوئی وجوہات ضرور ہوتی ہیں،دنیابھرمیں جب کہیں کوئی حادثہ ہو۔چاہے طیارہ گرے،چائے عمارت،کہیں آگ لگے یا ٹرین پٹری سے اتر جائے،تفتیش کے بعدحقائق سامنے لائے جاتے ہیں مگرہمارے تفتیش سے قبل ہی حکمران پارٹی اوراپوزیشن کے درمیان ایسی لفظی گولہ باری ہوتی ہے کہ عام بندہ حیران اور لواحقین مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔۔ایسا کیوں ہوتاہے،چلیں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم بات کرلیتے ہیں دنیا کی سپرپاورامریکہ کی،ایک طرف پاکستان میں ٹرین حادثہ ہواتو دوسری طرف امریکی ریاست میری لینڈ کی مونٹگمری کاؤنٹی میں ایک چھوٹا طیارہ کھیت میں گر کر تباہ ہوگیا۔ طیارے میں دو افراد سوار تھے جو حادثے میں ہلاک ہوگئے۔۔۔۔ فیڈرل ایوی ایشن نے حادثے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔آپ کو اس سے بڑھ کر معلومات نہیں ملیں گی،نہ کوئی رولا،نہ کوئی الزامات کی بوچھاڑ،نہ حکومت نے اپوزیشن کو موردالزام ٹھہرایا،نہ اپوزیشن نے حکومت کی نااہلی گردانا،البتہ متعلقہ ادارے اپنا کام کررہے ہیں،جو ذمہ دارہوں گے ان کو امریکی قانون کے مطابق سزاملے یا معافی ملے یا معاملہ ان کاہے مگراب ہم پاکستان میں واپس آتے ہیں۔۔۔۔
ڈہرکی کے قریب ٹرین کا خوفناک حادثہ ہوا، ملت ایکسپریس کی کئی بوگیاں پٹڑی سے اترکرمخالف ٹریک پر آگئیں، دو منٹ بعد ہی سرسید ایکسپریس گرنے والی بوگیوں سے ٹکرا گئی،تادم تحریر حادثے میں جاں بحق افراد کی تعداد 55 اور 100سےزائد زخمی ہیں۔افسوسناک حادثے میں جاں بحق ہونے والے لواحقین کا غم بڑا ہے اور جسے یہ غم پہنچتاہے وہی اس کی کیفیت کو بہتر جانتاہے،ہم کتنے غم بانٹنے والے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کو کتنا دکھ ہوتاہے یہ آپ صرف ایک محترم وزیر کے بیان سے ہی حساب لگا سکتے ہیں۔۔۔
وزیراطلاعات کہتے ہیں کہ ماضی میں کسی بھی محکمے میں کام نہیں ہوا، ہم ہر کام زیرو سے شروع کررہے ہیں ، ماضی میں جو حکمران رہ چکے ہیں انہوں نے کچھ نہیں کیا، سعد رفیق کے کیے گئے گناہوں پر اعظم سواتی کیسے استعفٰی دیں؟یعنی بجائے اس کے کہ حادثے کی تحقیقات تک خاموشی اختیار کی جائے یا اخلاقی طورپر وزیر ریلوے عہدے سے الگ ہوجائیں تاکہ تحقیقات کرتے وقت افسران کو دباؤ نہ رہے،کیا ہرج ہے اس میں؟۔۔
