ریاستوں کی جغرافیائی حدود تغیر پذیر ہیں

ہم سے بہتر کون جانتا ہے کہ جغرافیائی حدود مستقل نہیںہوتیں اور ممالک کا وجود تغیر و تبدل سے گزرتارہتا ہے ۔ 1947میں وجود میں آنے والا پاکستان آج موجود نہیںہے اس کا ایک حصہ جداہوکر ایک الگ ملک بن چکا ہے۔ مَیں نے ستر کی دھائی میں ماسکو میں خدمات سرانجام دی تھیں ۔ اُ س وقت ایسا لگتا تھا کہ دنیا میں کوئی ملک سوویت یونین سے زیادہ مستحکم اور مضبوط نہیں ہے۔ اس عقربی دیوہیکل طاقت کے رعب و دبدبے کا اثر بہت دور تک محسوس ہوتا تھا۔ اُس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ چند برسوں کے بعد سٹالن ازم کے آہنی ہیبت ڈھانچے میں دراڑیں پڑ جائیںگی اور یہ ملک آزاد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل ہو جائے گا۔
دیوار ِ برلن کے انہدام سے پہلے جرمنی دو ممالک پر مشتمل تھا مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی۔ آج یہ ایک ملک بن چکا ہے۔ اُس وقت چیکو سلواکیہ ایک ملک تھا، اب اس کے دو حصے ہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں ایک بڑی تعداد میں اسکاٹ باشندے آزادی کے لئے جد وجہد کررہے ہیں اور 2014ءمیں اس مسئلے کے تصفیے کے لئے ریفرنڈم کا انعقاد ہونے والا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے ایسے لگتا تھا کہ امریکہ کو اب دوام حاصل ہے، کم از کم اگلے چند سو سال تک۔ گزشتہ عشرے کے اختتام پرکچھ صاحب ِ بصر سکالرز نے اعلان کیا کہ تاریخ ِ انسانی کا خاتمہ قریب ہے۔نظر آتا تھا کہ امریکی جاو وجلال کا اس عالم ِ فانی میں اب کوئی حریف نہیںہے، تاہم وہ خرابی جو تعمیر ، چاہے کتنی ہی ارفع کیوںنہ ہو، میں مضمر ہوتی ہے، نے یہاں بھی اپنے غیر محسوس اثرات ہویدا کرنا شروع کر دیے۔ اس خرابی کا سب سے پہلا اظہار غرور ، جو تفہیم پر قدغن لگاتا ہے، کی صورت میںہوتا ہے امریکی کہنا شروع ہو گئے کہ ”حقیقت وہ ہے جو امریکہ کی خواہش کے مطابق ہو۔“ آج امریکی طاقت ہماری نظروںکے سامنے روبہ زوال ہے۔ اس کی وجہ کوئی اور نہیں، خود امریکی ہی ہیں صدر بش نے بہت ”سوچ سمجھ “ کر عراق اور افغانستان مہم جوئی کا قصد کیا تھا۔
گزشتہ ایک عشرے سے تہذیبوں کے ٹکراﺅ کی بھی بات کی جاتی رہی ہے ، اور عالمی واقعات میںاس کی کچھ جھلک دکھائی بھی دی لیکن اس طرح نہیں جیسے امریکہ کا خیال تھا۔ کیا امریکی ،طالبان یا القاعدہ کی کاروائیوں کو تہذیبوںکے ٹکراﺅ کا عمل تو نہیں سمجھ رہے؟دس سال پہلے میں نے چکوال میں جماعت الدعوة کی ایک مسجد (جومیرے گھر سے دور نہیںہے)کے خطیب کو یہ کہتے سنا کہ امریکہ کو آخر کار افغانستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اُ س وقت میں نے اسے ایک جوشیلا خطاب سمجھا ، لیکن آج امریکیوں کا انخلا شکست کا ہی مترادف نظر آتا ہے۔ میںنے حال ہی میں نارمن ڈیویز کا طویل جائزہ ،”Vanished Kingdoms“، جس میں ریاستوں اور اقوام کے عروج و زوال کا ذکر ہے، پڑھا ۔ میرا خیا ل ہے کہ یہ کتاب ہر پاکستانی ،جو اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے، کو پڑھنی چاہئے۔ اس کے مطالعے سے سبق یہ ملتا ہے کہ تاریخ ترقی کو نہیں ، تبدیلی کو یقینی بناتی ہے۔ تاریخ کے اس چلتے چکر میںکسی کو ثبات حاصل نہیںہے، سلسلہ ِ روزو شب کے طویل تعدد میں اقوام بنتی بگڑتی رہتی ہیں، پرانی اقوام شکست و ریخت کا شکار ہو جاتی ہیں، نئی بنتی ہیں اور وقت کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔ ہیراکلیٹس، ہیگل اور حتیٰ کہ مارکس کے نظریات آج درست معلوم ہوتے ہیں۔
اگر آج اُن اقوام اور ریاستوں ، جو صدمات کو جھیلتی ہوئی کمزور ہورہی ہیں ، یا مختلف وجوھات کی بنا پر اُ ن کے وجود کو خطرہ ہے، پر اس نظریے کا اطلاق کیا جائے تو ایک پریشان کن تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے، کیونکہ مختلف ممالک کی موجودہ جغرافیائی سرحدیں تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم مستحکم ریاستیں اس چیلنج سے خائف نہیںہیں۔ کینیڈا کو کیوبک کی آزادی اور برطانیہ کو اسکاٹ لینڈ کی آزادی پر ریفرنڈم کرانا پڑ سکتا ہے لیکن پرا عتماد معاشرے اس بات سے خائف نہیںہیں، لیکن جب بلوچ بھائی ایسی باتیںکرتیں ہیں جو ہمارے کانوں کے لئے اجنبی ہیں ، تو ہمیں آسمان ٹوٹتا دکھائی دیتا ہے، جب کشمیری باشندے یہی بات کرتے ہیں ، تو بھارت کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔ زیادہ آبادی اور جغرافیائی حوالوںسے قطع نظر، ہم اعتماد کی دولت سے تہی داماں اقوام ہیں۔ اگر وسیع تر عالمی افق کو بھول کر اپنے داخلی مسائل ، جو زیادہ تر ہم نے برضا ورغبت، خود ہی پیدا کیے ہوئے ہیں، کو دیکھیں تو یہ بھی کم نہیںہیں۔ ماضی کے مسائل میں جکڑی اور حال کے ربط سے عاری، پاکستانی سوسائٹی خودکشی کی طرف بڑھ رہی ہے اور یہ صرف فرقہ واریت یا تشدد ہی نہیںہے جو اس کو شکست وریخت سے دوچار کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ذہن بند ہو چکے ہیں اور ہم کسی اور دنیا کے باسی ہیں۔ کچھ سوچ سمجھ رکھنے والے افراد کو چھوڑ کر، معاشرے کے زیادہ تر طبقے ، جس میں ارباب ِ حکومت، سول اور دفاعی ادارے بھی شامل ہیں، اس سوچ سے عاری ہیں۔آج ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے اور ہم ان مسائل سے بے خبر نہیںہیں۔ ہم جانتے ہیںکہ دھشت گردکیا چاہتے ہیں، اُن کا اصل ہدف کیا ہے ؟لیکن کیا ہم اس کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں؟کیا مستقبل پر ہماری نظر ہے؟کیا ہم اُس وقت کے بارے میں سوچنے کی زحمت کررہے ہیںجب امریکی افغانستان سے چلے جائیں گے تو تمام جہادی قوتیں یک جا (یک جان تو ہیں ) ہو کر اپنے مقصد ، جو کسی سے بھی ڈھکاچھپا نہیںہے، کے لئے میدان میں ہوںگی؟
