اقبالؒ کا پیغام امتِ مسلمہ کے نام

اقبالؒ کا پیغام امتِ مسلمہ کے نام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

علامہ اقبالؒ نے ’’اسرار و رُموز‘‘ کے آخرپر ’’عرض حال مصنف بحضور رحمۃ للعالمینؐ‘‘ کے عنوان سے یہ بیان کیا ہے کہ اُمت مسلمہ کی حیثیت ایک بے جان لاش کی سی ہوگئی ہے۔ یہ آپؐ کی تعلیمات اور آپؐ کی ذات کو بھول کر آپؐ سے ناآشنا ہوگئی ہے۔ اس کے تمام دُکھوں کا مداوا کرنے کے لیے میں نے اس کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیمات سے اس کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے اور آپؐ کے حضور میں اس کو پیش کیاہے۔ حضورؐ سے عرض کرتے ہیں کہ پہلے بھی آپؐ ہی نے انسانیت کو ایک حیات بخش پیغام سے آشنا کیا۔ اب میں آپؐ ہی کے سامنے آپؐ کی اُمت کو لے کر آیا ہوں، آپؐ ہی اس اُمت کا علاج کرسکتے ہیں۔
اس نظم میں حضور نبی کریمؐ سے اقبال کا عشق و محبت کا تعلق بالکل صاف جھلکتاہے۔ فارسی کی اس نظم میں وہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اپنی امّی سے آپؐ کا نام سناہے اور آپؐ سے آشنا ہوا ہوں، آپؐ مجھے اپنے ماں باپ سے زیادہ عزیز ہوگئے ہیں۔ جب اس اُمت کے دل میں آپؐ کی محبت جاگزیں ہوگی اور آپؐ پھر سے اس اُمت کے محبوب بنیں گے تب ہی اس کے تمام دُکھوں کا مداوا ہوسکے گا۔ اگر فارسی سمجھنے والے اس نظم ’’عرض حال مصنف بحضور رحمۃ للعالمینؐ ‘‘کا مطالعہ کریں تو انھیں اندازہ ہوگا کہ اقبال دلوں میں حضورؐ کی محبت پیدا کر کے ہمیں قرآنِ پاک کی تعلیمات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ اُنھوں نے عام شعرا کی طرح شاعری شوقیہ نہیں اپنائی بلکہ شعرگوئی کو اپنے پیغام کا ذریعہ بنایا ہے۔ ایک فارسی شعر میں کہتے ہیں ؂
نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ ایست
سوے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را
کہاں شاعری اور کہاں میں، شاعری تو ایک بہانہ ہے۔ میرا اصل کام یہ ہے کہ جو ناقہ بے زمام [اُمت مسلمہ]ہے اس کو قطار کے اندر کسی نظم و ضبط کے تحت لے آؤں۔ چنانچہ اقبالؒ اُمت کو بتاتے ہیں کہ تیرا اصل محبوب کون ہے۔ وہ اُمت کی تمام خرابیوں کا سبب یہی بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے محبوبؐ کو بھول گئی ہے۔ ایک رباعی میں فرماتے ہیں ؂
شبے پیش خدا بگریستم زارِ
مسلماناں چرا زارند و خوارند
ندا آمد ، نمی دانی کہ ایں قوم
دلے دارند و محبوبے نہ دارند
کہ میں ایک رات زار و قطار اللہ کے حضور میں روتا رہا۔ میں نے کہا کہ یہ مسلمان کیوں ذلیل و خوار ہیں؟ ندا آئی کہ کیا تمھیں پتا نہیں کہ اس قوم کے سینے میں دل ہے لیکن اس میں محبوب نہیں ہے۔ چنانچہ اقبالؒ کی پوری کوشش یہ ہے کہ وہ اُمت کی پہچان کرا دیں۔ اور دلوں میں نبیؐ کی محبت ڈالنے کے بعد وہ حضورؐ ، ان کی سیرت و تعلیمات، شریعت اور قرآن کے ذریعے اصلاح کا کام کریں۔چنانچہ فرماتے ہیں ؂
در دل مسلم مقام مصطفیؐ است
آبروئے ما زنام مصطفیؐ است
در شبستان حرا خلوت گزید
قوم و آئین د حکومت آفرید
از کلیدِ دیں درِ دنیا کشاد
ہم چو او بطن اُم گیتی نزاد
مسلمان کے دل میں محمدؐ کا مقام ہے۔ ہماری آبرو ان کے نام کی وجہ سے ہے۔ اُنھوں نے حرا کی تاریکیوں میں خلوت اختیار کی تو قوم بنائی، حکومت بنائی اور آئین بنایا اور دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا۔ یعنی دین اور دُنیا کوئی الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ دین، دُنیا کا دروازہ کھولنے کا ذریعہ ہے۔ اُنھوں نے دُنیا میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا کہ کس طریقے سے دُنیا میں رہنا ہے اور بندوں کے کیا حقوق ہیں، اللہ کے کیا حقوق ہیں، آپس میں کس طریقے سے مل جل کر رہنا ہے اور گھر کے اندر کیسے رہنا ہے، معاملات کیسے طے کرنے ہیں۔ یہ دین کے تمام اصول اور طریقے دنیا میں جینے کا سلیقہ سکھانے کے لیے آئے ہیں۔
