بوڑھی روح ،فسانہ یا حقیقت؟

نظام الدولہ
سر میرا نام عارفہ ہے اور میری عمر پچیس سال ہونے والی ہے،یہ کہانی تو نہیں چند واقعات ہیں جو آپ سے شئیر کرنا چاہتی ہوں ۔مجھے اگرچہ ٹھیک طرح سے لکھنا بھی نہیں آتا لیکن امید کرتی ہوں آپ درستگی کرکے میرا مدعا قارئین تک پہنچا دیں گے ۔
یہ آج سے دس سال پہلے کی بات ہے ۔ان دنوں ہم راوالپنڈی کے نواح میں ایک قصبہ میں رہتے تھے۔یہ کرایہ کا گھر تھا ۔ ایک روز پاپاجی کا مالک مکان سے جھگڑا ہوگیا تو ہمیں گھر خالی کرنا پڑگیا اور عجلت میں جس گھر کو کرایہ پر لینا پڑا وہ اسی قصبہ کی مغربی جانب تھا اور خاصا پرانا بنا ہواتھا۔
اس گھر میں آنے کے ایک ہفتہ بعد کی بات ہے ۔میں رات کو سوئی ہوئی تھی کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی اور کیا دیکھتی ہوں کہ سفید کھلے کھلے کپڑوں میں ملبوس ایک بوڑھی عورت میرے پیروں کی جانب کھڑی ہے اور ہولے ہولے میرے پاؤں کا انگوٹھا ہلا رہی ہے۔مجھے لگا کہ موت کا فرشتہ آن پہنچا ہے جو انگوٹھے سے میری جان نکالنا چاہ رہا ہے ،یہ سوچتے ہی مجھے موت کی جھرجھری سی آگئی ۔میں نے جھٹ سے پاؤں سکیڑ لئے اور خود کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔اسکے بعد مجھے کوئی ہوش نہیں رہا ۔
صبح آنکھ کھلی تو ماما پاپا کو یہ واقعہ سنایا تو انہوں نے کہا کہ تم ڈراؤنی کہانیاں نہ سنا کرو۔یہ تمہارا محض واہمہ ہے۔
اس واقعہ کے چند روز بعد کی بات ہے۔سارے گھر والے سو چکے تھے اور میں جاگ رہی تھی ۔اچانک میری نظر چھت کے پنکھے پر پڑی جو بری طرح ہل رہا تھا ۔اس سے پہلے کہ میں یہ سوچتی کہ کہیں سوئچ آن ہونے سے تو یہ ہل نہیں رہا ،اچانک پنکھا زور سے ہلا اور سیدھا میرے سینے پر آگرا۔میں نے شدید درد کی وجہ سے چیخ ماری تو ماماپاپا ہڑا بڑا کر میرے کمرے میں آئے اور بڑی مشکل سے پنکھا ہٹا کر مجھے دلاسہ دیا لیکن میں نے خوف اور درد سے رو رو کر برا حال کرلیا۔
اگلے روز مجھے سائیکو ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا اور اس نے بھی مجھے یہی سمجھایا کہ یہ غیر معمولی امیجینیشن کی وجہ سے ہورہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا کوئی وجود نہیں جو اسکو ڈرا رہا ہے۔
میں ڈاکٹر کی بات سے مطمئین ہوگئی اور ڈراؤنی کتابیں بھی پڑھنا چھوڑ دیں ۔چند دن تو بڑے سکون سے گزر گئے لیکن پھر ایک رات وہی بوڑھی عورت سفید لباس پہنے کھڑکی میں کھڑی نظر آئی اور مجھے ہاتھ سے بائے بائے کا اشارہ کرکے معنی خیز انداز میں ہنسنے لگی۔اسکے ہنسنے کی آواز کافی دور تک سنی گئی تھی۔جسے سن کر ماما بھاگتی ہوئی آئیں اورمجھ سے ہنسنے کی وجہ دریافت کی ،جب میں نے انہیں بتایا کہ یہ میں نہیں وہ بوڑھی بھوتنی عورت ہنس رہی تھی تو وہ بڑی پریشان ہوئیں ۔وہ بھی یہ بات ماننے پر تیار نہیں تھیں کہ واقعی اس گھر میں کوئی ایسی بوڑھی روح موجود ہے جو ان کی بیٹی کو دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے اسے میرا واہمہ اور خیال انگیزی ہی سمجھا ۔
ماما پاپا مجھے دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔وہ مذہبی عقائید بھی رکھتا تھا۔اس نے بہت غور کیا اور کہا’’ میں دوا تو دے رہا ہوں لیکن اتنی کم عمری میں سائیکو میڈیسن بچیوں کے لئے زیادہ مفید نہیں ہوتی ۔اس لئے آپ فلاں بزرگ سے مل کر ایک تعویذ لے لیں اور اسکو باندھ دیں ۔مجھے یقین ہے کہ اگر وہ کوئی واقعی شیطانی روح ہوئی تو پھر اسکو تنگ نہیں کرے گی‘‘
واقعی پھر ایسا ہوا۔اسبزرگ سے جو عالم دین بھی تھے ،انہیں یہ واقعات سنائے تو انہیں نے مجھے تعویذ دیا اور کچھ تعویذ گھر میں جلانے کے واسطے دئیے۔اللہ کا شکر ہے وہ دن ،اور آج کا دن ۔۔۔ پھر وہ بوڑھی روح مجھے نظر نہیں آئی۔میں سجھتی ہوں کہ ہمارے ہاں بہت سے بچے بچیاں جب کسی ایسے مسئلہ کا شکار ہوتے ہیں تو انہیں محض سائیکو ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے اور انہیں ذہنی مریض بنا کر جو سلوک کیا جاتا ہے وہ اسکی شخصیت تباہ کردیتا ہے۔اس لئے ساتھ روحانی علاج بھی کرالیا جائے تو ممکن ہے اس بچے یا بچی کی زندگی خراب ہونے سے بچ جائے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