مَیں نے 1974ءمیں پہلی مرتبہ کابل کا دورہ کیا کیا خوبصورت شہر تھا! پھر چار سال بعد 1978ءمیں، مَیں دوبارہ وہاں گیا۔ اُس وقت ترکئی کی حکومت کا تختہ الٹا جا چکا تھا۔ کابل ابھی بھی خوبصورت تھا لیکن اس پر تاریک سایوں نے ڈیرہ ڈالنا شروع کر دیا تھا، لیکن جب 1989ءمیں سوویت فوج یہاںسے گئی تو یہ ایک مختلف جگہ تھی۔ پرانا افغان طبقہ ¿ اشرافیہ ختم ہو چکا تھا ۔ کچھ جان بچا کر دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ لے چکے تھے۔کیا 1930ءمیں ہندوستانی اقوام 1947ءمیں پنجاب میں ہونے والی خونریزی کی تفہیم کرسکتی تھیں، یا 1947ءیا چند سال بعد1965ءمیں کوئی بھی اس بات کا تصور کر سکتا تھا کہ1971ءمیں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن جائے گا ؟لیکن تاریخ کے یہ ڈرامائی نشیب و فراز ہماری نظروںکے سامنے سے ہی گزرے ہیں۔مَیں اور میری عمر کے افراد قیام ِ پاکستان کے بعد کی پہلی نسل میں سے ہیں ۔ ہم نے جس پاکستان میں ہوش سنبھالا ، وہ آج کے پاکستان سے بہت مختلف تھا۔ مَیں ناسٹل جیا کا شکار نہیںہوں ، لیکن کراچی، لاہور اور پنڈی ایسے شہر نہیں تھے جو ہمیں آج نظر آتے ہیں۔ اُس وقت کی فضا گناہوںسے اس قدر آلودہ بھی نہ تھی۔ مذہب سے عقیدت کا پہلو بھی تھا لیکن وہ معاشرہ کسی قدر سیکولرنظریات کا حامل تھا اور منطق اور حقائق سے آنکھیں چرانا ابھی ہم نے نہیں سیکھا تھا۔اُس وقت بھی دفاعی ادارے طاقتور تھے لیکن معاشرہ گھٹن کا شکار نہ تھا۔ تاہم اُس پرسکون فضا میں بھی کچھ پریشان کن شواہد دکھائی دے رہے تھے جماعت ِ اسلامی تعلیمی اداروں پر قابض ہوکر نوجوان طلبہ کو سخت گیر رویوں اور عدم برداشت کے طرف مائل کر رہی تھی۔ پھر ہم سوچے سمجھے بغیر 1965ءکی جنگ میںکود پڑے(اس جنگ کا اس کے سوا اور ہمیںکوئی فائدہ نہ ہوا کہ میڈم نورجہاںکے لافانی قومی نغمے وجود میں آگئے)۔ ہم وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوںسے بے خبر رہے یہاںتک کہ مشرقی پاکستان نے پاکستان کے نظریاتی پیمانے، جو تنگی کی طرف مائل تھا، سے نکلنے کا سوچنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد ہم نے ”پیچھے “ مڑکے نہیں دیکھا اور وہ راہ اپنالی جس پر نوری تو کیا ناری مخلوق بھی ڈرکے مارے قدم نہ رکھے۔ مذہب کو جس پیرائے میں ہم نے اپنایا، تاریخ ِ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصرہے۔ یہ نہیں کہ دنیا میں اسلامی حکومتیں نہیںہیں، بہت سی ہیں لیکن اسلام نہ تو ایران کے لئے کسی مسئلے کا باعث ہے، نہ یو اے ای کے لئے۔ دُبئی اسلامی ریاست کے خدوخال کے اندر بڑی فراخدلی سے موجود ہے۔ لیکن پاکستا ن کے ساتھ کیا مسلہ¿ ہوا ہے ؟ہم کس میڈوسا کے منہ لگ گئے ہیں ؟ہو نا تو یہ چاہئے تھاکہ پاکستان کا وجود مشرق و مغرب کے سنگم ہوتا، اس کے جغرافیائی پیمانوں سے ایک نیا دور وجود میں آتا ، اس کے ساحل سمر قند کی سنہری سڑک کا نکتہ ¿ آغاز ہوتے ، اور جدید اسلام کے زریں اصولوں پرقائم ایک ریاست اپنی تخلیق کے مقصدکی گواہی دیتی تاکہ دوسروںکے لئے ایک روشن مثال ہوتی لیکن افسوس ، یہ ملک اس راہ پر نہ چل سکا۔ صد افسوس کہ یہ ملک جدید اسلام کی تجربہ گاہ تو نہ بن سکا، بلکہ سی آئی اے اور ایک برادر اسلامی ملک کی جہادی کیمسٹری کی نذر ہو گیا۔ کچھ ریاستیں خوش قسمت، جبکہ کچھ بدقسمت حالات کا شکارہوتی ہیں لیکن اتنی خراب قسمت !
