نصاب یکساں نہ ہونے سے ملکی وحدت کو نقصان پہنچا
شخصیت :پروفیسر: محمد اویس
پرنسپل گورنمنٹ شالیمار کالج
انٹرویو:زلیخا اویس،عکاسی :ندیم احمد
شہر لاہور کو کالجوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ شہر کا کردار تشنگان علم کی پیاس بجھانے اور ان کی صلاحیتوں کی آبیاری کرنے میں بھی مثالی رہا ہے۔ اس شہر کے کالجوں میں جہاں بہترین تعلیم دی جاتی ہے وہیں ان اداروں کا نظم و ضبط بھی مثال رہا ہے۔ اساتذہ اور طلباء کو پرامن اور پرسکون تدریسی ماحول فراہم کرنے کے لئے ہر کالج میں خاطر خواہ انتظامات کئے جاتے ہیں جو اپنے مثالی نظم و ضبط اور تعلیمی نتائج کے لئے مشہور تھے۔ ان ہی نامور اداروں میں ایک نام گورنمنٹ شالیمار کالج کا بھی ہے۔
گورنمنٹ شالیمار کالج باغبان پورہ لاہور سرکاری شعبے میں 1963ء میں قائم ہوا۔ بعد ازاں پرنسپل ڈاکٹر شفقت حسین چودھری کے دور میں حکومت پنجاب نے مئی 1992ء میں کالج کا نام شالامار باغ کی مناسبت سے گورنمنٹ کالج باغبانپورہ سے بدل کر گورنمنٹ شالیمار کالج لاہور رکھ دیا۔ یوں اس کالج کے طلباء ’’شالیمارین‘‘ کہلاتے ہیں قبل ازیں اسے گورنمنٹ کالج باغبان پورہ کہا جاتا تھا۔
اس ادارے میں نامور اور معروف ماہرینِ تعلیم انتظامی و تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ پروفیسر جیلانی کامران ایک طویل عرصہ یہاں بطور صدر شعبہ اور بطور پرنسپل تعینات رہے شعبہ سیاسیات کے سردار محمد اسی کی دہائی میں یہاں پرنسپل تھے۔ ڈاکٹر شفقت حسین چودھری پروفیسر ڈاکٹر اختر جعفری پروفیسر جاوید اقبال چودھری، پروفیسرمحمد زاہد بٹ، ڈاکٹر شاہد کاشمیری، ڈاکٹر سعید مرتضیٰ زیدی بطور پرنسپل یہاں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ پروفیسر دلدار پرویز بھٹی اور ڈاکٹر فیضان دانش (احسان دانس کے صاحبزادے) بھی طویل عرصہ یہاں تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔
موجودہ پرنسپل پروفیسر محمد اویس اس سے قبل گورنمنٹ ماڈل کالج، ماڈل ٹاؤن لاہور میں گریڈ بیس میں بطور پروفیسر آف ہسٹری خدمات سرانجام دے رہے تھے پروفیسر محمد اویس اولڈ راوین ہیں اور انہیں انٹر سکریٹ، بی اے اور ایم اے تاریخ کے دوران چھ سال تک جی سی میں پڑھنے اور وہاں کی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ ان کے مضامین و مقالات بین الاقوامی سطح کے تحقیقی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر محمد اویس ایک طویل عرصہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج چنیوٹ میں پڑھاتے رہے گورنمنٹ ڈگری کالج پنڈی بھٹیاں کے بانی پرنسپل ہیں اور وہاں 13 سال تک باقاعدہ پرنسپل رہے ہیں۔ انہوں نے پنڈی بھٹیاں کالج کی عمارت تعمیر کروائی اور اس ادارے کے معیار کو بہت بلند کیا ان کے دور میں کالج کے طلباء کھیلوں اور نصابی میدان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتے رہے جب سے پروفیسر محمد اویس نے گورنمنٹ شالیمار کالج کا چارج سنبھالا ہے تو انہوں نے کالج کی عمارت کی تعمیر و مرمت اور یہاں کے تعلیمی و تدریسی معیار کو بلند کرنے کے لئے شبانہ روز کاوشیں کی ہیں ہم توقع کرتے ہیں کہ پروفیسر محمد اویس کی سربراہی میں ادارہ ترقی کی منازل طے کرتا رہے گا۔ ’’روز نامہ پاکستان ‘‘ نے پرنسپل گورنمنٹ شالیمار کالج محمد اویس کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔
***
سوال:ایک کالج پرنسپل پر کیا فرائض و ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟
