پھر غلطی ہائے اشعار کا بیاں ہو جائے

پھر غلطی ہائے اشعار کا بیاں ہو جائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک مشہور شعر ہے:
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل
حالات و واقعات و کوائف کچھ ایسے ہیں کہ اپنے آپ کی خبر نہیں۔ کوئی حال احوال پوچھتا ہے تو کہنا پڑتا ہے ”محاورے میں ٹھیک ہوں“.... خدا نہ کرے وہ وقت آئے کہ ”محاورے“ میں بھی ٹھیک ہونے کی نوید نہ دی جا سکے، یا پھر یُوں سمجھ لیجئے کہ:
کچھ اِس ادا سے یار نے پوچھا مرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا
”کہنا پڑا“ کا جبر آج کے دور سے زیادہ کیا ہو گا؟ بجلی غائب، پانی نایاب، گیس عنقا، روزی روزگار ٹھپ۔ جائیں تو کہاں جائیں؟ پانچ سال پورے ہونے کی سالگرہ بلکہ جشن منا رہے ہیں:
تُم لٹیروں نے اندھیروں کے سوا کچھ نہ دیا
ووٹ کس مُنھ سے بھلا مانگنے آﺅ یارو!
ہر، بھری شاخ پہ اُلو کو بٹھایا تم نے
کھوکھلے سب ہیں شجر اِن کو نہ کھاﺅ یارو!
یہ نظم تو چھپ گئی۔ کچھ مُنہ کا ذائقہ بدلئے اور اپنا پسندیدہ کالم غلطی ہائے اشعار کا ملاحظہ فرمایئے!
پریشر گروپ کے عُنوان سے ایثار رانا کا کالم روزنامہ ”جنگ“ لاہور میں اتوار 5مئی2013ءمیں پڑھا۔ ذیلی عُنوان ”پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست“ کے تحت ایک مشہور شعر انہوں نے بغیر شاعر کے نام کے یُوں درج کیا ہے:
قرض کی پیتے تھے مَے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
جبکہ پہلے مصرعے میں ہر عہد پر غالب، مرزا اسد اللہ خاں غالب نے ”اور سمجھتے تھے“ نہیں کہا تھا ”لیکن سمجھتے تھے“ کہہ رکھا ہے۔ مرزا غالب کا یہ شعر صحیح اس طرح ہے:
قرض کی پیتے تھے مَے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
پروفیسر سعد اللہ شاہ لاہور کے ایک ”کثیر المجموعہ“ شاعر ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں کی تعداد کیلکولیٹر کے بغیر گنتی میں نہیں آ سکتی۔ وہ مختلف اخبارات و رسائل میں کالم بھی لکھتے ہیں اور مستند شاعروں کے کلام میں کسی کا گرتا ہوا ”الف“ تھامتے کسی کی دبتی ہوئی”ی“ کی خبر دیتے ہیں۔ ایسے ”صاحب فن اور ماہر علم عروض“ شاعر نے روزنامہ ”نئی بات“ لاہور کی اشاعت 15مارچ 2013ءمیں اظہار شاہین پر اپنے مضمون میں رئیس الاحرار حسرت موہانی کے ایک مشہور زمانہ شعر کے ایک مصرعے کو اس طرح لکھا ہے:

شعر ہوتے ہیں اصل میں وہی حسرت
جبکہ حسرت موہانی نے ہر گز یہ مصرع متذکرہ ”تصحیح شدہ شکل میں نہیں کہا تھا۔
مولانا فضل الحسن حسرت موہانی کا اصل شعر ”درست“ شکل میں یُوں ہے:
شعر دراصل ہے وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اُتر جائے
”جنگ“ سنڈے میگزین 5تا11مئی2013ءمیں فرحین آمنہ فرید کا ایک سروے شائع ہُوا ہے:
”الیکشن کا دن کیسے گزاریں گے؟“
اس سروے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات کی آراءیکجا کی گئی ہیں۔ سرگودھا کے پروفیسر ہارون الرشید (ماہر تعلیم) نے اب تک کی صورت حال کے تناظر میں ایک مشہور شعر بغیر شاعر کے نام کے، ”بقول شاعر“ کہہ کر یوں درج کیا ہے:
کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ تُو دیکھ سکے گی گُلِ تر کی صورت
جبکہ مولانا الطاف حسین حالی کا یہ شعر صحیح صورت میں یُوں ہے:
کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گُلِ تر کی صورت
ایک کتاب ہے ”نواز شریف۔ قائد حزب اختلاف کی سیاست“۔ یہ محمد فاروق قریشی کی تحریر کردہ ہے اور گورا پبلشرز لاہور نے1995ءمیں چھاپی تھی۔ فاضل محرر محمد فاروق قریشی نے کتاب کے آغاز میں ”پیش تحریر“ کے عنوان سے جو تحریر لکھی ہے اس میں ایک شعر اس طرح رقم کیا ہے:
صیاد نے یونہی قفس میں نہیں ڈالا
مشہور گلستان میں بہت میری فغاں تھی
جبکہ یہ شعر صحیح یُوں ہونا چاہئے تھا:
صیاد نے یونہی نہیں ڈالا ہے قفس میں
مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی
ایک کتاب ”دوست پبلی کیشنز اسلام آباد“ کی مطبوعہ ” ایک سیاست کی کہانیاں“ جناب رﺅف کلاسرا کی کاوش نظر سے گزری صفحہ281 پر ”میاں نواز شریف“ کے بارے میں مضمون شروع ہوتا ہے۔ صفحہ313پر اِسی مضمون میں رو¿ف کلاسرا صاحب نے ایک بہت مشہور شعر کا ایک مصرع اس طرح تمہید کے ساتھ شعر بنا کر درج کیا ہے:
”ساہیوال کے خوبصورت شاعر ظفر اقبال کا شعر شاید اِسی موقع کے لئے کہا گیا تھا کہ:
” جھوٹ ہے تو قائم بھی اس پر رہو ظفر!
دراصل یہ شعر تو نہیں محض ایک مصرع ہی ہے اور وہ بھی درست نہیں۔ ظفر اقبال کا مقطع اس طرح ہے:

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئے

اورآخرمیں اس خاکسارکاایک مقطع:
ہر سُو چھایا ہوں ناصر
پھر بھی تنہا تنہا ہوں

مزید :

کالم -