یہ کوئی نئی بات تو نہیں،اقتدار میں آنے سے پہلے وزیراعظم صاحب بھی تو ایسے واقعات پر یوں ہی بیان دیا کرتے تھے کہ شفاف تحقیقات کے لیے ضروری ہے کہ وزیرعہدہ چھوڑ دیں تاکہ وہ تفتیش پراثرانداز نہ ہوں، اب وہی بات اگر اس وقت کی اپوزیشن کررہی ہے تو پھر کیا غلط ہے؟حالانکہ اس بیان پر خواجہ سعدرفیق نے جواب دیاہے کہ ان کے دور میں کیا کیا کام ہوئےاور اب کیا ہورہے ہیں۔ادھراگر حکومتی مشیروں کی سنجیدگی کاجائزہ لینا چاہیں تو ذرا فردوس عاشق اعوان کی بات سن لیں جو فرماتی ہیں کہ’’اللہ کے فضل سے یہ سال کا پہلا حادثہ ہے‘‘۔۔۔یعنی حادثے کا سارا ملبہ ونزلہ خود پر گرنے سے بچنے کیلئے الٹے سیدھے بیان اور زبانیں لڑکھڑا رہی ہیں۔۔مقام غوروفکر ہے کہ ملک کس طرف جارہاہے۔۔۔
حل کیاہے؟۔۔موٹرویزکاجال بچھ گیا،لوگوں کو بہترین راستے میسر ہوگئے اور اب گھںٹوں کاسفر منٹوں میں طے ہونے لگا جہاں حادثات کی شرح نہ ہونے کے برابر رہ گئی،یہ کریڈٹ کسے جاتاہے یہ عوام ہی فیصلہ کرے ، بحرحال دوسری سفری سہولت ہمارے لیے ریل گاڑی ہے خاص طورپروہ لوگ جو طویل سفر کرناچاہتے ہیں اور جہاز کا ٹکٹ افورڈ کرسکتے ہیں نہ ان کے پاس گاڑی ہے ایسے طبقے کے لیے ٹرین کسی نعمت سے کم نہیں، ،حکومت کو ریلوے ٹریک اور ٹرینوں کی حالت بہترکرنے کی ضرورت ہے مگر ہماری ٹرینیں اتنی کمزورہیں کہ سب اللہ کے فضل سے ہی چل رہی ہیں باقی ہم نے لاپرواہی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جب ٹرین کہیں سے گزرتی ہے تو بندہ ڈر جائے کہ اتنا وزن یہ ٹریک کیسے برداشت کرلیتے ہیں مگر مجال ہے کہ آج تک کسی نے ٹریک بہترکرنے پر کام شروع کیا ہو۔۔۔۔
پھر بصورت ایمرجنسی کیا ہمارے ریل کے نظام میں کوئی ایسا جدید سسٹم نہیں کہ بروقت ملک بھرکی آن ٹریک ٹرینوں،ریلوے سٹیشنزاورمتعلقہ اداروں کو فوری اطلاع مل سکے؟۔۔کمپیوٹرکے اس جدید دور میں بھی اگر ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیسے ممکن ہوگا تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے ،جب ایک ٹرین کیساتھ حادثہ ہوا تو کیا بروقت دوسری ٹرینوں کو اطلاع دی گئی تاکہ وہ الرٹ ہوجائیں اور اس ٹریک پر آنے والی ٹرین متعلقہ جگہ سے پہلے ہی بریک لگاسکے،یقینا ایسا کچھ نہیں ہوا ورنہ دوسری ٹرین حادثہ زدہ ٹرین سے کبھی نہ ٹکراتی۔۔محکمہ ریلوے کو اس پر فوری سوچنے کی ضرورت ہے کہ حادثے کی صورت میں بروقت اطلاع کانظام تیار کرایاجائے۔
ہم یہ بھی کرسکتے ہیں کہ ٹرین کے ایک حصے میں ایمرجنسی کی صورت میں ضروری مشینری،متعلقہ عملہ،طبی عملہ،ایمرجنسی بیڈ،آکسیجن،ضروری خوراک،بچوں کادودھ اورمتعلقہ سامان اتنی مقدار میں ٹرین کیساتھ ہمیشہ کیلیے مختص کردیں تاکہ اگر خدانخواستہ حادثہ کسی ویران جگہ پر ہوتاہے تو پھر ٹیمیں پہنچنے سے پہلے فوری امدادی کام شروع ہوسکیں۔
ہونے کو بہت کچھ ہوسکتاہے بس کام کی نیت کرنا ہوگی،ورنہ حادثات یونہی ہوتے رہیں گے اور ہم ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کرتے رہیں گے۔۔
(بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