کئی سال تک یہ لڑائی ہوتی رہی آخر میں نصرت شاہ سے اقبال خان لودھی نے دہلی حاصل کرکے چند سال بادشاہی کی لیکن ہندوستان میں خلفشار قائم تھا جس کے سبب باہر کے غیر افغان جو تیمور کے ساتھی تھے اور اپنے آپ کو سید کہتے تھے دہلی پر قابض ہوئے ۔کچھ عرصہ بعد سلطان بہلول لودھی نے افغانوں کو متحد کرکے تخت دہلی پر قبضہ کر لیا اور بادشاہ بنا۔ اور ہندوستان میں سابقہ امن بحال کیا۔ اس کی وفات پر اس کا بیٹا سکندر بادشاہ بنا۔ اس کی وفات پر اس کا بیٹا ابراہیم لودھی بادشاہ بنا جس کے درور حکومت میں بدقسمتی سے افغانوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ وہ سازشوں کا شکار ہوگئے اور باہمی خانہ جنگیوں میں مبتلا ہوگئے جس کے نتیجہ میں بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا۔ پانی پت کے مقام پر مقابلہ ہوا اور ابراہیم لودھی ۷ رجب ۹۳۲ ہجری بروز جمعہ صبح کے وقت شہید ہوا۔ اور یوں ہندوستان پر افغانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ جو تین سو پچاس سال تک قائم رہی تھی کچھ عرصہ بعد افغانوں کو ہوش آیا اور متحد و متفق ہو کر شیر شاہ کو بادشاہ بنایا جس نے ہمایوں سے حکومت چھین لی اور افغانوں کی بادشاہت دوبارہ قائم کی۔ اس نے ایک مثالی حکومت کی لیکن زندگی نے ساتھ نہ دیا تو اس کی وفات پر اس کے لڑکے سلیم شاہ نے حکومت سنبھالی جس نے کامیاب حکومت کی لیکن اس کی وفات پر جب اس کے لڑکے نے حکومت سنبھالی تو اختلاف کے سبب اس کی حکومت کامیاب نہ ہوئی اور افغانوں میں پھر پھوٹ پڑ گئی۔ وہ متحد نہ رہ سکے اور مغل حکمراں ہمایوں کو ۱۵ سال بعد دوبارہ حکومت سنبھالنے کا موقع ملا اور یوں افغان حکومت کا ایک بار پھر خاتمہ ہوا۔
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جلد ۵ اقبال نامہ اکبری میں صفحہ ۱۰۰۵ پر درج ہے ’’بابر کے عہد سے ہندوستان کے انتظام بندوبست نے ایک نئی صورت پیدا کی لیکن شیر شاہ نے سلطنت کے بالکل صحیح اصول قائم کئے اس نے ساری قوموں اور فرقوں کو انتظام سلطنت میں شریک کرلیا یہ بیج جو اس نے بویا تھا ۔وہ اکبر کی آبیاری سے بڑا بار آور درخت ہوا۔ اکبر نے اپنی ابتدائے سلطنت میں شیر شاہ کے تمام ضوابط و سرشتے وظیفے بدستور قائم رکھے۔ شیر شاہ و سلیم شاہ کی قابلیتوں اور لیاقتوں کا شہنشاہ اکبر ایسا قاتل تھا کہ ان کو ملائک السلاطین کہتا تھا گو یہ شیر شاہ نے اس کے باپ ہمایوں کو شکستیں دیکر ہندوستان سے نکالا تھا۔
افغان اولیاء
افغانوں کی ہندوستان پر حکومت کے دوران وقتا فوقتا کئی علماء مشائخ اور اولیا کرام ہندوستان میں وارد ہوتے رہے اور اشاعت و تبلیغ کے لیے انہوں نے نمایاں کام کیا۔ جس طرح ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہندوستان میں دہلی کے مقام پر سب سے اولین مسجد کی بنیاد شہاب الدین محمد غوری نے رکھی تھی۔ اسی طرح دین اسلام کی ازاعت کا کام بھی اسی افغانی دور میں ہوا اور دین اسلام ان اولیاء کرام کی تبلیغ و اشاعت کی وجہ سے پنجاب ، ہندوستان اور بنگال میں پھیلتا چلا گیا۔ یہ حضرات تقریباً سبھی افغان تھے۔ ادارہ اخبار وطن لاہور نے اس دور کے تمام علماء مشائخ اور اولیاء کرام کے ان کارناموں کو کتابی شکل میں افغان اولیاء کے نام سے دو جلدوں میں شائع کیا تھا۔ ان کی زیادہ تر زیارتیں لاہور اور دہلی میں اور باقی ہندوستان کے کونہ کونہ نیز بنگال میں کوئی جگہ ان سے خالی نہیں ہے مثال کے طور پر دو ایک کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔
شیخ فرید الدین گنج شکر کا جدا اعلیٰ فرخ شاہ غوری کابل کے حاکم تھے۔ ان کے پوتے شیخ کمال الدین بن سلیمان سلطان شہاب الدین محمد غوری کے عہد سلطنت میں کابل سے ملتان آئے اور بادشاہ نے قصبہ کھوتوال جو ملتان کے قریب ہے عنایت کیا اور کمال الدین بن سلیمان نے وہاں سکونت اختیار کی اور فرید الدین یہیں پیدا ہوئے جن کا شجرۂ نسب یوں ہے۔ ’’فرید الدین بن کمال الدین بن سلیمان بن فرخ شاہ غوری۔‘‘
مجدد الف ثانی شیخ سرہندی کابلی الاصل تھے جن کا اصلی نام شیخ احمد تھا۔ کابل میں پیدا ہوئے۔ دینی تعلیم انتہائی درجے تک حاصل کی تو ہندوستان آکر سر ہند میں سکونت پذیر ہوئے۔ مریدوں کا جمگٹھا رہتا تھا اور تعلیم و تدریس کے علاوہ دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں ہمہ تن مصروف رہے۔ یہیں وفات پائی اور دفن ہوئے۔ ان دو حضرات کی زیارتوں پر زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے اور اظہر من الشمس مزید کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے۔‘‘
بختیار کاکیؒ
بختیار کاکی کا نام قطب الدین تھا،ساکن اوچ علاقہ خراسان پیدائش ۵۷۵ ھ وفات ۶۳۵ھ
جو مذکورہ بالا شیخ فرید الدین کے پیر و مرشد تھے۔ وہ بادشاہ التمش کے عہد میں دہلی میں مقیم رہے تمام عمر دین اسلام کی تبلیغ کے لئے وقف کر دی تھی اور دہلی میں ہی وفات پا کر وہیں مدفون ہوئے۔
ان کے نماز جنازہ کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ میرے جنازے کی نماز وہ پڑھائے جو حرام سے ہمیشہ بچا رہا ہو۔ جس نے فرض نماز برابر جماعت کیساتھ پڑھی ہو اور اس سے پہلی تکبیر کبھی نہ چھوٹی ہو اور بھی ہر قسم کے برئے اعمال و بدفعلی سے پاک ہو۔ چنانچہ سلطان التمش ان شرائط پر پورے اترے اور انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔ (بحوالہ تاریخ ابراہیم بٹنی) اس سے افغان سلاطین دہلی کے اعمال اور دین داری کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ اب افغانوں کی قائم مقام مغلیہ سلطنت اور ان کے کردار ملا حظہ فرمائیں۔
مغل: بان لکھتا ہے ہندوستان کی سلطنت مغلیہ کی ابتدا اس سے ہوئی جس وقت بابر نے لودھی کے افغانی خاندان کو شکست دے کر آگرہ پر قبضہ کر لیا۔ بابر آگرہ ہی میں ہندوستان اور کابل کا بادشاہ مرا۔ اس ک بیٹے ہمایوں کو حکومت قائم کرنے کے لیے بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اورمغلوں کی حکومت اس وقت قائم ہوئی۔ جب کہ اس خاندان کا تیسرا بادشاہ اکبر ۱۵۵۶ء میں تخت پر بیٹھا اور پچاس سال تک حکومت کرتا رہا۔ اس بادشاہ نے جو تاریخ عالم کے بادشاہوں میں ایک بہت بڑا فرمانرواگزرا ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کو ایک ہی نظر سے دیکھا۔ اس نے فاتح و مفتوح میں شادی بیاہ کو مروج کیا اور خود راجپوت راجاؤں کی لڑکیوں سے شادی کی۔ اسلام اور براہمنی مذہب کو ملا دینے کی جو کوشش اس نے کی اس میں وہ کامیاب نہ ہوا۔ لیکن ان دونوں اقوام کی طرز تعمیر کو ترکیب دینے میں اسے پوری کامیاب حاصل ہوئی۔ مغلوں کی اصلی حکومت تمام ملک پر دو سو سال تک رہی اور اس زمانہ میں بھی دکن میں کئی اسلامی حکومتیں علیحدہ قائم رہیں۔ مغلیہ حرم سلاطین مغلیہ کے دربار میں عورتوں کا بڑا درجہ تھا۔ ان بادشاہوں نے راجپوت شہزادیوں کے ساتھ شادیاں کرکے اس امر کی کوشش کی کہ دونوں اقوام آپس میں گھل مل جائیں اور انہوں نے نہ خود یہ طریقہ اختیار کیا بلکہ اپنے ارکان دولت کو بھی اس کی ترغیب دی۔ بادشاہی محل سراؤں میں عورتوں کی تعداد غیر محدود تھی کیونکہ یہ سلاطین اس خاص مسئلہ میں نیز بہت سے اور مسائل میں بھی شرع محمدی کے پابند نہ تھے۔ مثال کے طور پر شاہ جہان کے حرم میں دو ہزار بیبیاں تھی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس تعداد کو وہ کافی نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ اپنے امراء کی بیبیوں میں خوبصورت عورتوں کے جویا(متلاشی) رہتے تھے۔‘‘ (تاریخ تمدن ہند مصنف فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاؤلی بان حصہ چہارم باب پنجم فضل دوم اوردو مترجم سید علی بلگرامی مطبوعہ حیدر آباد دکن)
واضح ہو کہ اورنگ زیب کے بعد مغلیہ خاندان کے زوال کے وقت جب احمد شاہ ابدالی افغانستان میں برسر اقتدار ہوا تو وہ آکر ان مرہٹوں کے جبروستم سے خلاصی دے کر پھر ان کو دوبارہ تخت ولی پر بٹھائے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
احمد شاہ ابدالی
احمد خان جو بعد میں احمد شاہ ابدالی سے مشہور ہوا۔ وہ زمان خان بن دولت خان صدوزئی، ابدالی، ترین ، سرا بنی حاکم ہرات کا بیٹا تھا۔ زمان خان کی وفات پر اس کی چھوٹی بیوی جو حاملہ تھی۔ اپنے بھائی جلال خان کے پاس ملتان آگئی۔ یاں اس کے بطن سے ۱۷۴۲ء میں احمد شاہ ابدالی پیدا ہوا جو سات سال تک ملتان میں رہا اور بمقام قندھار ۱۷۴۷ء میں بادشاہ منتخب ہوا اور ۱۷۷۳ء میں بقضائے الٰہی بمقام قندھار وفات پا کر وہیں دفن ہوا۔ غفر اللہ لہ احمد شاہ ابدالی ایک بڑا عالم، فاضل، ادیب اور اچھا شاعر بھی تھا۔ ان کا یہ شعر جو پشتو زبان میں ہے۔ اس کے دیوان سے یہاں درج کرتا ہوں۔
دحمید او و فرید دور بہ بیاشی
پنستا نہ کہ کری دتورو کزارونہ
(حمید اور فرید کا دور پھر ہوگا اگر افغان بہادری کے جوہر دکھائیں)
حمید سے مراد حمید لودھی ہے جو ۳۷۳ھ میں ملتان کا حکمران ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا نصر اور پھر اس کا بیٹا ابوالفتح داؤد بادشاہ بنا۔ فرید سے مراد شیر شاہ سوری ہے جس نے مغل حکمران ہمایوں کو شکست دی تھی اور اس کے بعد اس کا بیٹا اسلام شاہ سوری ہے جس نے مغل حکمران ہمایوں کو شکست دی تھی اور اس کے بعد اس کا بیٹا اسلام شاہ بادشاہ بنا۔
حمید نسلاً لودھی افغان تھا اور فرید سوری افغان اور دونوں نے سر زمین ہندوستان پر اپنی بہادری اور جرات سے حکمرانی کی تھی۔ احمد شاہ کا کہنا ہے کہ اگر آج بھی افغان حمید اور فرید کی طرح بہادری اورجرات کا مظاہرہ کریں تو وہ گزشتہ روز پھر آسکتا ہے۔
حمید اور فرید کی حکمرانی نے حالات افغانوں کی تاریخ کا ایک زرین باب ہے اور احمد شاہ ابدالی نے ان افغان مشاہیر کے زرین دور کو یاد کرتے ہوئے خود ہی آگے بڑھ کر تلوار کے جوہر دکھائے تھے۔(جاری ہے )
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