جواب: کسی بھی ادارے کو چلانے کے لئے ایڈمنسٹریشن کا شعور ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا اپنے پیشے سے مخلص ہونا بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ ادارہ چاہے سکول ہو یا کالج اس کو خلوص سے چلانا چاہئے اور اس میں ایسی صحت مند سرگرمیاں ہونی چاہئیں جس سے طالب علموں کو آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ سٹاف کی تکلیفوں کا بھی احساس کرنا چاہئے۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پہ ضرور توجہ دینی چاہئے۔ یہ سب ذمہ داریاں کسی بھی ادارے کے پرنسپل پر لاگو ہوتی ہیں۔
س: کالج کے سربراہ کا چارج سنبھالنے کے بعد سے اب تک آپ نے کیا اقدامات کئے ہیں؟
ج: میری تعیناتی کو تین ماہ ہو گئے ہیں۔ اس دوران میں نے کوشش کی ہے کہ کالج کے تعلیمی و تدریسی ماحول کو مزید بہتر بنا یا جائے۔کالج میں نظم و ضبط کو فروغ دینا اور طلبا و طالبات کو کالج یونیفارم کا پابند بنایا جائے۔کالج میں سیکیورٹی کے انتظامات پر خصوصی توجہ دی ہے تاکہ طلبا و طالبات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے، بیرونی دیوار جو پہلے 5فٹ تھی اب اسے 8 فٹ کیا ہے خاردار تار لگوائی گئی ہے ، پارکنگ کو بہتر کیا ہے، کالج کے چند آفسز ، اور کلاس رومز کو اپ گڑیڈ کیا ہے،ویدر شیٹ تبدیل کی گئی۔ اسی طرح یہ کام جاری رہیں گے کیونکہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں اور اہم موضوعات پر سیمینارز اور سپورٹس کو فروغ دینا چاہتا ہوں۔ میرا شروع سے ہی یہ نقطہ نظر رہا ہے کہ طلبہ وطالبات کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جائے تاکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لیا جا سکے۔
س: آپ کی مستقبل کی ترجیحات کیا ہیں؟
ج:کالج کا رقبہ بہت کم ہے ، جس میں بمشکل تدریسی ضروریات پوری ہوتی ہیں، جب نئے کورسز آئیں گے تو نئے کلاس رومز اور لیبز کی ضرورت پڑے گی۔ کھیل کا میدان بہت چھوٹا ہے ، اس لئے ہمیں ایک نئے کیمپس کی ا شد ضرورت ہے۔نئے کیمپس کی زمین کے لئے ہم نے حکومت کو لکھا ہے ۔ امید ہے کہ اس پر عمل درآمد ہوگا۔
چھٹیوں میں ہم بلڈنگ ڈیمپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر بی ایس سی کی نئی بننے والی لیب کے حوالے سے کام کر یں گے چونکہ کالج کے تین اطراف سڑکیں ہیں اور شور بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے طالبِ علموں کو لیکچر سننے میں دقت ہوتی ہے،اس حوالے سے پلاننگ کی ہے کہ لیب کی دیواروں کے ساتھ ساتھ شیشے کے بلاکس بنائیں جائیں تاکہ شور کو کسی حد تک کم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ باقی لیبز کو بھی فنکشنل کر رہے ہیں۔
س: آپ کا کالج کون سے کون سے کورسز آفر کررہا ہے؟
ج:دور جدید کی تعلیمی ضروریات کے پیش نظر کالج میں آئی سی ایس، آئی کام، بی کام (2010ء سے ملحقہ پنجاب یونیورسٹی) اور سیکنڈ شفٹ کلاسز کے علاوہ ، ایم اے پنجابی، سیاسیات، انگریزی اور ایم کام 2014ء سے ملحقہ پنجاب یونیورسٹی کی کلاسز بھی جاری ہیں۔ پوسٹ گریجویٹ کلاسز کا اجراء مستقبل قریب میں متوقع ہے اور کوشش ہے کہ ایسے کورسز لائیں جائیں جن کی مارکیٹ ڈیمانڈ ہے۔ لینگویج کورسز بھی متعارف کروائیں گے۔ اس سال ایم اے اسلامیات بھی شروع کر دیں گے۔ اس کے علاوہ کیمونٹی کالج پروگرام بھی شروع کریں گے، اس سے کالج میں لڑکیوں کی تعداد بڑھے گی۔
س: کیمونٹی کالج پروگرام کے حوالے سے بتائیے؟
ج:پاکستان میں کیمونٹی کالج کا تصور بالکل نیا ہے ابھی اس تصور سے لوگوں کو شناسائی نہیں ہے۔