اگر ہم مشرق و مغرب کے ملاپ کا باعث بننے کی بجائے تباہی کے دھانے پر پہنچ گئے ہیں تو کیا آج واپسی کا کوئی راستہ ہے ؟ کیا ہم ابھی بھی سمت تبدیل کرتے ہوئے اس کھائی میں گرنے سے بچنے کی کوشش نہیں کر سکتے ؟طالبان مسائل کے انبار کی محض علامت ہیں ، زبوں حال معیشت بھی خرابی کے صرف ایک پہلو کو آشکار کرتی ہے، چنانچہ اب ان ظاہری علامتوںکی بجائے اصل مرض کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم مرض کو سمجھیں اور اس کے علاج کے لئے مخلص ہوں، جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ابھی ہماری سوچ کا قبلہ ہی درست نہیں۔ اس مرض کا علاج مذہبی حدت کم کرنے میں ہے۔ ابھی ہم اس ریاست کو سیکولر قرار نہیں دے سکتے، کیونکہ اس سے غیر ضروری رد ِ عمل شروع ہو جائے گا۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ اگر ہم انتہا پسندی اور طالبان کے خطرے سے نمٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں ماضی کے مفروضوں سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔
ہمارے دفاعی ادارے ماضی کے اسیر ہیں۔ انہیں ان تصورات سے آزادی چاہئے۔ سیاسی جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ نارمن ڈیویز کی کتاب کا مطالعہ کریں ۔ یہ کتاب انہیں بتائے گی کہ ریاستیں کسی خود کار عمل کے تحت ہمیشہ اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے نہیں بنی ہوتی ہیں۔ عام پاکستانیوں میں نئی سمت قدم بڑھانے کا رجحان موجود ہے لیکن کیا کوئی اُنہیں راستہ دکھا سکتا ہے ؟اقبالؒ اور جناحؒ اپنے دور کے نابغہ ¿ روزگار افراد تھے ، تاہم ہر دورکے تقاضے اور چیلنج الگ ہوتے ہیں۔ آج ہمیں ایک فکری نشاة ثانیہ کی ضرورت ہے تاکہ ہم طرز ِ کہن پر اَڑنے اور آئین ِ نو سے ڈرنے کی بجائے جدید خطوط پر سوچنا سیکھیں۔ اگر پاکستان کی تخلیق کا کوئی مقصد تھا ، تو صرف اسی صورت میںہی پورا ہو سکتا ہے۔
حرف ِ آخر: ہوگو شاویز اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ عظیم سپاہی تھے اور جس طرح اُنہوں نے استعماری قوتوں کو چیلنج کیا، وہ انقلابی قوتوں کے جذبوں کو مہمیز دیتا رہے گا۔ لاطینی امریکہ میں اُن کے پائے کا کوئی نہیںہے۔ ہمارے پاس بھی انقلابی ہیں لیکن وہ صرف مختلف لبادے بدل بدل کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