حضورؐ نے جو آئین دیا تھا اس کی تشریح اقبال کے کلام میں جگہ جگہ ملتی ہے۔ وہ آئین کیا تھا جو نبیؐ نے دیا تھا؟ وہ قوم کون سی تھی جس کو حضورؐ نے پیغام دیا اور جس کی تشکیل کی۔ اوراس حکومت کے کیا اصول تھے جو حضورؐ نے قائم فرمائی۔ اقبالؒ نے اپنے کلام میں جگہ جگہ کہا ہے کہ قرآن کریم وہ آئین ہے جو حضور ؐ نے اس اُمت مسلمہ کو دیا ؂
آں کتابِ زندہ ، قرآنِ حکیم
حکمت او لا یزال است و قدیم
وہ زندہ کتاب قرآنِ کریم ہے۔ اس کی حکمت لازوال اور ہمیشہ سے ہے۔ قرآنِ کریم کی یہ شان ہے کہ جب ایک دور گزرتا ہے تو دوسرے دور کے لیے نئی آب و تاب کے ساتھ اپنی تعلیمات کو پیش کر دیتا ہے۔ اس کی تعلیمات کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ یہ آئین [قرآن مجید] زمان و مکان کی حدود میں محصور نہیں۔’’اسرار و رُموز‘‘ میں اس پر باب باندھے گئے ہیں کہ اس اُمت کا نہ کوئی انتہاے زمانی ہے اور نہ کوئی انتہاے مکانی ہے۔ جو آئین اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ زمان و مکان کی حدود سے بالاتر ہے۔ اقبال کی مشہور نظم ہے ؂
خودی کا سّرِ نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں ، لا الٰہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الا اللہ
ِخرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زّناری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ
یعنی کوئی زمان و مکاں کی حد نہیں ہے۔ جو بھی ملک ہو اور جو بھی زمانہ ہو،حضورؐ کی تعلیمات ہر ملک اور ہر زمانے کے لیے ہیں۔ یہ دین قید مکاں اور قید زماں سے آزاد ہے۔ اقبالؒ حضورؐ کی ملّت کے بارے میں کہتے ہیں ؂
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
اقوامِ مغرب، وطن اور زمان و مکاں کی بنیاد پر قومیت کی قائل ہیں، لیکن اقبال کہتا ہے کہ وطنی قومیت کو بت بنانا حضورؐ کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے اور اسی طرح وطن پرستی کے بارے میں کہتے ہیں ؂
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
وہ بتاتے ہیں کہ حضورؐ نے جو اُمت بنائی ہے وہ کس طرح زمان و مکاں اور نسل اورعلاقے کی حدود سے بالاتر ہے۔ فرماتے ہیں:
نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
ِتمیز رنگ و بو برما حرام است
کہ ما پروردۂ یک نوبہاریم
ہم نہ افغان ہیں، نہ ترک ہیں، نہ تاتار ہیں۔ مختلف اشعار میں کہتے ہیں کہ نہ حجازی نہ چینی، نہ ہندی بلکہ ہم تو حضورؐ کی ذات بابرکات کے گرد جمع ہونے والی ایک اُمت ہیں۔ ہماری اساس اور ہمارا بنیادی عقیدہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ اسی کی بنیاد پر ہم ایک قوم ہیں اور عقیدۂ توحید کی اساس پر قائم ہیں۔ چنانچہ وہ ’’ترانہ ملّی‘‘ تو سب کو یاد ہے ؂
چین و عرب ہمارا ، ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اور پھر مسلمانوں کی تاریخ یاد کرتے ہوئے اپنے مرکز اور عقیدے کی نشان دہی کرتے ہیں ؂
دُنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
اس ’’ترانۂ ملّی‘‘ میں تاریخ بھی بیان کی ہے۔ اندلس کی زمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ؂
اے گلستان اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا
’’ترانۂ ملّی‘‘ میں وہ اپنی ملّت اور حضورؐ کی اُمت کی تعریف کرتے ہیں۔ اس کی تاریخ یاد کرتے ہیں اور اس حقیقت کو دُہراتے ہیں کہ یہ اُمت، علاقے اور ملک کی حدود سے بالاتر ہے۔ توحید پر اس کی اساس ہے اور کعبہ اس کا مرکز و محور ہے۔ حضور نبی کریمؐ اس کے قافلہ سالار ہیں
سالار کاروا ں ہے میرحجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
جہاد فی سبیل اللہ اس کا طریق زندگی ہے