صوبے کے چار سرکاری کالجوں میں دو سالہ بی اے ڈگری پروگرام سمیسٹر سسٹم میں تبدیل کیا کیا گیا ہے ۔اس پروگرام کی نگرانی پی ایچ ای سی خود کررہا ہے۔ جن کالجوں میں یہ پروگرام شروع کیا گیا ہے اسے کیمونٹی کالج کا نام دیا گیا ہے۔ امریکن انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے تعاون سے یہ پروگرام شروع کیا گیا ہے ۔فی الحال یہ ایک پائلٹ پراجیکٹ ہے جو گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ لاہور، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ، گورنمنٹ کالج سول لائنز ملتان، گورنمنٹ کالج برائے خواتین کارخانہ بازار فیصل آباد شامل ہیں۔
اس پروگرام کو شروع کرنے کا مقصد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کے بعد نوجوانوں کو پروفیشنل یعنی پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرنا ہے۔تاکہ اگر وہ چودہ سالہ تعلیم کے بعد ،ماسٹرز کیے بغیر ہی مارکیٹ میں نوکری حاصل کرنے کے لیے جانا چاہیں تو ان کے پاس ایک پروفیشنل ڈگری ہو۔ اگر پڑھائی جاری رکھنا چاہیں تو بی ایس کے پانچویں سیمسٹر یا ایم اے /ایم ایس سی کے پہلے سال میں داخلہ بھی لے سکیں گے۔
پنجاب ہائر ایجوکشن کمیشن اب دو سالہ بی اے اور دو سالہ ایم اے ختم کر کے بی ایس آنرز کو ہی مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تا کہ ہمارا تعلیمی نظام جدیدعصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکے۔کیمونٹی کالج بنیادی طور پر معاشرے سے بے روزگاری کا خاتمہ کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور تعلیم یافتہ افرادی قوت بھی مارکیٹ میں میسر آتی ہے۔
کیمونٹی کالج سستی تعلیم کا متبادل ذریعہ ہیں جو اْن طلباء کے لیے مفید ثابت ہوگا جو کھمبیوں کی طرح اْگی پرائیویٹ یونیورسٹی میں مہنگی تعلیم برداشت نہیں کرسکتے۔ جن سرکاری کالجوں کو پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے منتخب کیا ہے وہ دیگر کالجوں سے قدرے بہتر ہیں۔اگر یہ پروگرام ہمارے کالج میں شروع ہوتا ہے تو طالبات کو بہت فائدہ ہو گا۔
س: کالج میں طلبہ وطالبات کی کتنی تعداد ہے؟
ج: کالج میں صبح و شام کی کلاسز میں4 ہزار طلبہ ء زیرِ تعلیم ہیں، طالبات کی تعداد100ہے اور یہ تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ انٹر تک صرف بوائز ہیں۔ ایم کام اورایم اے میں طلبہ و طالبات اکھٹے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اساتذہ کرام طلباء کی ذہنی و فکری تربیت، تشکیل کردار اور نظم و ضبط کی طرف بطور خاص توجہ دیتے ہیں۔ کالج کا ماحول مثالی ہے۔
سوال:آپ کے خیال سے کیا لڑکیوں کے لئے علیحدہ تعلیمی ادارے ہونا ضروری ہیں؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ اگر مخلوط تعلیم ہو تو اس میں مقابلے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اس میں میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے لڑکیوں میں زیادہ اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ انہیں معاشرے میں چلنے کاسلیقہ آتا ہے اور وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ لوگوں میں اٹھ بیٹھ سکتی ہیں۔ لیکن یہ کہ عورت حجاب اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرے تو نہ تو کوئی اس کا بے جا مذاق اڑائے گا اور نہ ہی ناجائز فری ہونے کی کوشش کرے گا۔ ہمارا تدریسی عمل پر وقار انداز میں سارا سال جاری و ساری رہتا ہے۔ طالبات امن و سکون کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
اعلیٰ ثانوی تعلیم( ایف اے، ایف ایس سی، آئی کام) کے لئے اس ادارے کا الحاق بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور سے ہے۔ جبکہ بی اے ،بی ایس سی ،بی کام ،اور ایم ،ایم کام کلاسز کے لئے یہ ادارہ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ملحق ہے۔
