”میرادرد آپ کا نہیں ہوسکتا “
سچ تو یہ ہے اس سے پہلے مجھے کسی کے دردکا اندازہ نہیں ہواتھا ،شاید اس دن بھی نہ ہوتا اگر طیفا وحشت ناک ہوکر میرے پاس نہ آتا۔”بٹ صاحب میں بڑی مشکل میں پھنس گیا ہوں ۔ آپ نے میری مدد نہ کی تو میں ایسی وصیت چھوڑ کر خود کشی کروں گا کہ بعد میں آپ کو ساری عمر جیل میں چکی پیسنی پڑ سکتی ہے“
”کیا ہوا یار “طیفے کی تھری ناٹ تھری دھمکی سن کر میں ہڑبڑا اٹھا ۔میں جانتا تھا کہ طیفا بھٹی نام کا بھٹی نہیں ،وہ لازمی کچھ کر گزرے گا۔
”آپ ساری دنیا کو بڑے بڑے مشورے دیتے ہیں ۔مجھ غریب کو یہ بات بتا دیں کہ میں کون ہوں ، مطلب کہ میں کیسے ثابت کروں میں بھی انسان ہوں ،انسان کا بچہ ہو ں“
”تمہیں ثابت کرنے کی ضرورت کیا ہے طیفے ،اچھے بھلے انسان ہو تم “
”اگر میں آپ کو انسان دکھائی دیتا ہوں تو باقی لوگ مجھے کھوتے کا پتر ،کتے کا بچہ ،سور کی اولاد ،بندر کہیں کا ،الو کا پٹھا ،چمگاڈر جیسی شکل والا ،سنپولیا ،بھینسا کیوں بولتے ہیں ۔؟“
”ہیں “ میں نے آنکھیں پھاڑ کرحیرت سے اسکا پھولا ہوا منہ دیکھا ۔پھر ذرا سنبھل کر اسے تسلی دی ” بس ایسے ہی لوگ پیار سے کہہ دیتے ہوں گے ،تو دل پر نہ لیا کر چھوٹی چھوٹی باتوں کو “
”یہ چھوٹی نہیں بٹ صاحب ،موٹی اور بڑی ہی موٹی بات ہے ،اور پھر پیار کا یہ کون سا انداز ہے جو انسان کو جانور بنا دیتا ہے ۔ مجھے تو ایسا پیار شیار نہیں چاہئے“ اس نے تیوری چڑھا کر کہا ۔میں اسے کیا سمجھاتا اور کیسے سمجھاتا ،نہ میں ممتاز مفتی نہ بابا صاحبا اشفاق ،نہ واصف علی واصف جیسی عقلیں کہ کسی کو ناگوار ترین بات سمجھانے کے لئے اسکو ایسے ناصحانہ واقعات سنا کر اسکا درد کم کردوں کہ وہ زندگی جینا اور ہنسنا سیکھ جائے ۔میں نے اپنے تئیں اسے بڑا سمجھایا ”طیفے تیری ماں جب تجھ سے ناراض ہوتی تھی تو کیا تجھے کوئی گالی دیتی تھی“
”ہاں کہتی تھی کہ جا تیرا بیڑا غرق ہوجائے “
”یہ گالی تو ناں ہوئی ........“
” جب شرارتیں کرتا تو کہتی تھی کہ تو بندروں کی طرح نہ اچھلا کوداکر“
” اور ....“ اس نے سر کو انگلی سے ٹھونگامارا ” جب ضد میں آکر روتا تھاتو کہتی تھی کہ کھوتے کی طرح نہ رویا کر،ہاں یاد آیا میری نانی میری حرکتوں سے تنگ آکر مجھے گالیاں دیتی تھی ،اس نے ایک دن مجھے سور کا بچہ بولا تو اماں کو بڑا دکھ ہوا تھا ۔اس وقت مجھے تو معلوم نہیں تھا کہ سور کس کو کہتے تھے ۔لیکن جب اماں نے اعتراض کیا تو نانی نے بھڑک کر کہا کہ سور کا بچہ نہ کہوں تو کیا کہوں ۔ابھی سے اسکے لچھن دیکھ لو ، جیسا باپ تھا یہ بھی بڑا ہوکر ویسا بنےگا ۔میں جب بڑا ہوا تو معلوم ہوا کہ میرا باپ بڑا خراب آدمی تھا ۔پڑھ کر لکھ کر نشئی بن گیا اور اماں کو پیسے کے لئے مارتا اور دلالی بھی کرنے کی کوشش کرتاتھا ۔“طیفاخاموش ہوا تو اسکا چہرہ افسردگی اور کرب سے سیاہ پڑگیا ۔
”دیکھ طیفے تو اماں اور نانی کے منہ سے یہی لفظ سنتے سنتے جوان ہوگیا ہے لیکن تجھے کبھی برا نہیں لگا مگر اب باہر والے تجھے جھٹلاتے ہیں تو تجھے برا لگنے لگا ہے ۔تمہیں تو اب تک پیٹھا ہوجانا چاہئے تھا یعنی اد ھر سے سنی ادھر سے نکال دی ڈھیٹ بن کر ۔ویسے یار یہ لفظ گالیاں تو نہیں ہیں ،گالی تو یہ ہوتی ہے ۔۔۔۔۔" میں نے اسے چند ٹھیٹھ گالیاں نکال کر سنائیں اور سمجھایا۔" ننگی گالی پر بندہ غصہ کرلے تو چلو کوئی بات بھی ہے ،اب ایسی گالیوں پر اپنا دل میلا نہ کیا کر"
" جانیں دیں بٹ صاحب ،گالی گالی ہوتی ہے ۔گندی مندی کی اس میں کوئی تمیز نہیں ہوتی ۔ساری گالیاں ننگی ہوتی ہیں۔ خیر مجھے اب نہ جانے کیوں تکلیف ہوتی ہے ۔شاید میں خود کو معزز سمجھنے لگا ہوں ۔آپ ہی بتائیں میں کیا کروں "
" صبر کر یا پھر حوصلہ کرکے چار سنا دیا کر تو بھی ،جیسے کو تیسا "
” اچھا “اس نے منہ ذرا ٹیڑھا کر کے کندھا ہلا کر کہا ”چلو فیر بٹ صاحب ، تُسی وی کھوتے دے پتر او ،کیا باگڑ بلی جیسی شکل ہے آپ کی ،میں نے سنا تھا آپ کے پاس بڑی عقل ہے ،لیکن آپ کے سر میں بھی گوبر بھرا ہوا ہے ،بڑے عزت دار بنے پھرتے ہیں،لیکن آپ سے بڑا کنجر ۔۔۔۔۔"
" لطیف بھائی ۔۔۔۔کک کیا ہوگیا ہے آپ کو ۔۔۔۔نہ کر لطیف بھائی ۔۔۔۔او۔۔۔۔" میں روکتا ہی رہ گیا مگر طیفا مجھے گھورتے ہوئے گالیاں بکتا ہوا چلا گیا۔
۔۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