ساڈی واری آئی تے گھگو رو پیا۔۔۔۔
بھیا جی آپ گرے لسٹ میں ڈالیں، بلیک میں یا ریڈ میں، شہباز کا کام پرواز ہے اور اسے روکنا اسی لئے ممکن نہیں کہ اسے آزاد فضا میں عدلیہ کے حکم پر اچھالا گیا ہے وہ بیمار ہے اس لئے اس کا باہر جانا بنتا ہے۔ باقی پاکستانیو ں کا یہیں اسی دھرتی پر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مرجانا بھی بنتا ہے،کیونکہ زندہ رہنے کے لئے آپ کے پلّے دھیلہ ہونا چاہئے ورنہ میلہ میلہ بھی نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ہسپتالوں کے گنگ، برآمدوں، میٹرو بس پلوں کے نیچے تپتے فرش پر پڑے فاقہ حالوں کا زندہ رہنا اتنا ضروری نہیں۔جیلوں میں معمولی جرم پر نا ختم ہونے والی سزائیں بھگتنے والوں کو بھی امان ملنا بھی اتنا ضروری نہیں اس لئے امراء کی زندگی ان کے علاج کو یقینی بنانے میں ہی جمہوریت کی بقاء ہے۔ ماہی ”چھیلا“اور اس کی لیلیٰ کی جوڑی ہمیشہ سے ”ٹچ“ رہی ہے مجھے تو تر س آتا ہے ڈاکٹر یاسمین راشد پر جو کینسر کی جنگ پاکستان میں لڑ رہی ہیں اور اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کر رہی ہیں۔ انہیں بھی جلد از جلد نیب زدہ ہونا پڑے گا تاکہ انکا علاج با عزت انداز میں باہر ممکن ہوسکے۔ وہ بھی قانون و انصاف کی تھنڈی چھاؤں میں سنتا سنگھ کی بیگم آخری دموں پر تھیں،کہنے لگیں آپ میرے جنازے میں میرے بھائی کو ضرور بلانا، سنتا سنگھ بولا تجھے پتہ ہے کہ میری اس سے لڑائی ہے لیکن تیری آخری خواہش ہے تو میں ضرور بلاؤں گا، حالانکہ سارا مزا کر کرا ہو جائے گا۔ بھلا کیا جاتا تھا ایئر پورٹ حکام کا اگر شہباز شریف کو جانے دیتے ہماری ساری خوشی کا مزا کر کرا کر دیا اور کوئی ان سے پوچھے اونچیاں شاناں تے پٹھیاں دھیاناں والیو۔ جیسے گرمیوں میں غریب بچوں کے جسم پر ہونے والی پھوڑے، پھنسیوں کو نہیں روکا جا سکتا اسی طرح پاکستان کے امراء کو باہر جاکر اپنے علاج سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مجھے فکر ہو گئی ہے اللہ نہ کرے اس دوران خادم اعلی مسلسل کو کھانسی، نزلہ ہو گیا تو قوم کس کا گریبان پکڑے گی۔ ان پر کروڑ دو کروڑ کلبلاتے کیڑے نما عوام قربان، ان کی صحت پر دوائی کے بغیر ایڑیاں رگڑتے لاکھوں بیمار قربان انہیں رب دیا رکھاں ہوں، ان کی ستّے خیراں ہوں۔ اس ملک کا سکرپٹ لکھنے والوں کی خیراں ہوں، اتنے ٹرننگ پوائنٹ تو سٹار پلس کے ڈراموں میں نہیں آتے۔ یہاں تو بغیر بیک گراؤنڈ میوزک، ایکشن، سسپنس، تھرلر تحریر والے سین فٹا فٹ ٹھا ٹھو کر کے گذر جاتے ہیں۔
بھیا میرے ملک اور اس کے تمام وسائل اس کا آئین، اس کا قانون، اس کا نظام انصاف سرخ و سپید چمڑے والوں کے لئے ہیں۔یہ سارا نظام ان طاقتوروں، وڈیروں کے گرد جھومر ڈالتے ہوئے کہتا ”وے سب تو سوہنیا ہائے وے من موہنیا“یہ ڈاڈوں کا ملک ہے عین سڑک پر آپ ٹریفک اہلکار کو کچل دیں، سی سی ٹی وی فوٹیج مل جائے، عینی شاہد مل جائیں بندہ آزاد ہو ہی جاتا ہے۔ انڈیا کا شاہ رخ خان ہمارے شاہ رخ جتوئی کے سامنے کیا بیچتا ہے۔ ہمارے انصاف کی دوکان کا ہر اصول خوبصورت ہے۔ جنتی امان اللہ ایک ڈرامے میں کہتا ہے کہ ناکے پر پولیس نے اسے روک کے کہا اوے منہ سنگھا، امان اللہ نے کہا پہلا توں سنگھا۔ یعنی اگر آگے سے کسی نے کہہ دیا کہ میرا منہ کیوں سونگھتے ہو اپنا منہ سنگھاؤ تو
baby baby???
