کتابیں اور ہماری زندگی!
کتاب، مکتب اور مکتبہ یہ تینوں چیزیں قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ ہر قسم کی ترقی کے دروازے انہیں کنجیوں سے کھُلا کرتے ہیں۔ یہ تینوں حصولِ علم و تعلیم کے بنیادی ذرائع ہیں۔ معروف امریکی مؤرخ Barbara Tuchman نے کتابو
ں کو تہذیب کے Carriers قرار دیا ہے اس کے نزدیک کتابوں کے بغیر تاریخ گونگی، ادب بے بہرہ، سائنس لنگڑی اور خیالات اور سوچیں ساکت ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کتابوں کے بغیر انسان ادھورا ہے۔کتاب ہی کی بدولت ہمیں ان بزرگوں کے حالات کا علم ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں کتابوں کو ہی اوڑھنا بچھونا بنایا تھا اور ہمارے لیے علم کی لازوال دولت محفوظ کر گئے جس سے آج بھی زمانہ مستفید ہو رہا ہے۔
اچھی کتابیں زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ادب انسانی مزاج میں نرمی پیدا کرتا ہے جس سے ذہن پر خوشگوار اور صحت مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مطالعے سے انسان کے اندر مثبت اور مضبوط سوچ پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے آج کے دور میں ماہرین نفسیات بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل کے تناظر میں بچوں کے لیے کتابوں کا مطالعہ لازمی قرار دے رہے ہیں تاکہ بچے فضول قسم کے مشاغل سے محفوظ رہ سکیں۔ کتاب ہماری تنہائی کی ساتھی ہے جب رنج و الم کے گہرے بادل ہماری زندگی کو تاریک کردیتے ہیں تو یہ روشنی کی کرن بن کر ہماری ڈھارس بندھاتی ہے۔
اگرچہ موجودہ دور میں کتابوں کے ای ورژن بھی آگئے ہیں اب ہم کہیں بھی اپنے موبائل پر کتابیں پڑھ سکتے ہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم کتابوں کو سن بھی سکتے ہیں۔ دورِ جدید میں نئے نئے ذرائع کے باوجود کتاب اور طالب علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے ایسا جیسے روح اورجسم کا۔ مگر کچھ عرصے سے یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں نوجوان کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ کتاب پڑھنے اور خریدنے کے رجحان میں کمی کی وجہ صرف انٹرنیٹ اور موبائل ہی نہیں بلکہ دوسری بڑی وجہ کتابوں کا حد سے زیادہ مہنگا ہونا بھی ہے۔ بعض نجی پبلشرز کی جانب سے شائع ہونے والی کتب کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ایک غریب یا متوسط طبقے کا شہری معیاری کتاب خریدنے سے قاصر ہے۔ حکومت اگر ملک میں جہالت اورانتہا پسندی سے نجات چاہتی ہے تو اسے علم و ادب کے شعبے میں خصوصی توجہ دینا ہو گی اس سلسلے میں کاغذ اور پرنٹنگ میٹریل بھی سستاکرنا پڑے گا تاکہ ہر معیاری کتاب عام لوگوں کی دسترس میں ہو کیونکہ کتابیں سستی ہوں تو خریدار بھی بڑھیں گے۔
مانگ کر کتاب پڑھنا بُری بات نہیں لیکن خرید کر پڑھنا بہت اچھی بات ہے۔ کتاب بہترین دوست ہے اور دوست اگر بہت امیر ہو جائے تو دوستی کا اصلی مزہ برقرار نہیں رہتا۔ اسی طرح اگر کتاب بھی مہنگی اور قاری کی قوتِ خرید سے باہر ہو جائے تو وہ بھی دوست نہیں رہتی۔ اسی لیے بعض سرکاری و غیر سرکاری پبلشرز کی جانب سے عوامی سطح پر کتب بینی کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں وقتاً فوقتاً کتاب میلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ داتا کی نگری لاہورعلمی و ادبی اور تاریخی ہر اعتبار سے مالامال ہے گزشتہ دنوں ایکسپو سنٹر، جوہر ٹاؤن لاہور میں 202 بک سٹالز پر مشتمل 35 ویں سالانہ چار روزہ ''لاہور انٹرنیشنل بک فیئر'' کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان کے سرکاری و نجی اداروں نے لاکھوں روپے خرچ کر کے ایک ہی چھت تلے قدیم و جدید علمی خزانے کا نایاب ذخیرہ مہیا کرتے ہوئے چار روز تک لاہور کے منظر نامے کو کتابوں کے دلفریب رنگوں اور علم و دانش کی خوشبو سے مہکائے رکھا۔اس کتاب میلے میں محبانِ کتاب کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔لوگ اپنے بیوی بچوں اور دوستوں کے ہمراہ جوق در جوق کتاب میلے کا رخ کرتے رہے۔ مختلف شہروں سے سکولز، کالجزاور یونیورسٹیز کے اساتذہ، طلباء اور علم و ادب کے شہ سواروں نے بھر پور شرکت کی اور خوب خریداری کی۔
مطالعہ کے لیے کتب کا انتخاب ایک اہم مسئلہ ہیاس کے لیے بہت احتیاط اور غور وفکر کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح ایک نیک، باکردار اور اچھے چال چلن کا انسان اپنے دوست کو برائی سے بچالیتا ہے بالکل اسی طرح اچھی کتابیں دل و دماغ اور عادات و اطوار پر اچھا اثر ڈالتی ہیں جبکہ مخربِ اخلاق اور بیہودہ کتابیں برے دوستوں کی طرح برائی کی طرف مائل کرتی ہیں اور اس طرح قاری کی اخلاقی موت کا باعث بنتی ہیں۔
عوامی سطح پر کتب بینی کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں بک فیسٹیولز کا انعقاد کرانا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ کتابوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے لیے فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں اور عاداتِ مطالعہ کے سلسلے میں عوامی اور حکومتی سطح پر تحائف کی صورت میں کتاب پیش کرنے کے کلچر کو فروغ دینا چاہیے تاکہ لوگوں میں مطالعے کا شوق بڑھے۔
یہ عظیم کتابیں ہمارا سرمایہ تھیں اور ان کا برطانیہ منتقل ہونا یقیناً ہمارے لیے دکھ کی بات ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان کی قدر نہیں کی۔ اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یہ کتابیں وہاں محفوظ ہو گئیں ورنہ تو کب کی صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہوتیں۔ آج برٹش لائبریری کے ڈیجیٹلائزیشن پروجیکٹ کے تحت ان نادر و نایاب کتب کو سکین کر کے انٹرنیٹ پر ڈال کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہے اور کوئی بھی شخص گھر بیٹھے ان سے بھرپور استفادہ کر سکتا ہے۔
جن اقوام میں کتاب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعے کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل ہی رک جاتا ہے۔ کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں، بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفرہوتی ہے۔ مطالعہِ کتب ہی سے انسان اپنے اخلاق اور معیار زندگی کو بلند کرسکتا ہے کیونکہ کتب بینی زندگی کے بہت سے اسرار و رموز کے ساتھ ہمیں اپنی حقیقی منزل سے بھی روشناس کرواتی ہے۔اگر ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں توہمیں کتاب سے اپنا رشتہ مضبوط کرتے ہوئے اپنے بچوں کو اس عظیم دوست اور راہنماسے روشناس کروانے میں اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔
ایکسپو سنٹر، جوہر ٹاؤن لاہور میں 202 بک سٹالز پر مشتمل 35 ویں
سالانہ چار روزہ”لاہور انٹرنیشنل بک فیئر“ کا انعقاد کیا گیا