تیغوں کے سایے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
اندلس میں ’’طارق کی دُعا‘‘ سے اقبالؒ مسلمانوں کو یہ تعلیم دے رہے تھے اور ان کو یہ یاد دلا رہے تھے کہ پوری روئے زمین ان کا ملک ہے کیوں کہ ان کے اللہ کی ملکیت ہے ؂
َطارق چو برکنارۂ اندلس سفینہ سوخت
گفتند کار تو بہ نگاہ خرد خطاست
دوریم از سواد وطن باز چوں رسیم؟
ترک سبب زروے شریعت کجا رواست
خندید و دست خویش بہ شمشیر برد و گفت
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خداے ماست
طارق جب اندلس کی سرزمین پر اُترے تو انھوں نے کشتیاں جلا دیں کہ یہ خواہ مخواہ ایک سہارا ہے جس میں مجاہدین بیٹھ کر واپس جاسکتے ہیں، حالانکہ ان کا ملک تو یہ ہے، اسی میں اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، اس میں توحید کی تعلیم دینی ہے۔ اس لیے اس سے رشتہ جوڑنے کے لیے واپسی کی کشتیوں کو جلا ڈالا۔ وہاں کے عقل مندوں نے کہا کہ عقل کے مطابق یہ کام صحیح نہیں ہے، شریعت کے تحت کہاں یہ جائز ہے کہ آپ واپسی کے سبب کو ختم کر دیں۔ طارق اپنی تلوار کی طرف ہاتھ بڑھا کر مسکراتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ہرملک ملک ماست کہ ملک خداے ماست‘‘۔ یعنی ہر ملک ہماری اور ہمارے اللہ کی ملکیت ہے۔ یہ حضورؐ کی اس حدیث کی طرف بھی اشارہ ہے ، جس میں اُنھوں نے کہا ہے کہ یہ پوری روئے زمین میری مسجد ہے۔ اس کا بھی بہت دل نشیں انداز میں اقبالؒ نے ذکر کیا ہے ؂
مومناں را گفت آں سلطان دیں
مسجد من ایں ہمہ روے زمیں
کہ اس سلطان دین ، محمد ؐ نے مومنین سے کہا کہ ساری روے زمین میری مسجدہے ؂
الامان از گردش و نہ آسماں
مسجد مومن بدست دیگراں
میں نو آسمانوں کی گردش سے پناہ مانگتا ہوں کہ گردش لیل و نہار نے ہمیں یہ دن دکھایاکہ مومنین کی مسجد غیروں کے ہاتھ میں ہے ؂
سخت کوشد بندۂ پاکیزہ کیش
تا بگیرد مسجد مولاے خویش
پاکیزہ صفت مومن کا فرض ہے کہ انتہائی کوشش کرے کہ اپنے آقا و مولاؐ کی مسجد کو واگزار کرائے ؂
اے کہ از ترک جہاں گوئی مگو
ترک ایں دیر کہن تسخیر او
اے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ترک دنیا کرو،ایسا مت کہو کہ اس دنیا کو تسخیر کرنا ہی درحقیقت اس کا ترک کرنا ہے۔
یہ حضور نبی کریم ؐ کی ایک حدیث مبارک کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ میری اُمت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ رہبانیت اور جہاد فی سبیل اللہ میں ایک مشابہت ہے۔ اسی لیے رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ میری اُمت کی رہبانیت جہاد میں ہے۔ مشابہت یہ ہے کہ رہبانیت میں آدمی دُنیا اور تعلقات کو چھوڑکر جنگلوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ مال و دولت، زر و زن اور وطن سب کچھ چھوڑ دیتا ہے۔ غرض دُنیا ترک کردیتا ہے اور حضورؐ نے کہا: میری اُمت کی رہبانیت یہ نہیں ہے، جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اس میں مومن دنیا کو ترک نہیں کرتا بلکہ دنیا کے سارے وسائل اور جتنی بھی قوت اس کے پاس ہے اس کو اللہ کے راستے میں قربان کرتا ہے۔ تمام تعلقات اور تمام توانائیاں اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے صرف کردیتا ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے یہ راستہ بتایا کہ اس طریقے سے مومن اپنے آقا کی مسجد کو واپس حاصل کرسکتا ہے۔
جن غیروں کا ذکر اقبالؒ نے ان اشعار میں کیا کہ انھوں نے اس دُنیا میں غلبہ حاصل کر کے روئے زمین کو اپنی آماجگاہ بنالیا ہے۔ یہ غیر کون ہیں؟ ان کی نمایندہ مغربی تہذیب ہے۔ اقبالؒ نے بتایا کہ یہ کچی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء کے درمیان اقبالؒ یورپ میں علم حاصل کر رہے تھے۔ ۱۹۰۷ء میں اُنھوں نے یہ نظم لکھی تھی اور پیش گوئی کی تھی ؂