س: پی ایچ۔ ڈی اور ایم۔ فل اساتذہ کی تعداد کتنی ہے؟
ج: 11پی ایچ ڈی ہیں اور34 ایم فل اساتذہ اپنے فرائض انجام دے رہیں۔ ہماری اپرو فیکلٹی131 ہے۔
س: آپ ایک ماہرِ تعلیم بھی ہیں ، کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہمارا نظام تعلیم نہ صرف نقائص سے دوچار ہے بلکہ عدم توجہی کا بھی شکار ہے؟
ج: تعلیم کی اہمیت سے کسی طرح انکار ممکن نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تعلیم پر صرف قوم کی تعمیر و ترقی کا ہی انحصار نہیں بلکہ اس میں قوم کے احساس و شعور کو جلا بخشنے کی قوت بھی پنہاں ہے۔ اگر آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی پر باریک نظر ڈالیں، تو خود بخود احساس ہو جائے گا کہ کسی قوم کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم اور معاشرہ اپنے مقاصد اور اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ باشعور قوم ہی ایک مثالی معاشرہ قائم کر سکتی ہے اور تعلیم کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
اسے المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کا معیار نہایت پست ہے۔ حالانکہ ہمارے خطے میں واقع دیگر کئی ترقی پذیر ممالک مثلاً سری لنکا وغیرہ تعلیمی میدان میں پاکستان سے بہت آگے ہیں۔ اس لئے حکومت کو نظام تعلیم‘ درپیش مسائل اور اْن کے حل کے اقدامات کرنے چاہیں اگرچہ یہ بہت مشکل ٹاسک ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری آئے گی۔
س:کیا یکساں تعلیمی نصاب نہ ہونا بھی تعلیمی زاوال کی وجہ ہے؟
ج:وجوہات تو بہت سی ہیں مگر نصاب یکساں نہ ہونے وجہ سے ملکی وحدت کو نقصان پہنچا ۔ہر ایک صوبے میں الگ الگ نصابی کتب اور الگ الگ تعلیمی معیار ہے اورایک اہم بات نصاب کی زبان ہے۔ ہر صوبہ اپنی اکثریتی زبان میں مضامین کو اہمیت دیتا ہے اور اسی میں طلبہء کو جانچتاہے‘ جس کی وجہ سے طلبہ کو دوسرے صوبوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور غیرملکی پلیٹ فارم پر بھی اپنے آپ کوپیش کرنا ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ اس لئے اگر پورے ملک میں یکساں نصاب کے تحت نظام تعلیم رائج کر دیا جائے تو اس مسئلے پر نہ صرف قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ قوی امکان ہے کہ وہ طلبا و طالبات جو دوہرے نظام تعلیم کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کا بہتر طریقے سے اظہار نہیں کر سکتے ان کو آگے آنے کا زیادہ موقع میسر ہو جائے گا۔
اٹھارھویں ترمیم میں صوبوں کو اختیارات دئیے جانے کے بعد اب صوبوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلئے ماہر ینِ تعلیم کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کریں ، ٹھوس پالیسیاں ترتیب دیں اور ایسی حکمت عملی اپنائیں جس سے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہوتاکہ غریب آدمی کا بچہ بھی انہی سہولیات کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکے جس طرح کسی امیر کا بچہ تعلیم حاصل کرتا ہے۔باقی ساتذہ اور پرنسپلز کوبھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک ہونا چاہیے۔
س: نظامِ تعلیم میں تفریق کی بڑی وجہ کیا ہے؟
