پیروڈی یعنی استہزاء

فارسی میں ایک ضرب المثل ہے کہ" بے حیا باش ہر چہ خواہد کرد "۔۔۔ بے حیاء بن جا پھر جو چاہے کر گزر، اخلاقیات سے تو خیر ہمیں کبھی کوئی علاقہ رہا ہی نہیں، پر اب ہم اہانتِ صریحہ پر بھی اُتر آئے ہیں۔ کامیڈی شوز کے نام پرہم نے اپنے لیجنڈز کی توہین کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اس کے لئے میں صرف ایک اصطلاح استعمال کر سکتا تھا جو یہاں بیان کرنا مناسب نہیں کیونکہ اْردو کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ کوئی باقاعدہ زبان نہیں، بلکہ مختلف زبانوں کا مربہ ہے، چنانچہ کوئی موزوں اصطلاح ڈھونڈنے کے لئے عربی کا رخ کرنا پڑتا ہے یا پھر فارسی کا، پچھلے دنوں نجی چینل کے ایک کامیڈی شو میں معروف گائیک اور فنِ موسیقی کے شہنشاہ مہدی حسن خان صاحب مرحوم کی لچر پیروڈی دیکھ کر مجھے بے انتہا تکلیف ہوئی، تھیٹر کے ناہنجاروں کو لاکھوں روپے پر تعینات کرنے والے بے حس سرمایہ داروں کو علم، تہذیب اور اخلاقیات سے کوئی مطلب نہیں، مطلب ہے تو صرف کسی طور سے ٹی آر پیز بڑھا کر پیسہ کمانے سے، علم و دانش کے نام پر اخلاقیات سے کھیلنے والے دانشوروں کو بھی شرم آنی چاہیے کہ وہ اس معاشرے میں نئی نسل کو کیا پیغام دینے جارہے ہیں کہ اپنے قومی اثاثوں کے ساتھ تم بھی مستقبل میں کھلواڑ کرتے رہنا، ہر جمہوری ریاست میں اس ملک کا میڈیا اپنے حکمران اور لیجنڈز کو دنیا کے سامنے ایک ماڈل بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ اس کا اثر پوری دنیا پر قائم ہو، مگر ہمارے ہاں ہمارا ہی میڈیا ٹاک شوز میں مخالف سیاسی لیڈروں کو بلوا کر ان کو آپس میں لڑواتا ہے اور پھر پوری دنیا کو اپنے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل ہونے کا تاثر دیتا ہے کہ ہم تو ایسے بدتہذیب ہیں کہ جس تھالی میں کھارہے ہیں، اسی میں چھید کر رہے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کی میڈیا پر پابندی بہت معنی خیز تھی، مگر اس کے بعد پھر کسی میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ میڈیا کی خیر خبر لے سکے، پیمرا سورہا ہے اور حکمران اس قدر پاور فل نہیں کہ میڈیا کو لگام دے سکیں۔ اظہارِ رائے انسان کا فطری حق ہے، مگر کردار کشی اور استہزاء کو قطعاً اظہارِ رائے میں شمار نہیں کیا جا سکتا، بولنے پر کوئی پابندی نہیں، کچھ بھی بولا اور لکھا جاسکتا ہے، مگر تہذیب کے دائرے میں، حمقاء کے اژدہام کو علم و دانش کے اسباق پڑھانے والے نام نہاد دانشوروں کو ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ مزاح اور استہزا میں کیا فرق ہے؟ ہمارے مشفق اْستاد اور جید مفسرِ قرآن حضرت اصلاحی مرحوم فرمایا کرتے کہ" علم جس قدر بھی راسخ کیوں نہ ہو جائے، کبھی شخصیت پر تنقید یا تبصرہ مت کرنا ،کیونکہ بحث ہمیشہ نظریات پر کی جاتی ہے، شخصیات پر نہیں"۔۔۔ مگر افسوس کہ اتنی سادہ سی بات ہمارے دانشور حضرات نہیں سمجھ سکے۔ مزاح کا قدیم اساسی اصول تمثیل سے وابستہ رہا ہے، مگر چونکہ ہم مزاح کی مبادیات سے ناآشنا ہیں۔ اس لئے ہم مذاق اْڑانے کو مزاح سمجھتے ہیں۔ انگریزی کی اصطلاح پیروڈی کا مطلب ہی استہزاء ہے، کسی کی نقل اتارنا اخلاقی جرم ہے، چاہے وہ مثبت انداز میں ہی کیوں نہ ہو، چہ جائیکہ ایسی شخصیات کی نقل اتارنا جو ملک و قوم کے لئے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتی ہوں۔ کسی شخصیت کی جسمانی حرکات کی نقل اتارنا اگر توہین نہیں تو کیا خراجِ تحسین ہے؟ پس پیروڈی کے نام پر جس کا چاہیں کچومر نکال کر رکھ دیں، کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ یہ تو کامیڈی ہے۔۔۔ تف ہو ایسی کامیڈی پر، صحتمند مزاح ایک لطیف صنفِ ادب ہے، دنیا کی ہر زبان میں اس صنف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، مگر آج کل پیروڈی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا صنفِ ادب سے کوئی تعلق نہیں، یہ نرا استہزاء ہے۔
عقل کے پیادوں کو کوئی یہ بتائے کہ ہر اہم شخصیت سے انسانوں کے جمِ غفیر کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں، چنانچہ کسی اہم شخصیت کی نقل اتارنا اس کے ارادتمندوں کے لئے سوہانِ روح ہو سکتا ہے، چونکہ ہم تہذیب و احساس سے عاری ہوچکے ہیں، اس لئے ہمیں کسی کے جذبات مجروح ہونے کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں انسانی معاشروں میں عدم برداشت کو پروان چڑھانے والے بنیادی اسباب میں سے ایک یہ بھی بنیادی سبب ہے کہ انسان اپنے ہی جیسے دیگر انسانوں کے جذبات کا احترام نہ کرے۔ چلیں پھر اگر ہٹ دھرمی کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو پھر کم از کم مظاہرہ یہ ہے کہ انصاف سے کام لیا جائے، یہ نہ ہو کہ چند لوگوں کو تو خوب رگڑا جائے اور باقی سفید پوشوں سے ڈر کے مارے کنارا کر لیا جائے، گویا ہمارے ہاں سب سے کمزور طبقہ اداکار، گلوکار اور سیاسی لیڈر ہیں۔ دراصل ہم ایسے گئے گزرے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں غلط کام بھی پوری بے ایمانی سے کیا جاتا ہے، حالانکہ غلط کام میں غلطی کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمارا الیکٹرانک میڈیا اخلاقیات اور تہذیب سے بالکل عاری ہو چکا ہے۔ چینلوں کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے اور کر بھی رہے ہیں۔ایک وقت تھا جب پی ٹی وی پر الف نون جیسا صحتمند اور سبق آموز مزاحیہ سیریل نشر کیا جاتا تھا، جس میں کامیڈی کے ساتھ ساتھ ہر سیریل میں ایک بہترین اخلاقی پیغام دیا جاتا۔ معاشرے کی اصلاح پر مبنی اس مزاحیہ سیریل کے روحِ رواں کمال احمد رضوی واقعی ایک باکمال اور ذہین انسان تھے،جن کے قلم اور کردار نے معاشرے میں جدید اخلاقی اقدار وضع کر دی تھیں۔ ایسے لوگ آج ناپید ہو چکے ہیں۔ رفیع خاور، صلاح الدین طوفانی، زیبا شہناز، اسماعیل تارا اور اشرف خان جیسے مہذب اور شائستہ مزاج کامیڈین آج چراغ لے کر بھی نہیں ڈھونڈے جا سکتے۔ آج کل جو کچھ کامیڈی کے نام چل رہا ہے، وہ تحقیر اور استہزاء کے سوا کچھ نہیں، اگر بہترین اور مثالی ظریفانہ نقل و حرکت کا مظاہرہ کرنا ہے تو پھر طویل دورانیہ پر مبنی پی ٹی وی کا مشہورِ زمانہ کامیڈی شو’’ ففٹی ففٹی‘‘ دیکھ لیں، فکاہیانہ تہذیب پر مبنی’’ ففٹی ففٹی‘‘ پلے 80 کی دہائی میں جنوبی ایشیا کا پاپ کلچر بن گیا تھا۔