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپایدار ہو گا
1907ء میں لکھی گئی یہ نظم بہت خوب صورت ہے اور اس کا ایک ایک شعر پڑھنے کے قابل ہے اور دلوں کو گرما دینے، جذبوں کو اُبھارنے اور اُمید دلانے والا ہے۔ اس میں انھوں نے کہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں نہایت خام ہیں۔ ناپختہ بنیادوں کی وجہ سے یہ تہذیب منہدم ہونے والی ہے۔ ان بنیادوں پر کوئی عمارت ہمیشہ کے لیے کھڑی نہیں ہوسکتی۔ کمیونزم کے زوال کی بھی نشان دہی کی۔
’’جاویدنامہ‘‘ میں ایک نظم ’’پیغامِ افغانی بہ ملّت روسیا‘‘ لکھی ہے۔ اس میں انھوں نے بہت خوب صورت طریقے سے روسی قوم کو پیغام دیا ہے کہ جب تک اللہ کے راستے پر نہیں چلو گے تم انسانیت کو کچھ نہیں دے سکتے ہو۔ اور چونکہ وہ اللہ کی طرف نہیں چلے اس لیے ان کی تہذیب کو زوال آیا۔ مغربی تہذیب کے بارے میں کہا کہ یہ مادہ پرستانہ تہذیب، انسانیت کی رہنمائی کے قابل نہیں ہے۔ جو نیو ورلڈ آرڈر کی باتیں کرتے ہیں ان کے پاس حقیقتاً کوئی نظام نہیں بلکہ فساد ہی فساد ہے۔ بنیاد پرستی کے خلاف جو طوفان اُٹھایا ہے یہ بھی دراصل ان کے اپنے باطنی ضعف کا اظہار ہے۔ زمانہ تقاضا کر رہا ہے کہ کوئی نیا نظام آئے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں اسلام سے خوف آتا ہے۔ اپنی مشہور نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں انھوں نے اس کا ذکر کیا ہے اور ابلیس نے اپنے شاگردوں کو ان خطرات سے آگاہ کیاہے، جو ابلیسی نظام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پہلے ابلیس اپنے شاگردوں سے استفسار کرتا ہے کہ اس کے نظام کے لیے موجودہ دور میں کون سے خطرات درپیش ہیں؟ کوئی اشتراکیت کو فتنہ بتاتا ہے اور کوئی کسی اور خطرے کی نشان دہی کرتا ہے لیکن آخر میں ابلیس خود کہتا ہے: نہیں، مجھے اصل خوف تو مسلمانوں سے ہے جو اپنے اشک سحرگاہی سے اب بھی وضو کرتے ہیں۔ ان خال خال لوگوں سے مجھے خطرۂ حقیقی ہے۔ اس کے ساتھ کہتا ہے ؂
جانتا ہوں میں یہ اُمت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدبیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصرِحاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبرؐ کہیں
الحذر آئین پیغمبرؐ سے سو بار الحذر
حافظِ ناموس زن ، مرد آزما ، مرد آفریں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکروعمل کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں
ابلیس بتاتا ہے کہ ابلیسی نظام کو زبردست خطر ے کا سامنا ہے، اور وہ یہ کہ کہیں لوگوں پر شریعت محمدیؐ آشکارا نہ ہوجائے۔ اس وجہ سے نہیں کہ اس کے حاملین بڑے زبردست لوگ ہیں۔ وہ تو مجھے معلوم ہے کہ کس طرح کے لوگ ہیں لیکن چونکہ عہدحاضر کا تقاضا ہے اس لیے مجھے خوف ہے کہ لوگوں پر پیغمبر اسلامؐ کی شریعت عیاں ہوجائے گی۔ جب عیاں ہوجائے گی تو اس کی کشش اتنی زبردست ہے کہ وہ میرے ابلیسی نظام کے لیے خطرہ ہوجائے گی۔
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
آئین پیمبردولت کو سود، جوا اور دوسرے خراب اور حرام طریقوں سے پاک صاف کرتا ہے۔ جس کے پاس حلال کی دولت آجائے۔ اس کو بھی کہتا ہے کہ تم امین ہو، مالک نہیں ہو۔ مال کمانے اور خرچ کرنے کے حلال طریقے سمجھاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ساری روے زمین اللہ کی ملکیت ہے۔ بادشاہوں کی ملکیت نہیں ہے۔ اشتراکیت کے بارے میں جو اقبالؒ نے ابتدائی پیغام دیا تھا اس میں ایک ایک شعر بڑا خوب صورت ہے ؂
دینِ آں پیغمبرِؐ حق ناشناس
بر مساواتِ شکم وارد اساس
