تعصب ۔۔۔ اسلام کی نظر میں
جناب مولانا ابرار احمد
اسلام میں قومیت اور برادری کوئی چیز نہیں‘ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ اس اخوت اسلامی کی بناء پر ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا ہمدرد ہوتا ہے۔ ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے یا ہو سکتی ہے تو وہ صرف تقویٰ اور پرہیزگاری ہے‘ اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔‘‘
اس مختصر سی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تین اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں:
1 ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہے‘ ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے۔ آج جتنی بھی نسلیں دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور باپ سے شروع ہوئی تھیں۔ اس سلسلہ میں کسی جگہ بھی اس تفرقے اور اونچ نیچ کے لیے کوئی بنیاد نہیں جس کے زعم باطل میں تم مبتلا ہو‘ ایک ہی تمہارا خالق ہے‘ ایک ہی مادہ سے تخلیق فرمائی‘ ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوئے ہو اور ایک ہی ماں باپ کی تم اولاد ہو۔
2 دوسرے یہ کہ اپنے اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری عمل تھا مگر فطری فرق واختلاف کا تقاضا یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ نیچ‘ شریف وکمیں‘ برتر وکمتر کے امتیازات قائم کیے جائیں۔ ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے‘ ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو حقیر وذلیل جانیں اور ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوق جمائے ایسے لوگوں کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرمایا: [من دعا الی العصبیۃ فلیس منا] ’’جو شخص عصبیت کو پکارے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو شخص خاندانی اونچائی نیچائی کا اظہار کرے وہ اپنے آپ کو امت محمدیہ سے خارج سمجھے۔
3 تیسرے یہ کہ اگر کسی کو دوسرے پر فضیلت وبرتری ہو سکتی ہے تو وہ صرف تقویٰ وطہارت کی بنیاد پر ہو سکتی ہے جس میں یہ خوبی پائی جائے خواہ وہ کسی نسل‘ کسی ملک سے تعلق رکھنے والا ہو‘ وہ اس خوبی کی بناء پر قابل قدر ہے اور جس کا حال اس کے برعکس ہو بہرحال وہ ایک کمتر درجے کا انسان ہے‘ چاہے وہ کالا ہو یا گورا‘ مشرق میں پیدا ہوا ہو یا مغرب میں‘ یہی حقائق جو قرآن کریم کی ایک مختصر سی آیت کریمہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ رسول اللہؐ نے ان کو اپنے مختلف خطبات میں واضح طور پر بیان کیا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر طواف کعبہ کے بعد آپ نے جو تقریر فرمائی وہ یہ ہے کہ شکر ہے اس معبود حقیقی کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کر دیا۔ لوگو! تمام انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں: ایک نیک وپرہیزگار جو اس کی نگاہ میں عزت والا ہے۔ دوسرا فاسق وفاجر جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے‘ ورنہ انسان آدمؒ کی اولاد ہے اور آدمؒ کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پرایام تشریق کے وسط میں آپ نے ایک تقریر کی جس میں آپ نے فرمایا:
’’تم سب کا خدا ایک ہے‘ کسی عربی کو کسی عجمی پر‘ کسی عجمی کو کسی عربی پر‘ کسی کالے کو کسی گورے پر‘ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘ ایک حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے:
سیدنا واثلہؓ بن اسقع سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے پوچھا‘ اللہ کے رسول! عصبیت کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم اپنی قوم کی ظلم پر مدد کرو۔‘‘(ابو داود)