ج:پاکستان میں تعلیم ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکی ہے اس کاروبار میں اب جاگیر دار اور سرمایہ دار شامل ہوچکے ہیں۔ حکومتی سطح پر کوئی مربوط نظامِ تعلیم نہیں ہے۔امیراور غریب کے لئے الگ الگ تعلیمی نظام ہے۔ ملک میں تعلیم کے شعبے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کا منہ بولتا ثبوت ہمارا تعلیمی بجٹ ہے۔ ہماری قومی آمدن کا صرف دو سے تین فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے اس بات سے اندازہ لگا نا مشکل نہیں کہ ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں تعلیم کو کتنی کم اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ تو ہے مگر اس شعبے کو کئی مسائل درپیش ہونے کی وجہ سے مایوسی نظر آتی ہے۔ لہٰذا اس شعبے کی جانب خصوصی توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔
س:سرکاری کالجز کن مسائل کا شکار ہیں ؟
ج:سرکاری اداروں میں کالجوں کی حد تک انحطاط بتدریج ہوا ہے اس کی ایک وجہ سرکاری اداروں کی سرپرسرتی نہ ہونا ہے۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کے محکمے کی وسیع ذمہ داریاں ہیں، کالجوں کو جو سہولیات چاہیں وہ میسر ہی نہیں ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ آپ اعلیٰ سطح پر فیصلے کرکے نچلے عملے کو نوٹیفیکیشن بھجوانے کی بجائے پرنسپل اور اساتذہ کو بلا کر ان سے باقاعدہ مسائل پر بات چیت کی جائے اور پھر کہیں جا کر پالیسیاں بنائیں۔فیصلہ سازی میں جب تک اساتذہ اور پرنسپل کو شامل نہیں کیا جائے گا سرکاری تعلیمی اداروں کے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔
س: کیا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ترقی کی وجہ سرکاری تعلیمی اداروں کی ناکامی ہے؟
ج: ایسا نہیں ہے کوئی ادارہ ناکام نہیں ہے۔پرائیویٹ تعلیمی ادارے طالب علموں کو پرکشش آفرز اور گاڑیاں دے کر اپنی طرف مائل کررہے ہیں لیکن سرکاری ادارے ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔اگر آپ بورڈز کے نتائج دیکھیں تو ان میں واضح فرق دکھائی دے گا اس لئے سرکاری تعلیمی اداروں کی حیثیت کو چیلنج کیا جانا کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ہم یہ مانتے ہیں کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بلڈنگز،فرنیچر بہت اچھا ہوتا ہے گورنمنٹ کے مقابلے میں لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ کوالٹی پیسے سے نہیں آتی۔جہاں تک والدین کی ترجیحات کی بات ہے تو آج کل والدین کے درمیان بھی ایک مقابلے کی فضا ہے ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کابچہ مہنگی تعلیم حاصل کرے۔اس لئے اس رجحان سے اس قسم کا اندازہ لگانا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی اہمیت کم ہو گئی ہے کسی طور مناسب نہیں ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں نے ہمیشہ ہی نجی تعلیمی اداروں سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے بورڈ کے نتائج دیکھیں تو سب سے زیادہ پوزیشن ہولڈر ہوتے ہی گورنمنٹ کالج کے ہیں۔اور نتائج کے اعلان کے بعد سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلوں کا رش سب سے زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔
س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک طالبِ علم کے لئے مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے کریئر کونسلنگ ضروری ہے؟
