خدمتِ خلق اور’الخدمت‘ کاجذبہ

خدمتِ خلق اور’الخدمت‘ کاجذبہ
خدمتِ خلق اور’الخدمت‘ کاجذبہ

  

اپنی ذات کیلئے کوشش تو ہرکوئی کرتاہے،اپنے بہترمستقبل،اپنے اہل و عیال کی بہترزندگی کیلئے معاشرے کے سبھی افراد دن رات ایک کرکے زیادہ سے زیادہ پیسہ کماناچاہتے ہیں،اگر کوئی پیدل ہے تووہ سائیکل،کوئی سائیکل سوار ہے تو وہ موٹرسائیکل،کوئی موٹرسائیکل کامالک ہے تو وہ کار،کوئی کار کامالک ہے تو وہ ہوائی سفر ،اور اس پر قادر ہے تو پھر اپنے اثاثے مزید بڑھانے کی منصوبہ بندی اور محنت کرتاہے،آگے بڑھنے اور دولت کمانے کی دوڑ ساری زندگی ختم نہیں ہوتی یہاں تک کہ زندگی ہی ختم ہوجاتی ہے۔۔.

جب جسم وجاں کا رشتہ ٹوٹتاہے اوردنیاوی زندگی کے اختتام  کے بعدابدی زندگی شروع ہوتی ہے تو پھردنیا کامال ودولت سب بے فائدہ ہوجاتاہے۔تبھی تو کہتے ہیں کہ انسان کا وہی  مال اپنا ہے جو اس نے کھا لیا یا پھر اللہ تعالیٰ  کی راہ میں خرچ کیا۔۔یہ جو دوسری آپشن ہے، عمومی طورپر اس پر توجہ کم ہی ہوتی ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ممکن ہے۔

اکثریت کے درمیان کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں اس دوسری آپشن کی زیادہ فکر ہے اور وہی لوگ دنیا و آخرت میں کامیاب ہیں جو زندگی اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ہم آج کل ایسے ہی لوگوں سے مل کر یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ لوگ کیسے کام کرتے ہیں اور اس کے پیچھے کیاایسی تحریک ہے جو انہیں اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کابھلا سوچنے پرمجبور کرتی ہے???۔
یونائیٹڈجرنلسٹس فورم آف پاکستان نے ایسے لوگوں اوراداروں کو ملنے کاسلسلہ شروع کررکھاہے،یوجے ایف پی کاوفدلاہورمیں الخدمت فاؤنڈیشن کے دفتر پہنچا، مختلف شعبہ جات میں کام کے طریقہ کار کاجائزہ لیا۔اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل الخدمت فاؤنڈیشن احمدجمیل راشد اور میڈیا اینڈ ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے سینئر منیجرشعیب ہاشمی نے وفد کو بریفنگ دی۔

الخدمت فاؤنڈیشن کی مختلف علاقوں میں خدمات کے حوالے سے گفتگو کے دوران احمدجمیل راشد نے 2005کے زلزلے کے دوران ہونے والے چندواقعات کا بھی ذکر کیا جن میں سے مجھے ایک واقعہ خوشگوار حیرت میں ڈال گیا...انہوں نے بتایاکہ وہ زلزلہ متاثرین کے لیے فنڈز ریزنگ مہم چلا رہے تھے کہ داتا دربار کے قریب ایک فقیر نے اپنی ساری جمع پونجی زلزلہ متاثرین کو پہنچانے کے لیے ان کے حوالے کر دی۔اس فقیر نےکم وبیش50ہزار روپے الخدمت فاؤنڈیشن کی ٹیم کے حوالے کیے،فنڈ ریزنگ ٹیم کو یہ جذبہ دیکھ کر بہت حیرت اور خوشی ہوئی کہ ایک فقیر آدمی جو  روپیہ روپیہ جمع کرکے اپنے مالی معاملات کو چلاتاہے ، اس کے لیے یہ رقم کروڑوں روپے سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے مگر اس کا جذبہ کتنا بڑا اور دوسروں کے لیے مشعل راہ ہے کہ جب دکھی انسانیت کو ضرورت ہو تو پھر سب کچھ ان پر لٹادینا ہی انسانیت ہے۔

جو کام صاحب حیثیت کو کرنا چاہیے اور بہت سے لوگ کرتے بھی ہیں..وہ ایک فقیر نے کرکے ایسا پیغام دیاجسے سن کر انسان آبدیدہ ہوجائے۔یہی وہ جذبہ ہے جسے لے کر الخدمت فاؤنڈیشن کی ٹیم ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہے اور جہاں کہیں بھی انسانیت کو ضرورت ہے وہ اپنا کردار اداکرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔چاہے صاف پانی ہو،تعلیم ہو یا پھر صحت،آفات سے بچاؤ کاموقع ہو یا کفالت یتامیٰ سمیت دیگر سماجی خدمات ہوں،بہت سےدیگر اداروں کی طرح الخدمت نے بھی یہ عزم مصمم کررکھاہے کہ وہ مصیبت اور ضرورت کی گھڑی میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کی بھی مدد کریں گے۔
الخدمت فاؤنڈیشن کے دورے کے دوران یہ بھی معلوم ہواہے کہ جہاں لوگ دفتری امور ماہانہ تنخواہ کے بدلے سرانجام دیتے ہیں،وہی ایک بڑی تعداد رضاکاروں کی بھی ہے جو مختلف شعبہ جات میں مفت خدمات سرانجام دیتے ہیں،اس میں بزرگ،نوجوان اور طلبا بھی شامل ہیں جو صرف جذبہ خدمت کے تحت الخدمت کے دست وبازو ہیں۔


الخدمت کے دفتر جاکر ایک چیز یہ بھی  اچھی لگی کہ یہاں بالکل تاثر نہیں ملاکہ یہ کسی سیاسی جماعت کے زیراہتمام ہے یا پھر کسی مذہبی جماعت کا اس سے کوئی تعلق ہے،ایک بہترین ادارے کی طرح ہرچیز کو منظم اندازمیں دکھایاگیاہے،مختلف شعبہ جات میں تجربہ کار ٹیم جدید ٹیکنالوجی کواستعمال کرتے ہوئے کام کررہی ہےحتی کہ فاؤنڈیشن کی عمارت پر بھی شمسی توانائی کانظام نصب کیاگیاہے تاکہ دفتر میں چلنے والے پنکھے، اے سی،کمپیوٹرزاوردیگرآلات کا بل عوام کے جمع کرائے گئے فنڈسے ادانہ کرناپڑے،عوام کا پیسہ عوام پر ہی لگناچاہیے۔

الخدمت فاؤنڈیشن کے کام کو دیکھ کر لگتاہے کہ وہ زندگی اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جی رہے ہیں۔ اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسروں کے لیے جیا جائے تاکہ ہرگلی،ہرمحلے ،ہرشہر،ہرعلاقے اورہرملک میں الخدمت کاجذبہ نظرآئے۔

(بلاگر مناظرعلی مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔  ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے)

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

مزید :

بلاگ -