ٹیکنیکل ایجوکیشن وقت کی اہم ضرورت ہے
ہنر اور تعلیم دو متضاد چیزیں ہیں لیکن دونوں کا تعلق انسانی عقل سے وابستہ ہے۔ تعلیم یعنی علم کا حصول ایک خدا داد نعمت ہے اور علم کو اگر خدا کا نور کہا جائے تو غلط بات نہیں۔ یہ ایک ایسی دولت ہے کہ جو بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ راست پر لے آتی ہے اسلام نے شروعات سے ہی انسانیت کو علم کا درس دیا اور شعور سکھایا۔ اللہ کے آخری نبیﷺ علم اور ہدایت کا پیکر بن کر اس دنیا میں تشریف لائے اورپوری دنیا کو علم کے نور سے روشن کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جا بجا ارشاد فرمایا ہے کہ
’’ اہل علم اور جاہل کبھی بھی برابر نہیں ہو سکتے۔‘‘
دین اسلام میں دینوی اور دنیاوی دونوں علوم کے حصول پر زور دیا گیا ہے مگر دینوی علم کو بنیادی علوم پر فوقیت حاصل ہے دنیاوی علوم یا تعلیم سے مراد وہ تعلیم ہے جو ہم اپنے تعلیمی اداروں سے حاصل کرتے ہیں۔ زندگی کو گزارنے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش میں حاصل کی جانے والی یہ تعلیم جس میں ریاضی ، فلسفہ، تاریخ، سائنس، انجینئرنگ اورڈاکٹری وغیرہ پڑھائی جاتی ہیں اس پر لاکھوں روپے خرچ کر دیئے جاتے ہیں لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان ڈگریوں کو حاصل کرنے کے بعد ہمارا شمار اہل علم میں ہو جاتا ہے یا پھر اتنے سالوں تک کی جانے والی جدوجہد کا کوئی حصول نہیں ہے۔
اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ آج کل کے دور میں کسی کو بھی علم کے حصول میں دلچسپی نہیں ہے ہر طالبعلم کا مقصد ڈگر ی کاحصول ہے تاکہ وہ اپنے آنے والے مستقبل کو بہتر بناسکے۔ لیکن کیا ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک طالبعلم کا مقصد پورا ہوجاتا ہے؟ اگر ہمارے ملک کے حالات کو دیکھا جائے تو آج کل ایسے ڈگری یافتہ نوجوانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو بے روزگار ہیں اور نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔ ایک عام انسان جو اپنی آدھی زندگی ڈگری کے حصول میں صرف کردیتا ہے اورکسی ہنر کو سیکھنے کی طرف توجہ نہیں دیتا اس کو اپنی ساری زندگی بے روزگاری کی نظر کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے ملک کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ہنر کا حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔جسے ہم ٹیکنیکل ایجوکیشن یافنی تعلیم کہتے ہیں۔ جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی وہاں معاشی ترقی کی رفتار زیادہ ہے۔
ٹیکنیکل ایجوکیشن کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور نتیجتاً معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے لیکن پاکستان میں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے، جس کا اندازاہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف 4 سے 6 فیصد جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 66 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
نوجوانوں کو فنی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے حکومتی کاوشوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت بے حد اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ نجی سیکٹر اپنے تئیں یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے لیکن جب تک حکومت کی شراکت داری اور سرپرستی نجی سیکٹر کے ساتھ نہ ہو، اْس سلسلے کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔ اس وقت پورے پنجاب میں پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹس کی تعداد صرف 325 ہے جس میں سرکاری و نجی دونوں طرز کے ٹیکنیکل تعلیمی ادارے شامل ہیں، ان میں سے 295 پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ صرف نجی ہیں جبکہ دیگر 30 ادارے سرکاری ہیں۔ دیگر صوبوں کی صورتحال بھی پنجاب سے مختلف نہیں۔ اس اعداد و شمار سے ارباب اقتدار و اختیار کے فنی تعلیم کے شعبے میں دلچسپی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
بہرحال ان325 تعلیمی اداروں میں ہزاروں طلباء فنی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ لاکھوں یہاں داخلہ لینا چاہتے ہیں ۔لیکن اداروں کی کمی اور جن جگہوں پر ادارے موجود ہیں، وہاں وسائل اور داخلے کی حد پوری ہونے کی وجہ سے کئی طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔آگہی نہ ہونے اور عمومی تعلیمی اداروں کے مقابل ٹیکنیکل اداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہونے کی وجہ سے طلبہ کی تعداد میں ہر سال بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی والدین اپنے بچوں کو بچپن سے ہی ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کے خواب دیکھنے تک ہی محدود ہیں۔
