قائداعظم ؒسے پوچھئے،ان کا تصورِ پاکستان

قائداعظم ؒسے پوچھئے،ان کا تصورِ پاکستان
قائداعظم ؒسے پوچھئے،ان کا تصورِ پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


قائداعظم ؒ کے تصور پاکستان میں یوں تو کوئی ابہام نہیں، مگر ایک طبقہ ہماری نوجوان نسل کو ہمیشہ گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ قائداعظم ؒ مغربی طرزِ معاشرت سے اتنے زیادہ متاثر تھے کہ ان کے پیش نظر کبھی بھی پاکستان بطور ایک اسلامی ریاست کے نہیں تھا۔سیکولر ذہن رکھنے والے دانشور اکثر اپنے نقطہئ نظر کی تائید کے لئے قائداعظم ؒ کی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں 11اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں۔ قائداعظم ؒ نے اپنی 11اگست1947ء کی تقریر میں فرمایا تھا: ”آپ عبادت کے لئے اپنے مندروں میں جانے میں آزاد ہیں۔ آپ اپنی مسجدوں میں جانے میں آزاد ہیں۔آپ مملکت ِ پاکستان میں اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے میں آزاد ہیں۔آپ خواہ کسی مذہب، فرقے یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں،امورِ مملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ہم اس بنیادی اصول سے آغازِ کار کر رہے ہیں کہ سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ دیکھیں گے کہ نہ ہندو، ہندو رہے گا اور نہ مسلمان، مسلمان۔

مذہب کے معنوں میں نہیں،کیونکہ یہ تو ذاتی عقیدے کا مسئلہ ہے،بلکہ سیاست کے معنوں میں، جب ہر شخص مملکت کاشہری ہوتا ہے“۔ قائداعظمؒ کی یہ تقریر اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔اس تقریر میں غیر مسلم اقلیتوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے اعتبار سے مسلمانوں کی طرح پاکستان میں برابر کے شہری ہوں گے۔ قائداعظمؒ نے غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ فیاضانہ اور فراخدلانہ سلوک کہاں سے سیکھا،اس کی وضاحت بھی قائداعظمؒ ہی کی ایک تقریر کے حوالے سے پیش خدمت ہے۔یہ تقریر انہوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے خطاب کے جواب میں 14اگست1947ء کو فرمائی۔ قائداعظمؒ نے کہا: ”شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں سے رواداری اور حسن سلوک کا جو مظاہرہ کیا، وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔اس کا تعلق تیرہ سو سال پہلے سے ہے، جب ہمارے پیغمبرؐ نے نہ صرف اپنے الفاظ سے،بلکہ اپنے عمل سے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا، جبکہ یہودیوں اور عیسائیوں پر غلبہ اور فتح حاصل ہو چکی تھی۔ان کے عقیدے اور ایمان کا خیال رکھا گیا۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ، جہاں بھی انہوں نے حکومت کی، ایسے ہی عظیم انسانی اصولوں سے بھری پڑی ہے، جس کی تقلید کرنی چاہئے“۔


قائداعظمؒ نے قیام پاکستان سے قبل بھی اپنے ایک پیغام عید میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی تنازعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اسلامی جذبے واخوت کی تعلیمات کو فراموش نہیں کر سکتے،کیونکہ ہمارے پیغمبر صادق ؐ کو خلق ِ خدا کی خدمت اور رواداری سے بڑھ کر اور کوئی جذبہ مرغوب نہیں تھا۔ غیر مسلموں سے رواداری کو قائداعظمؒ روحِ اسلام کے عین مطابق سمجھتے تھے،اس کا سیکولر نظریات سے کوئی تعلق نہیں۔قائداعظمؒ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں 2نومبر1940ء کو اپنے خطاب میں واضح کیا تھا: ”اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور روا داری کا حامل دین ہے اور جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں، ان کے ساتھ فیاضی کا سلوک ہمارا فرض ہے“۔پاکستان کے جن مٹھی بھر دانشوروں کو قائداعظمؒ کے حقیقی تصورِ پاکستان کی سمجھ آج بھی نہیں آ رہی۔ مَیں ان کی خدمت میں کراچی بار ایسوسی ایشن سے قائداعظمؒ کے خطاب کا یہ اقتباس پیش کروں گا۔


یہ تقریر قائداعظمؒ نے 25جنوری 1948ء کو فرمائی تھی، قائداعظمؒ نے اپنے اس خطاب میں سیکولر ازم کے علمبرداروں کو براہِ راست چیلنج کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا: ”مَیں ان لوگوں کی بات سمجھنے سے قاصر ہوں،جو دیدہ و دانستہ اور جان بوجھ کر یہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی اسی طرح قابل ِ اطلاق ہیں،جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ مَیں ایسے لوگوں کو، جو بدقسمتی سے گمراہ ہو چکے ہیں، یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو،بلکہ یہاں غیر مسلموں کو بھی کوئی خوف ڈر نہیں ہونا چاہئے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا ہے۔ہر شخص سے انصاف،رواداری اور مساوی برتاؤ اسلام کے بنیادی اصول ہیں“……قائداعظمؒ نے اپنی اس تقریر میں بھی اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظریات اور اصولوں پر عمل کرتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف، رواداری اور مساوی برتاؤ کیا جائے گا۔

