پی ٹی آئی کی مقبولیت؟

پی ٹی آئی کے ٹائروں سے بچی کھچی ہوا بھی نکل گئی جیسے عمران خان کے فرضی خط سے عسکری ذرائع کے ایک بیان سے نکل گئی تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے فیصلے ملک کے اندر نہیں ملک سے باہر ہو رہے ہیں اور جو لوگ یہ فیصلے کررہے ہیں، انہیں پاکستان کے زمینی حقائق کا علم نہیں ہے، پاکستانی عوام، خاص طور پر پنجاب کے عوام کے مائنڈ سیٹ کا اندازہ نہیں ہے۔ پنجاب کے عوام اندھا دھند کسی کی تقلید نہیں کرتے، بلکہ کہنے دیجئے کہ اپنے باپ کی بھی نہیں کرتے، ان کے اندر سوال کرنے، تنقیدی جائزہ لینے اور بات کہہ دینے کا حوصلہ ہوتا ہے کیونکہ صدیوں کی رہتل نے انہیں سکھایا ہے کہ یا تو ظالم کے سامنے کھڑے ہوکر بات کرنی ہے یا پھر سینے پر گولی کھانی ہے، پیٹھ پر گولی کھانے سے اسے اور اور اس کے خاندان کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے عوام فیصلہ کرنے میں جہاں جذباتی پن کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہاں پر کسی فیصلے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگاتے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کو ہی لے لیجئے، انہوں نے صاف ستھرا پنجاب کا فیصلہ کیا اور پھر آناً فاناً اس پر عملدرآمد بھی کروادیا۔ غریب ریڑھی بان دہائیاں دیتے نظر آرہے ہیں مگر عوام کے اندر ان کے لئے خاص ہمدردی نہیں ہے کیونکہ جس انداز سے تجاوزات نے لوگوں کی زندگیاں دو بھر کر رکھی تھیں، وہ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز ٹھیک کام کر رہی ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب کے عوام کسی کو زیادہ دیر دل سے لگاتے ہیں نہ زیادہ دیر دل سے اتارنے میں لگاتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو شہید کی مثال ہی لے لیجئے۔ کہا جاتا تھا کہ تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، مگر آج پنجاب کی حد تک اس نعرے کا اثر جاتا رہا ہے اور کسی بھی گھر سے ڈھنگ کا بھٹو نہیں نکل رہا ، اگر کچھ ہیں تو اس قدر عمر رسیدہ ہو چکے ہیں کہ دیوانگی کا مظاہرہ عبث ہے اور نوجوان تو ویسے ہی منکر ہو چکے ہیں۔ یعنی پنجاب کے عوام زیادہ دیر پتن پر کھڑے رہنے کے روادار نہیں ہوتے اور جو کچھ ہوا اس پر مٹی ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس وقت عمران خان کی مقبولیت کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اگر سوشل میڈیا پر پراپیگنڈے کی بھرمار نہ ہوتی تو عمران خان کب کا قصہ پارینہ بن چکے ہوتے۔ ایک زمانہ تھا جب نواز شریف کی امیج بلڈنگ کے لئے پرنٹ میڈیا میں کئی طرح کے پاپڑ بیلے جاتے تھے اور نواز شریف اپنی امیج بلدنگ کے روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہاتے تھے۔ اس کا انہیں بے حد فائدہ بھی ہوا اور کئی ایک جینوئن اور غیر جینوئن سرووں کے مطابق پنجاب میں بھٹو سے زیادہ مقبول ہو گئے تھے۔ مگر جب جنرل پاشا کے زمانے سے ان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ شروع ہوا اور جنرل فیض حمید کے زمانے میں گلی گلی میں شور ہے، نواز شریف چور ہے کی تکرار ہوئی تو آج نواز شریف برسر اقتدار ہونے کے باوجود گوشہ نشین ہیں کیونکہ پنجاب کے عوام کے ذہنوں میں ان کے خلاف اس قدر زہر بھر دیا گیا ہے کہ چاہنے کے باوجود وہ اپنی مقبولیت کا رنگ جمانے سے قاصر ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ان کے چھوٹے بھائی مرکز میں وزیر اعظم اور ان کی بیٹی پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں۔ مگر وہ عوام سے اسی طرح چھپے پھرتے ہیں۔
اپریل 2022کے بعد سے عمران خان کوشش کے باوجود پنجاب میں اپنی مقبولیت کی دھاک نہیں بٹھا سکے۔ فروری 2024 کے انتخابات میں اگر جنرل فیض حمید کا بچھایا ہوا جال نہ ہوتا تو انہیں یہ سیٹیں نہ ملتیں جن پر آج نون لیگ ہاری ہوئی نظر آتی ہے۔ جہاں تک خیبر پختونخوا کا معاملہ ہے تو جو لوگ بزنس کمیونٹی کی سیاست سے واقف ہیں وہ اس جملے سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ بلوچستان اور کے پی کے لوگ پیسے لے کر ووٹ دیتے ہیں، ادھر جنوبی پنجاب میں بھی ایسا ہی معاملہ ہے، کچھ ایسا ہی حال اندرون سندھ میں بھی نظر آتا ہے۔ البتہ مرکزی پنجاب میں لوگ پیسہ نہیں پکڑتے بلکہ انتخابی امیدواروں سے کام کروانے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہی وہ خطہ ہے جہاں سے ملکی سیاست میں تبدیلی آتی ہے،یہاں کے لوگ پیسے کا نہیں زبان کا پاس رکھتے ہیں۔ یہاں رنجیت سنگھ پیداہوتا ہے، دلا بھٹی پیدا ہوتا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کو مقبولیت ملتی ہے، نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملتی ہے اور عمران خان کو قبولیت ملتی ہے۔ جہاں تک بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو کا معاملہ ہے تو ان کو سوائے سازشوں کے کچھ نہیں ملا جس طرح ان دنوں نواز شریف کو ایسا ہی کچھ مل رہا ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ بظاہر 2024کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے مرکزی پنجاب سے کلین سویپ کیا مگر جب عمران خان کو جیل سے چھڑوانے کے لئے احتجاج کا وقت آیا تو یہ خطہ مکمل طور پر غیر متعلق نظر آرہا ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ یہاں پر 2024کے انتخابات میں منظم دھاندلی کی گئی۔ بیلٹ باکسوں سے جو نتائج برآمد ہوئے وہ عوامی امنگوں کے نہیں بلکہ جنرل فیض حمیدکی نا آسودہ آرزوؤں کے ترجمان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پنجاب نہیں سلگا، جب یہاں کے غریب ریڑھی بانوں کے روزگار کو بریک لگادی گئی ہے۔پی ٹی آئی کے پالیسی سازوں کو یہ باتیں سمجھ نہیں آرہی ہیں کیونکہ ان کی عقل ڈالر چررہی ہے۔