کہ وہ جو حق ناشناس پیغمبر ہے [یعنی کارل مارکس] ، اس کے دین [یعنی کمیونزم] کا انحصار پیٹ کی مساوات پر ہے۔ اس کی خرابی اب تو ساری دنیا پر عیاں ہوگئی ہے، لیکن اقبالؒ نے اسی زمانے میں واضح کر دیا تھا کہ مغربی تہذیب بھی اسی طریقے سے ختم ہوجائے گی۔ کمیونزم ختم ہوگیا، مغربی تہذیب بھی ختم ہوجائے گی۔ اس کی جگہ کون سنبھالے گا؟ جگہ سنبھالنے کے لیے ایک تازہ د م اُمت کی ضرورت ہے، جو جذبۂ جہاد اور اخلاق و کردار کے زیور سے آراستہ ہو اور قوتِ عمل سے سرشار ہو۔ اس لیے اقبالؒ کہتے ہیں کہ اُمت کے لوگوں کو سخت کوشی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
اقبالؒ کا حضورؐ کے ساتھ خود بڑا گہرا تعلق تھا۔ وہ اس حوالے سے بھی جذبہ بیدار کرتے تھے۔ جنگ طرابلس پر نظم میں اس کا ذکر آیا ہے۔ عالمِ خیال میں وہ حضورؐ کی بارگاہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں حضورؐ ان سے پوچھتے ہیں کہ اُمت کا حال کیا تھا؟ میرے لیے کیا تحفہ لائے ہو؟ تو وہ اُمت کا حال بتاتے ہیں ؂
گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا
جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا
فرشتے بزمِ رسالت میں لے گئے مجھ کو
حضورِ آیۂ رحمت میں لے گئے مجھ کو
کہا حضوؐر نے اے عندلیبِ باغِ حجاز
کلی کلی ہے تری گرمیِ نوا سے گداز
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آیا
ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟
تو اقبال کہتے ہیں کہ ؂
حضوؐر دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے، وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی
لیکن بعد میں اُمید اور روشنی کی جھلک دکھاتے ہوئے ایک تحفہ پیش کرتے ہیں ؂
مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری اُمت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
اقبال ؒ کو شہدا کے خون میں ایک اُمید نظر آتی ہے۔ یہ ایسی قیمتی چیز ہے جس سے پھر ایک نئی صبح کے بیدار ہونے کا امکان ہے ۔
طرابلس کی جنگ ہی میں’’فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ ایک عرب لڑکی پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھی۔ اس میں انھیں اُمید کی کرن نظر آئی تو اسے عام کرنے کی کوشش کی۔ وہ فاطمہ بنت عبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ؂
یہ سعادت حورِ صحرائی تری قسمت میں تھی
غازیانِ دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
اس کی تعریف کرنے کے بعد اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ؂
فاطمہ گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے
نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم میں ہے
اگرچہ تیری شہادت کی وجہ سے ہم بہت غمگین ہیں لیکن اس غم میں خوشی کا ایک پہلو بھی چھپا ہوا ہے،اور خوشی کا پہلو یہ ہے کہ ؂
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
یہ چنگاری اقبالؒ کو نظر آتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی خوشبو سارے عالم میں پھیل جائے گی اور ایک نئی صبح نمودار ہوگی۔ ایک نیا ولولہ پیدا ہوگا، بیداری پیدا ہوگی اور قافلہ پھر سے اپنے سفر پر گامزن ہوجائے گا۔
ایک نظم ’’امامت‘‘ میں اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اُمت محمدیہؐ کا حقیقی قائد کون بن سکتا ہے۔ قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ؂
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رُخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
وہ یہاں احساسِ زیاں کو زندہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ احساسِ زیاں کو زندہ کرنا اقبالؒ کی شاعری اور ان کے پیغام کا اہم حصہ ہے۔ وہ احساسِ زیاں کے فقدان پر افسوس بھی کرتے ہیں ؂
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