قائداعظمؒ نے دو ٹوک انداز میں یہ بھی واضح کر دیا کہ تیرہ سو سال پہلے کی طرح اسلام کے اصول آج بھی قابل ِ عمل اور قابل ِ تقید ہیں۔اس سے سیکولر ازم کی تردید ہو جاتی ہے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن سے اپنے مذکورہ بالا خطاب میں قائداعظمؒ نے مزید فرمایا: ”اسلام صرف رسوم و روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں ہے۔اسلام ہر مسلمان کے لئے زندگی کا ضابطہ بھی ہے،جس کے مطابق وہ اپنی روزمرہ حیات،پنے افعال و اعمال، حتیٰ کہ سیاست،معاشیات اور دوسرے شعبوں میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔اسلام سب انسانوں کے لئے انصاف،رواداری اور احترام کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ اسلام میں انسان اور انسان میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور اخوت اسلام کے بنیادی اصول ہیں“۔


جب قائداعظمؒ کے ارشاد کے مطابق سیاست، معاشیات، معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں بھی اسلام ہمارا رہنما ہے۔ گویا زندگی کے تمام شعبوں کے لئے اسلام ہمارے لئے مکمل ضابطہ ئ حیات ہے تو پھر قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان میں سیکولر ازم کہاں سے آ گیا،اگر سیکولر ازم کے علمبرداروں کو قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان کی سمجھ پھر بھی نہ آئی ہو تو وہ،سبی دربار بلوچستان میں قائداعظمؒ کی یہ تقریر پڑھ لیں: ”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ ان سنہری اصولوں والے ضابطہ ئ حیات پر عمل کرنے میں ہے،جو ہمارے عظیم قانون بنانے والے پیغمبر اسلامؐ نے ہمیں عطاء کیا ہے۔ہمیں اپنی جمہوریت(نظامِ حکومت) کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا پیغام یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو“۔

قائداعظمؒ کے اس ارشاد کی روشنی میں جب ہم اپنے امورِ مملکت میں پیغمبر اسلامؐ کے عطاء کیے ہوئے ضابطہ ئ حیات کی پیرروی کریں گے تو اس کے نتیجے میں پاکستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر ہی اُبھر کر سامنے آئے گا۔سیکولر ذہن رکھنے والے احباب کی اگر اب بھی تسلی نہ ہوئی ہو تو وہ قائداعظمؒ کے1945ء کے پیام عید کا مطالعہ ضرور کریں: ”ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی فرائض تک محدود نہیں۔قرآن کو دینیات ہی نہیں،بلکہ سول اور تعزیری قوانین بھی سمجھا جاتا ہے اور وہ ضابطے بھی جن سے نوعِ انسانی کے فرائض اور حقوق کی حد بندی بھی ہوتی ہے،اور خدا کے یہ احکام کبھی تبدیل ہونے والے نہیں ہیں۔


سوائے جہلا کے ہر کسی کے علم میں ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطہ ئ حیات ہے۔ مذہبی، سماجی، شہری، کاروباری، فوجی، عدالتی اور تعزیری و قانونی ضابطہ ئ حیات۔ مذہبی رسوم و عبادات ہوں یا روزمرہ زندگی کے معاملات جسم کی صحت کا مسئلہ ہو یا روح کی نجات کا۔ اجتماعیت سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک،دُنیا بھر میں مجرموں کی سزا کا سوال ہو یا آخرت میں سزا جزا کا، ان تمام معاملات پر قرآن ہماری رہنمائی کرتا ہے، اسی لئے نبی کریمؐ نے فرمایا تھا کہ ہر مسلمان کے پاس قرآن مجید کا نسخہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنا پیشوا اور رہنما خود بن سکے“۔ قائداعظمؒ کے اس پیام کا خلاصہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ حیات میں قرآن ہمارا مرشد اور رہنما ہے۔ ایک مسلم معاشرے کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن ہی سے رہنمائی لینی چاہیے، کیونکہ یہ مسلم سوسائٹی کے لئے ایک مکمل ضابطہ ئ حیات ہے اور اس ضابطہ ئ حیات پر عمل کرنے کے لئے ہی پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ یہ مَیں نہیں کہہ رہا۔

یہ ارشاد پاکستان کے بانی کا ہے۔ 11اکتوبر 1947ء کے قائداعظمؒ کے اس ارشاد پر ہی مَیں اپنے کالم کا اختتام کروں گا……”جس پاکستان کے لئے ہم گزشتہ دس سال سے کوشاں تھے، وہ اللہ کے فضل وکرم سے آج ایک مسلمہ حقیقت ہے،لیکن اپنی اس مملکت کا قیام بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں تھا،بلکہ یہ ایک اعلیٰ ترین مقصد کا ذریعہ تھا۔ہمارا تصور یہ تھا کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہئے،جس میں ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے سانس لے سکیں۔جسے ہم اپنی صوابدید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے سکیں اور جہاں ہم اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصولوں پر عمل کر سکیں“۔

مزید :

رائے -کالم -