تعصب اگر حق کے معاملہ میں ہو تو مستحسن ہے اور اگر تعصب کا تعلق حق بات کو نہ ماننے‘ ظلم وزیادتی اختیار کرنے اور اپنی قوت‘ شان وشوکت کے بے جا اظہار کرنے کی خاطر ہو تو وہ مذموم ہے۔ عام طور پر تعصب کا اطلاق اپنی بات وخیال اور اپنے مذہب وقوم کے حق میں ناروا سختی اختیار کرنے اور دوسرے کے لیے ظلم وتعدی پر ہوتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے اور نہ وہ ہم میں سے ہے جو عصبیت پر جنگ کرے اور نہ وہ ہم میں سے ہے جو عصبیت پر مرے۔‘‘
سیدنا ابن مسعودؓ‘ نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنی قوم کی ناحق حمایت ومدد کرے وہ اس اونٹ کی مانند ہے جو کنویں میں گر پڑے پھر وہ اس کی دم پکڑ کر کھینچ رہا ہو۔‘‘(ابوداود)
نبی کریمؐ نے ایسے آدمی کو جو اپنی قوم کی بے جا حمایت کرتا ہے اس اونٹ سے تشبیہ دی ہے جو اونٹ کنویں میں گر جائے پھر اس کی دم پکڑ کر کھینچا جائے تو اس کو ہلاکت سے بچایا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح جو قوم باطل ہونے کی وجہ سے ہلاکت کی کھائی میں گر پڑی ہو اسے کوئی حمایتی اور مدد گار ہلاکت سے نجات نہیں دلا سکتا۔
’’میں نے اپنے والد کو بیان کرتے ہوئے سنا‘ میں نے رسول اللہؐ سے سوال کیا‘ اللہ کے رسول! کیا عصبیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی آدمی اپنی قوم کو عزیز رکھے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں‘ بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی اپنی قوم وجماعت کی ظلم وزیادتی کے معاملہ میں مدد کرے۔‘‘(ابن ماجہ)
اس ارشاد گرامی میں عصبیت کے مفہوم پر بڑے سادہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اور اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اپنی قوم کی جائز معاملہ میں حمایت کرنا‘ اس فطری قانونی حقوق ومفادات کے حصول وتحفظ کے لیے اس طور سے جد وجہد کرنا کہ دوسروں کے حقوق ومفادات پر زد نہ پڑے عصبیت کے معنی میں داخل نہیں ہے۔ ہاں اپنی قوم کی اس طرح حمایت کی جائے جس سے دوسروں پر ظلم وتعدی کے جذبات ظاہر ہوتے ہوں یا اپنی قوم کی جد وجہد میں معاونت کرنا جو سراسر زیادتی اور انتہا پسندی پر مبنی ہو تو اس کو عصبیت کہیں گے اور شریعت کی نظر میں اس حمایت کو مذموم قرار دیا جائے گا۔
سیدنا ابوہریرہؓ نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’لوگ اپنے ان باپ دادا پر فخر کرنا چھوڑ دیں جو مر چکے ہیں جن کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ دوزخ کے کوئلہ بن گئے ہیں ورنہ اگر فخر کرنے سے باز نہ آئے تو وہ خدا کے نزدیک گوہ کے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل وخوار ہوں گے جو گوہ کو اپنے ناک سے ہٹاتا ہے۔‘‘(ترمذی)
دوسری حدیث میں فرمایا:
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے حکم دیا ہے کہ تم تواضع وانکساری اختیار کرو یہاں تک کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور کوئی کسی پر ظلم وزیادتی نہ کرے۔‘‘ (مسلم)
اظہار فخر اگر حق کے معاملہ میں ہو‘ حق کی خاطر ہو‘ کسی دینی مصلحت کے پیش نظر ہو اور دشمنان اسلام پر اپنی برتری‘ اپنی شان وشوکت اور اپنی قوت کا اظہار مقصود ہو تو جائز ہے اور اگر مفاخرت کا تعلق ناحق معاملہ سے ہو‘ نفسانیت کے تحت تکبر وغرور کے طور پر ہو تو وہ مذموم ہے اور عام طور پر مفاخرت کا استعمال اسی معنی میں ہوتا ہے۔
سیدنا حسنؓ روایت کرتے ہیں سیدنا سمرہؓ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’حسب مالداری ہے اور کرم پرہیزگاری کا نام ہے۔‘‘(ترمذی)
آنحضرتؐ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے نزدیک اصل حسب وفضیلت مالداری ہے جو آدمی مالداری اور صاحب ثروت ہو تو وہی حسب والا اور فضیلت کا مالک سمجھا جاتا ہے اور اس کی عزت کی جاتی ہے۔ اگر کسی کے پاس مال ودولت نہ ہو تو وہ سب کے نزدیک کم تر بے وقعت رہتا ہے حالانکہ اللہ کے نزدیک اصل فضیلت پرہیزگاری ہے جس کے بغیر کسی بھی فضیلت کا کوئی اعتبار نہیں‘ اللہ کی نظر میں وہی شریف اور بزرگ ہے جو شخص پرہیزگار ہو۔
اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ دو آدمی اگر اپنے جھگڑے میں لوگوں کو مدد کے لیے پکارنا چاہیں تو وہ کہیں مسلمانو! آؤ اور ہماری مدد کرو یا یہ کہ لوگو! ہماری مدد کے لیے آؤ لیکن ان میں سے ہر ایک اگر اپنے قبیلے یا برادری یا نسل ورنگ یا علاقے کے نام پر لوگوں کو پکارتا ہے تو یہ جاہلیت کی پکار ہو گی۔ اگر اس پکار پر لبیک کہہ کر آنے والے اگر یہ نہیں دیکھتے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون اور حق وانصاف کی بنا پر مظلوم کی حمایت کرنے کی بجائے اپنے اپنے گروہ کے آدمی کی حمایت میں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو جاتے ہیں تو یہ جاہلیت کا فعل ہے جس سے دنیا میں فساد برپا ہوتا ہے۔ اس لیے رسول اللہؐ نے اسے گندی اور گھناؤنی چیز قرار دیا اور مسلمانوں سے فرمایا کہ یہ تمہاری پکار سراسر جاہلیت کی پکار ہے۔ تمہیں اس سے کیا واسطہ؟ تم اسلام کی بنیاد پر ایک ملت بنے تھے اب یہ انصار اور مہاجرین کے نام پر تمہیں کیسے پکارا جا رہا ہے اور اس پکار پر تم کہاں دوڑے جا رہے ہو؟
علامہ سہلی نے ’ارض الانف‘ میں یہ لکھا ہے کہ فقہائے اسلام نے کسی جھگڑے یا اختلاف میں جاہلیت کی پکار بلند کرنے کو ایک فوجداری جرم قرار دیا ہے، رحمت دو عالمؐ نے ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! تحقیق کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ آدمؒ ایک ہیں‘ خبردار کسی عربی کوکسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے اور نہ کسی سیاہ فام کو گورے رنگ والے پر اور نہ کسی گورے کو کالے پر فضیلت ہے۔ بزرگی اور فضیلت کا دار ومدار خوف خدا اور تقویٰ پر ہے۔‘‘
گویا صحیح معنوں میں مسلمان ہونا بزرگی‘ عزت اور شرافت کا نشان ہے‘ وہ مسلمان خواہ کسی وطن‘ کسی قوم‘ کسی ذات‘ کسی رنگ‘ کسی نسل‘ کسی برادری کا ہو۔ اللہ تعالیٰ کو نیک اعمال پیارے ہیں جس میں بھی قرآن وحدیث کے مطابق نیک اعمال پائے جائیں گے وہی اللہ کو پیارا اور اس کی نظر میں عزت والا ہے۔ بد عمل سید‘ قریشی‘ مغل‘ پٹھان‘ راجپوت وغیرہ خدا کے نزدیک کوئی قیمت‘ کوئی درجہ‘ کوئی بزرگی نہیں رکھتے۔
رسول اللہؐ نے برادریوں اور قبیلوں کے باہمی تعصب کو مٹایا‘ حسب ونسب اور ذات پات کے فخر وغرور کو خاک میں ملا دیا۔ ایک عالمی اخوت اور آفاقی موالات کی طرح ڈالی۔ سب مسلمانوں کو ایک برادری بنا کر ان کو یکجان دو قالب کر دیا۔ ایسا شیر وشکر کیا کہ ان کو ایک دوسرے کی جدائی گوارا نہ تھی‘ وہ آپس میں اللہ کے لیے محبت رکھنے والے بھائی بھائی بن گئے۔ جو مسلمان حسب ونسب اور ذات وبرادری کے رشتے پر اسلام کے رشتے کو ترجیح دیتا ہے اور تقویٰ ودینداری اور اخلاق فاضلہ کی بنا پر محبت کرتا ہے اور اللہ کے نیک بندوں کے لیے بھائی چارہ قائم کرتا ہے تو وہ دنیا میں امن وچین اور عزت کی زندگی بسر کرنے کے بعد آخرت میں بھی بڑے مرتبے کا مستحق ہو گا۔
یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک محدود نہیں رہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر دی جس میں رنگ ونسل‘ زبان‘ وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہ تھی جس میں اونچ نیچ‘ چھوت چھات اور تفریق وتعصب کا کوئی تصور نہ تھا۔ جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ کسی نسل وقوم اور ملک ووطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہو سکتے اور ہوئے ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرہ میں عملی طور پر تشکیل دیا گیا ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام نے پیش نہ کی۔ صرف اسلام وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بے شمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے۔