اشفاق احمد: نابغہ روزگار علمی و ادبی شخصیت

اشفاق احمد: نابغہ روزگار علمی و ادبی شخصیت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ممتاز ڈرامہ نگار، شاعر، ادیب، معلّم، براڈکاسٹر، افسانہ نگارکی 17ویں برسی پر خصوصی گوشہ

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں 
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں 
اشفاق احمد ہم سے بچھڑ کر بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ وہ نابغہء عصر، زندۂ جاوید شخصیت ہیں۔ زندگی کے بے شمار شعبوں پر ان کا ایک گرانقدر سرمایہ موجود ہے مرحوم نے اپنے کیرئیر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا اور اس زمانے میں ان کا پروگرام ”تلقین شاہ“بے پناہ مقبول ہوا جس کا ایک کردار وہ خود تھے اور دوسرا ان کا گھریلو ملازم ہدایت اللہ جسے وہ ہدایت کہہ کر مخاطب کرتے اور علم و حکمت، دنیا داری اور اعلیٰ اصولوں کو دنیا پر مزاح کے انداز میں آشکار کرتے۔ جب ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو اشفاق احمد نے اپنے پروگراموں اور ڈراموں کے ذریعے سے دیکھنے والوں کو ہمیشہ نہ صرف بے پناہ متاثر کیا بلکہ ان کے پروگراموں اور ڈراموں سے نہ صرف ان کی علمی قابلیت کا اظہار ہوتا تھا بلکہ معاشرتی اقدار کے سلسلے میں ایک واضح پیغام بھی موجود ہوتا۔
وہ ایک عظیم اولڈ راوین تھے اور گورنمنٹ کالج لاہور کو جن عظیم علمی شخصیات پر فخر ہے ان میں علامہ اقبال، محمد حسین آزاد، فیض احمد فیض، صوفی تبسم، پطرس بخاری، اشفاق احمد، مجید نظامی، حنیف رامے، حفیظ ہوشیار پوری، ناصر کاظمی، محمود شام، جعفر قاسمی کا تذکرہ بطور خاص کیا جاتا ہے جبکہ اس ادارے نے بیورو کریسی، تعلیم، صحت، قانون و انصاف سیاست، افواج پاکستان اور تمام دیگر شعبہ جات میں نامور اور معروف شخصیات کو جنم دیا۔ ملک کے سابق وزرائے اعظم، آرمی چیف فضائیہ اور بحریہ کے اعلیٰ ترین افسران اور سربراہان اسی ادارے کے فارغ التحصیل ہیں۔ محترمہ بانو قدسیہ سے اشفاق احمد کا ملن بھی گورنمنٹ کالج ہی کا مرہون منت ہے۔ یہ دونوں شخصیات ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں اور دونوں نے ایک مثالی زندگی گزار کر معاشرے کے لئے اعلیٰ، قابل تقلید مثال قائم کی۔ اشفاق احمد ایک بہترین شوہر اور بہترین باپ تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے در و دیوار سے انہیں عشق کی حد تک عقیدت تھی اور وہ گورنمنٹ کالج کو درسگاہ نہیں بلکہ درگاہ کا مقام دیتے تھے۔ گورنمنٹ کالج کے علمی و ادبی مجلہ ”راوی“ نے اشفاق احمد پر ایک خصوصی نمبر شائع کیا اور حال ہی میں کالاشاہ کاکو کیمپس میں تعمیر ہونے والے بوائز ہوسٹل کا نام ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
اشفاق احمد نے استاد کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے مختلف واقعات تحریر کئے ہیں جب وہ اٹلی (روم) میں پروفیسر تھے تو کسی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر انہیں عدالت میں طلب کیا گیا جب عدالت کو یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک استاد ہیں تو جج نے بے ساختہ کہا پروفیسر اِن دی کورٹ Prof in the Cort اور احتراماً سب کو کھڑا ہونے کا حکم دیا۔ پروفیسر صاحب کو باعزت طور پر عدالت سے رخصت کیا گیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر اشفاق احمد کے طویل ڈرامے ناظرین کی گہری دلچسپی کا باعث رہے اور جس روز ان کے ڈرامے کی قسط آنا ہوتی تھی تو سڑکیں اور گلیاں سنسان ہو جاتی تھیں اور لوگ گہری دلچسپی کا اظہار کرتے اور بی قراری سے ان اقساط کا انتظار کرتے۔ اشفاق احمد کے تقریباً تمام ڈرامے کتابی شکل میں دستیاب ہیں اور انٹرنیٹ پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کا پروگرام ”زاویہ“ بے پناہ مقبول ہوا اور نہ صرف کتابی شکل میں بلکہ انٹرنیٹ پر بھی اس کی اقساط دیکھی جا سکتی ہیں۔ پروگراموں کے اس سلسلے میں وہ بڑی بے تکلفی اور سادگی کے ساتھ تصوف و عرفان کے معاملات کو بیان کرتے اور اپنی زندگی کے مختلف واقعات اور اپنے افکار و خیالات کو ناظرین کے شعور زندگی میں اضافے کے لئے بیان کرتے۔ اس پروگرام میں وہ ایک بزرگ کی حیثیت سے بزرگوں والے لباس میں ملبوس نظر آتے اور مہمان ان سے پروگرام کے آخری حصے میں تبادلہء خیال بھی کر سکتے تھے جس سے بیان کردہ نکات کی مزید وضاحت ہو جاتی تھی۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں فیض احمد فیض، اشفاق احمد، محمد حسین صوفی اور مولانا جعفر قاسمی جیسی شخصیات صوفی غلام مصطفی تبسم کے شاگردوں میں شامل تھیں۔ اشفاق احمد صوفی تبسم مرحوم سے ان کے دیگر شاگردوں کی طرح بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ راقم الحروف سے اشفاق احمد کی ملاقاتوں کا سلسلہ مولانا جعفر قاسمی کے توسط سے 1968ء سے شروع ہوا جب اشفاق احمد مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر تھے اور ان کا دفتر گلبرگ میں تھا۔ مولانا جعفر قاسمی اپنے طویل ملاقاتوں میں مجھے اپنے ساتھ رکھتے تھے اور اس سے ان کا یہ مقصد تھا کہ میں زندگی کے آداب سے آشنا ہو جاؤں۔
مولانا جعفر قاسمی کی وفات کے بعد جب ہم نے ان کی یاد میں سیمینارز اور میموریل لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا تو جناب اشفاق احمد اور جناب مجیب الرحمن شامی بھی ان تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔ان تقریبات کا انعقاد مولانا جعفر قاسمی کے صاحبزادے مدثر حسین قاسمی کیا کرتے تھے اور یہ تقریبات اقبال اکیڈمی پرل کانٹی نینٹل، شیران اور فلیٹیز میں منعقد ہوتی تھیں۔ جاوید قریشی مرحوم، مجید نظامی مرحوم اور ڈاکٹر امجد ثاقب بھی ان تقریبات میں شرکت کرکے اشفاق احمد، صوفی تبسم اور جعفر قاسمی کے زمانے کی یادوں کا تذکرہ کرتے تھے، اشفاق احمد ہمیشہ اپنی ہم عصر شخصیات کا بے پناہ احترام کرتے تھے اور اپنے ٹی وی پروگراموں میں ان شخصیات کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرنے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرتے تھے۔
راوی کے خصوصی شمارے اشفاق احمد نمبر میں وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب نے اشفاق احمد پر ایک مضمون چاچا شو کے عنوان سے تحریر کیا جس میں ان کی گھریلو زندگی پر روشنی ڈالی گئی۔ اس خصوصی اشاعت میں ان کے تمام ہم عصر احباب نے اشفاق احمد کی علمی و ادبی خدمات پر تفصیلی اظہار خیال کیا ہے۔اشفاق احمد نے نہ صرف شروع میں دیال سنگھ کالج لاہور میں تدریسی خدمات سرانجام دیں بلکہ بیرون ملک کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی تدریسی فرائض سرانجام دیئے اور پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور اداروں میں انہیں بطور صدر مجلس یا مہمان خصوصی مدعو کیا جاتاتھا۔
اشفاق احمد کی وفات سے پاکستان بھر میں اس گہرے خلا کا تذکرہ کیا گیا جو ریڈیو، ٹیلی ویژن اور علم و ادب کے شعبہ جات میں پیدا ہوا وہ ایک صوفی بزرگ بھی تھے اور ان کے قریبی دوستوں میں قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق علی خان، حنیف رامے اور مولانا جعفر قاسمی شامل تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے اپنی وابستگی کو انہوں نے مختلف طویل انٹرویوز اور مضامین میں بیان کیا ہے ان کا ایک خوبصورت مضمون ”چاند کا سفر“ مجلہ راوی میں اشاعت پذیرہو چکا ہے۔
٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 2 -