مسولینی علامہ اقبال سے کیوں ملنا چاہتا تھا ؟
اٹلی کا فاشٹ حکمران مسولینی علامہ اقبال کے فلسفہ کا معترف تھا اور اس نے چاہا کہ علامہ اقبال سے ملاقات کرکے ان سے مفید اور گراں قدر مشورے حاصل کرکے اٹلی میں اسکے تجربات کرے۔انگلستان والے مسولینی کو ظالم وجابر کہتے لیکن مسولینی نے اٹلی کو یکجا کرکے نظم و ضبط کا کڑا نظام قائم کردیا تھا ۔ علامہ اقبال دوسری گول میز کانفرنس 1931 میں جب انگلستان کے دورہ پر تھے توانہیں ممبئی میں مقیم اٹلی کے سفارت کار ڈاکٹر سکورپا کی وساطت سے اٹلی کا دورہ کرنے اور مسولینی سے ملاقات کی درخواست کی گئی کہ مسولینی ان سے ملاقات کا خواہاں ہے۔مسولینی ہٹلر کا اتحادی تھا اوریہ دونوں حکمران یورپ کی تہذیب کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے ۔ اقبال نے مسولینی کے بارے میں ضرب کلیم میں ایک نظم بھی کہی تھی جس کا پہلا شعر ہی علامہ اقبال کی مسولینی کے ساتھ ہمدردی کو عیاں کرتاہے۔
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم!
بے محل بگڑا ہے معصومان یورپ کا مزاج
27 نومبر کو مسولینی کی خواہش پر علامہ اقبال نے اْس سے اٹلی میں ملاقات کی اور ایک یادگار تاریخی مکالمہ معرض وجود میں آیا۔رسمی مزاج پْرسی کے بعد مسولینی نے علامہ اقبال سے پوچھا’’میری فاشٹ تحریک کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
علامہ اقبال نے جواب دیا’’آپ نے ڈسپلن کے اصول کا بڑا حصہ اپنا لیا ہے جسے اسلام اسلامی نظامِ حیات کے لیے بہت ضروری سمجھتا ہے،لیکن اگر آپ اسلام کا نظریہ حیات پوری طرح اپنا لیں تو سارا یورپ آپ کا تابع ہو سکتا ہے۔‘‘
مسولینی نے علامہ اقبال سے اٹلی کے قیام کے بارے میں اْن کے تاثرات پوچھے۔آپ نے فرمایا’’میں اطالویوں کے متعلق سمجھتا ہوں کہ وہ ایرانیوں سے کافی مشابہت رکھتے ہیں اور بڑے ذہین و فطین،خوبصورت اور فن پرست ہیں۔ان کے پیچھے تمدن کی کتنی ہی صدیاں ہیں،مگر ان میں خون نہیں۔‘‘
مسولینی نے اس پر حیرت کا اظہار کیا تو آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا’’ایرانیوں کو ایک فائدہ میسر رہا ہے جو اطالویوں کو میسر نہیں۔اور وہ یہ کہ ان کے اردگرد مضبوط اور توانا قومیں افغان،کْرد اور ترک آباد ہیں جن سے وہ تازہ خون حاصل کر سکتے ہیں۔آپ اطالوی ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘
اس پر مسولینی نے پوچھا’’اچھا ہم اہل اٹلی کو کیا کرنا چاہیے؟‘‘
علامہ صاحب نے جواب دیا’’یورپ کی تقلید سے منہ موڑ کر مشرق کا رْخ کرو۔اس لیے کہ یورپ کا اخلاق ٹھیک نہیں۔مشرق کی ہوا تازہ ہے،اس میں سانس لو۔‘‘
مسولینی نے علامہ اقبال سے کوئی اچھوتا مشورہ طلب کیا جو خاص اٹلی کے حالات کے لیے موزوں ہو۔انہوں نے فرمایا’’شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی جاتی ہے،اْس کی تہذیبی و اقتصادی توانائی بھی کم ہوتی ہے۔اور ثقافتی توانائی کی جگہ محَِر کاتِ شر لے لیتے ہیں‘‘
علامہ اقبال نے مزید کہا’’یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں ہے بلکہ میرے رسول ﷺ نے تیرہ سو سال پہلے یہ مصلحت آمیز ہدایت جاری فرمائی تھی کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کر جائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت دینے کی بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے۔‘‘
یہ حدیث سْنتے ہی مسولینی کْرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں ہاتھ میز پر زور سے مارتے ہوئے کہنے لگا’’کتنا خوبصورت خیال ہے؟‘‘
مسولینی علامہ اقبال سے فکری رہنمائی حاصل کرکے اٹلی میں اصلاحات کرنا چاہتا تھا اور اس نے اس پر عمل بھی کیا مگر اپنی بے رحمانہ پالیسیوں کی وجہ سے وہ اعتدال کا راستہ کھوچکا تھا ،ہٹلر کی طرح اسکا انجام بھی بالاخر افسوسناک ہوا۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