ان کو یہ افسوس ہے کہ ایک تو کارواں کا سارا سامان لُٹ گیا اور ان کو پتا بھی نہیں کہ ان کا سارا سامان لٹ گیا ہے۔ اس پر انھوں نے رونا رویا ہے اور اُمت کے جوانوں کے لیے ایک پوری نظم لکھی ہے۔ انھیں کہتے ہیں کہ حکومت کا تو کیا غم کہ وہ اِک عارضی شے تھی یعنی حکومت تو زمانے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ ۔ قرآنِ مجید نے بھی ہمت بندھائی ہے کہ آج اگر شکست ہوگئی تو کل فتح بھی ہوسکتی ہے لیکن اقبال کو افسوس اور غم اس پر ہوتا ہے کہ ؂
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
ہمارے آباواجداد کی کتابیں لوٹ کر لے گئے ہیں اور اپنے کتب خانوں میں ان کو سجا لیا ہے، ان کی آنکھیں اس سے روشن ہوتی ہیں اور ہماری آنکھوں کا نور ہم سے چھن گیا ہے۔ اس احساسِ زیاں کی جانب وہ اپنی قوم کو ہرموقع پر متوجہ کرتے ہیں۔ چنانچہ جب یورپ سے واپسی پر سمندر کے سفر کے دوران صقلیہ [سسلی] نامی جزیرے پر،جہاں مسلمانوں کی ۷۰۰ سال حکومت رہی،نظر پڑی تو بے اختیار کہتے ہیں ؂
رو لے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
اسی طرح اندلس میں دریاے وادئ الکبیر کے کنارے پر واقع مسجد قرطبہ کو دیکھ کر، اپنے جذبات کا یوں اظہار کرتے ہیں ؂
آب روان کبیر‘ تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں
ان کو نظر آرہا ہے کہ عشق بلاخیز کا قافلہ سخت جاں ختم نہیں ہوسکتا۔ اُمت مسلمہ کے پاس جو پیغام ، نور اور ہدایت ہے، اُمت کا ایمان ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح نہیں پاسکتی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ اُمت یا پیغام یا توحید کی امانت ختم ہوجائے۔ یعنی ان کو انتظار ہے کہ وہ قافلہ سخت جاں کسی وادی میں سے گزر رہا ہوگا۔ کہیں سے آرہا ہوگا، اور کہیں سے نظر آجائے گا۔ اقبالؒ کو گرد اُڑتی ہوئی نظر آرہی ہے اور اس گرد میں ان کو کسی سوار کا انتظار ہے ع
خرم آں کس کہ دریں گرد سوارے بیند
وہ کتنا خوش قسمت ہے کہ اس کو اس گرد سے نکلتا ہوا کوئی سوار نظر آجائے۔ وہ اس انتظار میں محو ہیں لیکن ساتھ ساتھ احساسِ زیاں کو بیدار کر رہے ہیں۔
یہ وہ دور تھا جب ساری دنیا میں استعمار نے مسلمانوں کو غلام بنا لیا تھا۔ اب تو آپ کے ۵۲، ۵۳ ممالک آزادی کی فضا میں جی رہے ہیں۔ ایک اُمید ہے، آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس زمانے میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ مردِ بیمار خلافت عثمانیہ دم توڑ چکی تھی، لیکن اقبالؒ نے اُمید کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا، احساسِ زیاں بیدار کر کے پھر اُمید دلائی،اُنھوں نے یاس و حزن کے بجاے اُمید کا درس دیا اور نااُمیدی کوتمام امراض کی جڑ قرار دیا۔ ’’اسرار و رُموز‘‘ میں ایک باب اس پر باندھا ہے کہ یاس اور حزن اُم الخبائث ہیں۔ نااُمیدی تمام گندگیوں اور تمام امراض کی جڑ ہے۔ نااُمید ہونے کے بعد انسان کے لیے اُٹھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اُٹھنے کے لیے تواُمید ضروری ہے اور یاس و حزن سے تو اللہ کے نبیؐ نے پناہ مانگی ہے اور نااُمیدی سے اللہ نے روکا ہے اور کہا ہے کہ : لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحمَۃِ اللّٰہِ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ‘‘۔
اقبالؒ نے طویل نظمیں لکھی ہیں کہ لوگ نااُمید اور غمگین نہ ہوں۔ وہ یاس و حزن میں مبتلا نہ ہوں بلکہ کمرہمت باندھ لیں، اور ان کو کمرہمت باندھنے کے لیے انھوں نے اُمید کی جھلک دکھائی ہے اور مختلف واقعات کے ذریعے سے ان کے شوق کو بیدار کیا ہے۔ یہ ان کا بنیادی پیغام ہے کہ محبت اور شوق ہی بہت بڑے بڑے کام کرواتے ہیں ؂
دے ولولۂ شوق جسے لذت پرواز
کر سکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج
کہ ولولۂ شوق اور محبت کے نتیجے میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے جاتے ہیں۔ شوق اور محبت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔
’’اسرار و رُموز‘‘ میں انھوں نے خودی کی تعریف کی ہے کہ میں کیا ہوں۔ اپنی شناخت کو جانو۔ اگر ایک انسان اپنے آپ کو پہچان لے، اپنے رب کو پہچان لے اور اپنے مقام کو پہچان لے، تو اس کے بعد اللہ کی طاقت و نصرت اس کے شاملِ حال ہوجاتی ہے۔ اس لیے ان کی ساری کوشش یہ ہے کہ ایک مسلمان کو اس کے مقام اور حیثیت کی پہچان کرا دیں۔ موت کا فلسفہ بیان کرتے ہیں کہ موت کیا ہے ؂
خودی ہے زندہ تو ہے موت اِک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحان ثبات
موت بھی زندگی کے سفر کا ایک مقام ہے۔ دُنیا کی موت آخری منزل نہیں ہے۔ حیات اس کے بعد بھی جاری ہے۔ دُنیا کا اُفق اس کو ختم نہیں کرتا۔ حیات کا تسلسل موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ اس پر مومن یقین رکھتا ہے اور اقبال کو اس پر یقین ہے۔
اُنھوں نے قیادت کی ایک تعریف یہ بیان کی ہے کہ وہ تمھارا احساس زیاں بیدار کردے اور دوسری یہ کہ تمھیں موت کے آئینے میں محبوب کا چہرہ دکھا دے اور تمھارا اس بات پر یقین ہوجائے کہ موت کی وادی میں سے گزریں گے تو محبوب سے ملاقات ہوگی اور موت کو تمھارے لیے وہ آسان بنا دے۔
وہ چاہتے تھے کہ لوگ اپنے محبوب کو پہچان لیں اور پھر اس کے لیے جدوجہد شروع کردیں، اس کے لیے انھوں نے محنت اور جدوجہد پر بہت زور دیا ہے۔ ا س حوالے سے اقبالؒ کی ایک مشہور نظم ہے جس میں ایک عقاب [بوڑھا عقاب] اپنے جوان بچے [شاہین] کو نصیحت کرتا ہے ؂
بچہ شاہیں سے کہتا تھا عقابِ سالخورد
اے ترے شہپر پہ آساں رفعتِ چرخ بریں
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر
وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں
کہتا ہے کہ تمھارے بازو بڑے قوی ہیں اور یہ جو رفعت چرخ بریں [آسمانوں کی بلندیاں] ہیں یہ تمھارے شہپر کے لیے بہت آساں ہیں۔ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ جوانی کیا ہے؟ شباب کیا ہے؟ اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام جوانی ہے۔ جتنا زیادہ لہو جلے گا اتنی ہی زیادہ توانائی پیدا ہوگی۔ زندگی کا لطف وہی اُٹھاتے ہیں جو سخت کوش ہوتے ہیں اور محنت و جدوجہد کرتے ہیں۔ وہی جوانی کی اصل لذتوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو شاہین دوسرے کا شکار نہیں کھاتا۔ اس کو کتنا ہی اچھا کھانا ملے گا لیکن وہ اپنے ہی کیے ہوئے شکار کو کھاتا ہے، کیوں کہ جھپٹنے، پلٹنے اور محنت میں مزہ ہے ؂
جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
اس سے لطف آتا ہے اور لہو گرم ہوتا ہے۔ محنت اور مسلسل محنت۔ اس کے لیے موج کی مثال دیتے ہیں ؂
موج ز خود رفتہ تیز خرامید و گفت
ہستم اگر می روم ، گرنہ روم نیستم
موج نے تیزی سے چلتے ہوئے کہا کہ چلتی رہوں تو میں موجود ہوں۔چلنا چھوڑ دوں گی تو میرا وجود ختم ہوجائے گا۔ تحریک اس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس میں مسلسل حرکت ہے، تگ و دو ہے، حرکت کے نتیجے میں زندگی ہے۔ جہاں حرکت رُک گئی تو اسی وقت عدم آگیا اور موت آگئی۔ اس لیے اقبال مسلسل حرکت کے قائل ہیں ع
جوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
کہ ایک بہت بھاری پتھر ہے اور ایک شخص اس پتھر پر مسلسل تیشہ چلا کر محنت کر رہا ہے۔ اور اس محنت کے نتیجے میں اس پتھر سے دودھ کا چشمہ جاری ہے۔ یہی اس زندگی کا اصل لطف ہے۔ مسلسل محنت، جدوجہد، محنت، جہاد ؂
یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