yes mama
eating sugar
no mama
telling a lie
no mama
open your mouth
ha ha ha ha
اور پھرمل کر خود بھی کٹہرے میں کھڑے بچے کی معصومیت پر قہقہ لگاتے ہیں ہاہاہا۔
آپ تربوز خریدنے جائیں تربوز والاپہلے ایک تربوز کو اٹھا کے تھپتھپائے گا، اس سے ایسے کان لگائے گا جیسے اندر سے وٹس ایپ کا آڈیو میسج آرہا ہے،وہ رکھے گا پھر دوسرا اٹھائے گا،پھر تھپتھپائے گاکان سے لگائے گا اور پھر تیسرا اٹھا کے یہی ایکسر سائز کرے گا۔ پھرمطمئن انداز میں گاہک کو پکڑا دے گا جیسے اس نے دوہانوں پر پی ایچ ڈی کی ہو۔آپ گھر جا کر دوہانا بھنیں گے تو نکلے گا چٹا اور پھیکا۔ ہمارا الیکشن کمیشن بھی دوہانے بیچنے والے سے کم نہیں ہے، ڈسکہ الیکشن ہو، ہزارہ ہو یا کراچی الیکشن ہر بار الیکشن کمیشن ایسے مطمئن ہو کر تربوز قوم کو پکڑاتا ہے جیسے اس بار شرطیہ مٹھا ہو گا۔جو الیکشن کمیشن آج تک ایک الیکشن غیر متنازعہ نہیں کرا سکا ہم اس کی پپیاں بھی لیتے ہیں اور جپھیاں بھی ڈالتے ہیں۔چلیں فردوس آپا کی تو سمجھ آتی ہے لیکن اس نا اہل الیکشن کمیشن سے اتنی پپّی جپھی کا سمجھ نہیں آتا۔بھیا عطار کا لونڈا اگر صرف بیماری ہی دے سکتا ہے تو کم از کم ایک بار دوکان بدل کے تو دیکھ لو فواد چودھری انتخابی اصلاحات، انتخابی اصلاحات پکار رہا ہے،چلیں دونوں میاں صاحبان کی ٹیکنیکل وجہ سمجھ آتی ہے پر باقیوں کے سروں پر جویں رینگنیں کے تمام اسباب موجود ہیں۔ ہیریو تے مکھنو،بوہتے سارے سوہنیو، او کچ دے کھڈونیو پوری قوم کے دل میں وسنے کا دعویٰ بھی کرتے ہو اپنے ووٹ کو شیروانی پہناتے ہو تو دوسروں کے ووٹوں کو شیروانی نہیں پہنا سکتے تو اس کی دھوتی بھی نا اتارو خود تم قوم کا اس الیکشن ٹوپی ڈرامے پر سے وشواس ختم کرتے ہو اور پھر یہ امید بھی کرتے ہو تمہاری جیت کو عزت دی جائیگی۔ فواد چودھری انتخابی اصلاحات کا ڈھول گلے میں ڈال کر پیٹے جا رہا ہے اور آپ اپنی خواہشوں کی دھن پر اکیلے گدا پائی جا رہے ہیں۔ اگر سنجیدہ ہیں تو ان اصلاحات پر بات کریں، الیکشن کو شفاف بنانے میں کردار ادا کریں ورنہ ہر الیکشن کے بعد گاتے رہیں کہ ”ساڈی واری آئی تے گھگو رو پیا“۔