تجاویز:
اس ضمن میں طلبہ و طالبات اور متعلقہ اداروں کے لئے چند تجاویز ہیں:
فیس کی ادائیگی کرکے : کوئی بھی ہنر سیکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی تربیتی ادارے میں فیس ادا کرکے ایک خاص ہنر کا تربیتی نصاب مکمل کریں۔مثلاً کسی کمرشل انسٹی ٹیوٹ میں مختصر نویسی (شارٹ ہینڈ رائٹنگ) کی تربیت حاصل کریں یا کسی فنی تربیت کے ادارے میں کوئی تکنیکی ہنر، مثلاً ڈرافٹس مین یا ویلڈر یا کسی اور ہنر کی تربیت مکمل کریں۔اس طریقے کے فائدے یہ ہیں کہ اگر آپ نے کسی اچھے تربیتی ادارے کا انتخاب کیا ہے تو آپ ایک مقررہ مدت میں ایک باقاعدہ نصاب کے تحت اس ہنر کے نظری اور(تھیوری اور پریکٹیکل) پہلوؤں سے واقف ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ تربیت چھ ماہ کی ہے تو چھ ماہ میں ہی مکمل ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں اس قسم کی فنی تربیت فراہم کرنے والے ادارے دو طرح کے ہیں۔ ایک سرکاری اور دوسرے نجی۔
سرکاری اداروں میں درج ذیل ادارے شامل ہیں:
پولی ٹیکنیکس : یہاں بالعموم تین سال کے کورس ہوتے ہیں۔
ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر: ان اداروں میں 9 ماہ سے 2 سال تک مختلف نوعیت کے تیکنیکی کورس کرائے جاتے ہیں جوبہت مفید ہوتے ہیں۔
کمرشل ٹریننگ سینٹر: ان اداروں میں ٹائپ کاری، مختصر نویسی اور تجارت(کامرس) سے متعلق کورس کرائے جاتے ہیں۔
اسمال انڈسٹریز کارپوریشنز کے تربیتی مراکز : پنجاب اور سندھ میں اسمال انڈسٹریز کارپوریشنز اور سرحد و بلوچستان میں ڈائریکٹوریٹ آف انڈسٹری کی جانب سے مختلف علاقائی دست کاریوں اور تیکنیکی ہنروں کی تربیت کے مراکز قائم ہیں جہاں تین ماہ سے ایک سال کی مدت کے کورسز کرائے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں برائے نام فیس وصول کی جاتی ہے۔
خواتین کی تربیت کے ادارے: پاکستان کے بڑے شہروں میں خواتین پولی ٹیکنیکس ہیں جہاں تین سال کا نصاب مکمل کرایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وزارتِ صنعت اور ویمن ڈویڑن کے تحت خواتین کے تربیتی مراکز اور انڈسٹریل ہومز ہیں جہاں6 ماہ سے 18 ماہ تک کے مختلف کورسز کرائے جاتے ہیں۔
مختلف سرکاری اداروں کے تربیتی مراکز : مختلف وفاقی اور صوبائی وزارتوں کے تحت ملک کے مختلف علاقوں میں علاقائی ضرورت کے مطابق فنی تربیت کے مراکز قائم ہیں جہاں ایک سال سے دو سال تک کے کورسز کرائے جاتے ہیں۔
نجی کاروباری اور فلاحی ادارے:ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں متعدد نجی کاروباری اور فلاحی اداروں کی طرف سے تجارتی بنیاد پر یا نہ نفع نہ نقصان کی بنیاد پر قائم ہیں جہاں نوجوانوں کو مختلف فنون اور ہنروں کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان اداروں میں بھی بالعموم 6 ماہ سے 18 ماہ تک کے کورس کرائے جاتے ہیں۔
وظیفے کے ساتھ کام سیکھنا:کام سیکھنے کا یہ طریقہ ایسا ہے جہاں آپ کو کام بھی سکھایا جاتا ہے اور وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ اسے شاگرد پیشہ تربیت یااپرنٹس شپ کہتے ہیں۔
How to find a job:حکومتِ پاکستان کے انٹرن شپ ٹریننگ آرڈیننس 1962ء اور رولز 1966 ء کے تحت ہر اس صنعتی ادارے کے لیے جہاں 50 سے زائد کارکن ملازم ہوں، یہ لازم ہے کہ وہ باقاعدہ ملازموں کی تعداد کے 20 فیصد کے برابر اپرنٹس رکھے۔ اپرنٹس کی عمر 14 سے 25 سال کے درمیان ہوتی ہے اور اس کی تعلیمی لیاقت آٹھویں سے بارہویں جماعت کامیاب ہوسکتی ہے۔ تربیت کی مدت، فنی شعبے یا ہنر کی نوعیت کے اعتبار سے 18 ماہ سے 36 ماہ ہوتی ہے۔
بلا معاوضہ کام سیکھنا:یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے فائدہ اٹھا کر ہزاروں بے روزگار نوجوان اپنی صلاحیت اور لیاقت میں اضافہ کرکے خود کو روزگار کے قابل بناسکتے ہیں۔
موسمِ گرما کی تعطیلات اور خصوصاً میٹرک اورانٹر میڈیٹ کے امتحانات کے بعد اگلی جماعت میں داخلہ شروع ہونے تک کا طویل عرصہ کام سیکھنے کے لیے بہترین وقت ہوتا ہے۔آپ کے گھر کے نزدیک اگر کوئی ایسا ادارہ ہے جہاں آپ کو بلا معاوضہ کام سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے تو باہمی طور پر طے کرکے ہفتے کے مقررہ دن یا ہر روز مقررہ اوقات میں آپ کام سیکھنے کے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔
کام سیکھنے کے لیے وقت کہاں سے مل سکتا ہے ؟
کوئی ہنر سیکھنے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟اس کی مقدار کام سیکھنے کے طریقوں اور کام کے لحاظ سے مختلف ہوگی کسی کالج ، پولی ٹیکنیک یا ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں کام سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کل وقتی تربیت حاصل کرنا ہوگی۔کسی نجی ادارے میں صبح یا شام کے اوقات میں 2 سے 4 گھنٹے روزانہ کے تربیتی پروگرام کے لیے آپ اپنی مصروفیات کے لحاظ سے وقت نکال سکتے ہیں ۔ان اداروں میں طلباء مختلف ٹیکنیکل کورسز میں تین سالہ ڈپلومہ کرکے باعزت روزگار کے قابل اور خودمختار بن رہے ہیں۔
پولی ٹیکنیک، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ، ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز میں داخلوں کے اشتہارات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں، اس لیے اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ جاری رکھیے۔اپرنٹس شپ ٹریننگ کے اشتہارات بھی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ اخبار کا مطالعہ اپنی عادت بنا لیجیے۔
حکومت کو چاہیے کہ تعلیم کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ نوجوان قوم کو ہنر سکھانے کا بھی انتظام کرے۔ اس مد میں حکومت کو درج ذیل انتظامات کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
*سکولوں اور کالجوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھایا جائے
*انگلش بول چال کے شارٹ کورسز اور کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم کو عام کیا جائے
*کاروباری اداروں کی فلاح وبہبود کا انتظام یقینی بنایا جائے۔
*ملک میں زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔
*ملکی حالات کو بہتر بنایا جائے تاکہ کاروباری اور ہنر مند دونوں لوگوں کو روزگار مل سکے
*دور دراز کے علاقوں میں فنی تعلیم کے فروغ کے اقدامات کرتے ہوئے خواتین، معذور افراد اور چائلڈ لیبر میں مصروف بچوں کی فنی تربیت پر خصوصی گا بھی توجہ دینی چاہیے۔
*صوبائی حکومتیں صوبے بھر میں بے کار پڑی سرکاری عمارات کو فنی تعلیم کے مراکز کے طور پر استعمال کریں تو اس سے نہ صرف آگہی میں اضافہ ہوگا بلکہ تعلیم و تحقیق کے فروغ کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کے رجحانات میں بھی اضافہ ہوگا۔
* ٹیکنیکل کورسز کا موجودہ سلیبس تبدیل کرتے ہوئے اسے دور حاضر کی جہتوں اور طلباء کی ذہنی صلاحیتوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
سلیبس موجودہ دور کے مطابق ریوائز کیے جائیں اور ڈپلومہ کورسز جو پاکستان میں 50سال سے زائد عرصہ سے ہورہے ہیں، ان کے استحکام کیلئے ’’ٹیکنیکل ٹیکسٹ بک بورڈ‘‘ بنایا جائے جو کورس کی تکنیکی تبدیلیوں کے حوالے سے پیش رفت کرے۔
* فنی تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھائی جائے کیونکہ فنی تعلیم کے موجودہ اداروں کی تعداد نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے ناکافی ہے۔
* نصاب میں فنی تعلیم سے آگہی، فروغ اور اس جانب رجحان کیلئے مڈل اور میٹرک کی سطح سے ہی ایک یا دو ٹیکنیکل کورس لازماً بطور لازمی مضمون شامل کیے جانے چاہئیں۔
بلا شبہ پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے لہٰذا فنی تعلیم کے شعبے کا فروغ اور آگہی کیلئے ایک طویل المدت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ایک فعال، آزاد اور خودمختار بورڈ تشکیل دیا جانا چاہئے جو مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ہو اور ایک ایسا روڈ میپ وضع کرے جو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق تیزی سے ہنرمند افرادی قوت تیار کرنے کے لئے اقدامات کرے
بے شک ہنر اور تعلیم دو الگ الگ چیزیں ہیں مگر ان دونوں، چیزوں کا حصول ہی انسان کے لئے لازمی بن چکا ہے۔ہنر اور تعلیم دونوں ہی انسان میں عقل اور شعور کو بیدار کرتے ہیں۔ جہاں تعلیم انسان کو باشعور اور عقل مند بناتی ہے وہیں پر ہنر انسان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو برؤے کار لاتا ہے۔ اس لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر کا حصول لازمی ہے تاکہ انسان زندگی کے کسی موڑ پر خود کو بے بس نہ سمجھے اور جیسے بھی حالات ہوں ان کا مقابلہ کرسکے۔