ج: بہت ضروری ہے مگر ہمارے معاشرے میں کریئر کونسلنگ کا تو تصور بھی نہیں پایا جاتا۔پاکستان کی تقریباً 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ملک کے لئے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بھر پور طریقے سے بروئے کار لا کر ملک کی تقدیربدلی جا سکتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے نوجوان بے سمت بہتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی بھی فورم پر انہیں ان کے کیرئیر کے بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی جس سے انہیں مستقبل میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق پروفیشن اختیار کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں اس امر کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو وہی شعبہ اختیار کرنے کی سہولت دیں جن میں ان کی دلچسپی کا عنصر موجود ہو۔
اسی ضرورت کے پیش نظر طلباء و طالبات کی رہنمائی کے لئے ہم نے کیرئیر کونسلنگ روم بنایا ہے جس میں سوشل ورک اور سوشیالوجی کے پروفیسرز کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ طلبہ و طالبات کی رہنمائی کریں تاکہ انہیں عملی زندگی میں کسی پریشانی کا سامنانہ کرنا پڑے۔
س: کیا کالج کوعطیات ملتے ہیں؟
ج:فی الحال تو ہم کس سے کوئی امداد نہیں لیتے مگر چھٹیوں میں پلان ہے کہ طلبہ ء اور ٹیچرز کے ساتھ مل کر ایک گروپ بنائیں گے جو علاقے کا وزٹ کرے گا اور مخیر حضرات سے ملاقات کریں گے، تاکہ کالج کی بہتری کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق جو بھی وہ کر سکتے ہیں ضرور کریں۔ علاوہ ازیں ہم نے کالج کے اولڈ سٹوڈنٹس سے رابطے کے لئے ایک کمیٹی بنائی ہے، اس طرح ہم اپنے اولڈ سٹوڈنٹس سے رابطہ کر سکیں گے ، وہ طالبِ علم جو آج ڈاکٹر ، انجنیئر ، بزنس مین ہیں یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے منسلک ہیں اور اس قابل ہیں کہ ادارے کی بہتری کے لئے کچھ کرسکیں تو انہیں ضرور کر نا چاہیے۔
س:کالج کی سرگرمیوں کے حوالے سے بتائیں؟
ج: شالیمارکالج اعلیٰ تعلیمی وتدریسی ماحول، ہم نصابی اور غیر نصابی سر گرمیوں اور نظم و ضبط کی شاندار روایات کا حامل ہے۔ ادارے کو تعلیم و تدریس، ہم نصابی سرگرمیوں اور کھیلوں میں امتیازی مقام حاصل ہے ۔ یہاں سارا سال مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا رہا ہے طلبہ و طالبات کی ذہنی نشو و نما کے لئے علمی ، ادبی اور سائنسی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ طلبہ اور طالبات میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوو نما کے لئے مختلف انجمنیں قائم کی گئیں ہیں، جو باقاعدگی سے اپنی سرگرمیاں سر انجام دیتی ہیں۔
ہماری مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ یہاں ایسا ماحول فراہم کیا جائے ، جس میں نہ صرف اعلیٰ اور معیاری تعلیم و تدریس کا عمل بلارکاوٹ جاری رہے، بلکہ انہیں ہم نصابی سر گرمیوں ذہنی آزمائش کے مقابلوں اورتحقیقی و معلوماتی سیمینارز میں بھی بھرپور شرکت کا موقع ملے۔ اس سلسلے میں طلبہ و طالبات کے لئے وہ تمام اقدامات کئے جاتے ہیں، جن سے ان کی ذہنی اور تعلیمی ترقی ممکن ہوسکے اور اس کے پہلو بہ پہلو انہیں کھیلوں میں شرکت کا بھی موقع مل سکے۔
علمی،ادبی اور ہم نصابی تقریبات کے لئے 200نشستوں پر مشتمل ایک ہال ہے۔ ایک کانفرنس ہال بھی ہے۔ جس میں تقریباََ سو افراد بیٹھ سکتے ہیں۔
کالج کا علمی و ادبی مجلہ ’’چراغاں‘‘ بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس مجلے کی خصوصی اشاعتیں علمی و ادبی حلقوں سے دادِ تحسین وصول کرچکی ہیں۔ کالج کی ہمہ پہلو سرگرمیوں سے آگاہی کے لئے ’’کالج گزٹ‘‘ بھی شائع کیا جاتا ہے۔
کالج کے پاس دو عددبسیں ہیں جو طلبہ وطالبات کو مقرر روٹوں پر سفری سہولیات مہیا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مستحق طالب علموں کو سردیوں میں مفت جرسیاں بھی دی جاتی ہیں ہماری کوشش ہے کہ بچوں کو مکمل یونیفارم دیا جائے۔ کورس کی کتابوں اور کالج بیگ کے ساتھ۔اس کام کے لئے ہم کسی کی مدد نہیں لیتے بلکہ چند اساتذہ کرام مل کر طلبہء کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے ہیں۔کالج میں طالب علموں کو طبی امداد فراہم کرنے کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے ایک ڈسپنسری بھی موجود ہے۔ جس میں ایک ڈسپنسر ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ اب ہم پارٹ ٹائم ایک ڈاکٹر بھی اپوائنٹ کریں گے تاکہ اس کو مزید فعال بنایا جا سکے۔
شالیمار کالج کی لائبریری کا شمار لاہو کی چند بڑی لائبریری میں ہوتا ہے ۔لائبریری میں تقریباََ 70ہزار کتابیں موجود ہیں۔ ان میں وقت اور ضروریات کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مقبول و مروج مضامین سے متعلق طلبہ اور اساتذہ کے لئے کم و بیش تمام ضروری کتب موجود ہیں۔
لائبریری کے اندر مطالعہ کے لئے نشستوں کا معقول انتظام موجودہ ے۔ تازہ ترین اخبارات اور تحقیقی رسائل کتب خانے کے اوقات کے دوران میں استفادہ کے لئے روزانہ موجود رہتے ہیں۔
کالج میں پرامن اور پرسکون تعلیمی ماحول کی فراہمی کے لئے کالج میں پراکٹوریل بورڈ تشکیل دیا گیاہے جو طلباء کو نظم و ضبط کا پابند اور کلاس روم میں ان کی حاضری کو یقینی بناتا ہے۔ یہ پراکٹوریل بورڈ کالج پرنسپل کی سرپرستی میں پروفیسرز پر مشتمل ہوتا ہے۔ جو اپنے فارغ پیریڈ میں نظم و ضبط کی یہ ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ گورنمنٹ شالیمار کالج بھی اپنے مثالی نظم و ضبط اور بہترین تعلیمی نتائج کے لئے کالجوں کے شہر لاہور میں ایک معتبر حوالہ سمجھا جاتا ہے۔نظم و ضبط کے حوالے سے کالج پراکٹوریل بورڈ بھرپور کردار ادا کرتا ہے جس میں کالج کے اساتذہ بڑی تندہی سے اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔پراکٹرز حضرات اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی طالب علم کالج کی حدود میں یا گردونواح میں ایسی سرگرمیوں کا حصہ نہ بنے جو غیر اخلاقی، غیر شائستہ و غیر تعلیمی ہو۔ قصور وار پائے گئے طالب علم کو بھاری جرمانہ یا کالج سے خارج اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔گورنمنٹ شالیمار کالج جن درخنشدہ روایات کا امین رہا ہے ان میں پراکٹرز کا فعال کردار بھی نمایاں رہا ہے۔
گورنمنٹ شالیمار کالج نے جدیدیت کی جانب ایک اور اہم قدم اٹھاتے ہوئے کالج میں آن لائن سروسز کا آغاز کیا ہے جس میں پیغام رسانی اور ہر وقت باخبر رکھنے کے لئے SMS سروسز اور کالج کی ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔جس کے ذریعے اساتذہ و طلباء کو باقاعدہ اور بروقت حاضری، امتحانی نتائج، ضروری نوٹس، ٹائم ٹیبل، ڈیٹ شیٹ اور دیگر اہم امور سے آگاہ رکھا جاتا ہے۔ اس طرح کالج کی ویب سائٹ Shalimarcollege.edu.pk کو باقاعدگی کے ساتھ اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ شعبہ کمپیوٹر کی یہ کاوش لائق تحسین ہے۔
س:طالب علموں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
ج: بدقسمتی سے آج کل طالب علموں کا رجحان کھیل تماشوں کی طرف زیادہ ہے۔ ان سے میںیہ کہنا چاہوں گا کہ وہ پندرہ سال سے پینتیس سال تک عمر کے جو بیس سال ہیں اس عرصے کو ضائع نہ کریں اور ان سالوں میں ہی اپنا کیریئر بنا لیں تاکہ آپ معاشرے کے ایک مفید اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔ بے جا مشغلوں کے بجائے سنجیدہ رویہ اختیار کریں کیونکہ یہی وہ عمر ہے جس میں آپ اپنی قوت و طاقت کا صحیح استعمال کر کے اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔
***