یعنی مجاہد گنبد افلاک میں مسلسل اللہ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہے۔ اقبال کے پیغام کے بنیادی نکات ہیں: عشق، شوق، جہد مسلسل اور محنت۔ اور یہ سب کس لیے؟ تاکہ اللہ کا دین سربلند ہو،اللہ کا کلمہ سربلند ہو۔ اس کے لیے اقبال جوانوں سے بڑی اُمیدیں باندھتے ہیں اورجوانوں کو الگ سے پیغام دیتے ہیں۔ وہ خواتین کو بھی خصوصی پیغام دیتے ہیں اور خواتین کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُمت امومت سے ماخوذ ہے اور امومت، ماؤں اور خواتین کا احترام کرنا، یہی اُمت کی شیرازہ بندی ہے۔ خواتین اور بچیوں کو خصوصی طور پر مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؂
بہل اے دخترک ایں دلبری ہا
مسلماں را نہ زیبد کافری ہا
منہ دل بر جمالِ غازہ پرورد
بیاَ موز از نگہ غارت گری ہا
کہ اے میری بٹیا [چھوٹی بچی کو دخترک کہتے ہیں، یہ پیار کا لفظ ہے]۔ سیرت و کردار سے فتح حاصل کرنا اور دلوں کو مسخر کرنا سیکھ لو۔ ناز و انداز، سنگھار اور میک اَپ کے طریقے ترک کردو۔ یہ جاہلیت کے طریقے مسلمانوں کو زیب نہیں دیتے۔
وہ خواتین کو خطاب کرتے ہوئے ان سے درخواست کرتے ہیں کہ ہماری جو یہ تاریک رات ہے اس سے سپیدۂ سحر نمودار کریں اور اس اُمت کے سامنے پھر سے قرآنِ کریم کی تلاوت کریں۔ کیا تجھے پتا نہیں ہے کہ یہ تیری قرات کا سوز تھا، جس نے عمرb کی کایا پلٹ دی جب اُنھوں نے اپنی بہن سے قرآن سن لیا تو وہاں سے ایمان لانے کی نیت سے حضورؐ کے دربار میں چلے گئے اور ان کی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ وہ واقعہ یادکراتے ہوئے اقبالؒ دخترانِ اسلام سے کہتے ہیں ؂
زشام ما بروں آور سحر را
بہ قرآں باز خواں اہلِ نظر را
تو می دانی کہ سوزِ قرات تو
دگرگوں کرد تقدیر عمرؓ را
اس اُمت میں اصلاح کا کام اُمت کو حضورؐ سے آشنا کیے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یہ اصلاح حضور نبی کریمؐ کے طریقۂ کار کے مطابق ہی ہوسکتی ہے۔
اُمت مسلمہ صرف اور صرف حضورؐ کے گرد اکٹھی ہوسکتی ہے،کسی اور شخصیت کے گرد اکٹھی نہیں ہوسکتی ہے۔ صرف قرآن و سنت کے گرد اکٹھی ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اقبالؒ نے اپنے ترانے میں کہا ؂
سالارِ کارواں ہے میرِحجازؐ اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
میرِحجازؐ سالارِ کارواں ہیں اورصرف ان کے گرد یہ پوری اُمت اکٹھی ہوسکتی ہے۔ وہی فکر مطلوب و مقصود ہے جس کا منبع قرآن و سنت ہے۔ اُمت نے صرف اسی کو قبول کیا ہے۔ جہاں اس فکر میں اور کسی عالمِ دین یا لیڈر کی فکر میں کوئی فرق نہیں ہے تو اُمت مسلمہ نے بحیثیت مجموعی قرآن و سنت کے مقابلے میں کسی دوسری فکر کو کبھی درخور اعتنانہیں سمجھا۔ اقبال کی فکر صرف اس لیے محبوب ہے کہ اس نے پیغامِ خدا دیا ہے۔ ’’اسرار و رُموز‘‘ کے آخر میں وہ بہت ہی پُرجوش اور دُعائیہ الفاظ میں حضور رحمۃ للعالمینؐ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ؂
گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحر فم غیرِ قرآن مضمر است
روزِ محشر خوار و رُسوا کن مرا
بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا
اگر میں نے قرآن اور حق کی پیروی کے علاوہ کوئی اور راستہ دکھایا ہے تو مجھے ذلیل و خوار کر دے اور اپنے بوسہ پا سے محروم کردے۔ ان کے دل میں اس سے زیادہ کوئی اور بددُعا ہونہیں سکتی تھی لیکن ساتھ ہی کہتے ہیں کہ ؂
گر دُرِ اسرارِ قرآن سفتہ ام
بامسلماناں اگر حق گفتہ ام
عرض کن پیشِ خداے عزوجل
عشقِ من گردد ہم آغوشِ عمل
میں نے قرآن کا سبق دیا ہے اور اس کے اسرار بیان کیے ہیں۔ مسلمانوں کو اسی طرف بلایا ہے اور مسلمانوں کے سامنے حق کی تعلیم رکھی ہے۔ پھر حضور اکرمؐ سے کہتے ہیں کہ میرے حق میں اللہ سے دُعا کریں کہ میرا شعر عملِ صالح سے ہم آغوش ہوجائے۔
جس طرح ہرمصلح نے اس اُمت کو اللہ کی طرف بلایا ہے اسی طرح اقبالؒ نے بھی اللہ کی طرف بلایا ہے۔ یہ پیغام اُمت مسلمہ کے لیے حیات بخش پیغام ہے۔زندگی کا پیغام ہے اور بہت دل نشیں پیغام ہے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -