مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ”ان“ کے نام……!

26اگست کو نواب اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پر بلوچستان میں دور دور تک جب دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئیں اور آگ و خون کا کھیل کھیلا گیا تو سوچا کہ اس پر لکھتا ہوں، لیکن پھر سوچا کہ میرے سوچنے سے کیا ہوتا ہے، یہ بڑی بڑی سیاسی جماعتیں، یہ بڑے بڑے سیاسی رہنماء،یہ بڑے قد کاٹھ والے دانشور اور ”وہ“ سب مل کر حالات کو بہتر کر لیں گے اور انشاء اللہ بہتری کا کوئی راستہ نکل آئے گا، لیکن گزشتہ ہفتے جب اچانک ایک دن بریکنگ نیوز کا غلغلہ اُٹھا اور پتہ چلا کہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیدیا ہے تو ایمانداری کی بات ہے کہ میری روح کانپ اُٹھی اور ایک خوف در آیا۔ یہ خوف ان بچوں کے دِل میں پیدا نہیں ہو سکتا،جنہوں نے 1971ء سے پہلے کا پاکستان نہیں دیکھا،جنہوں نے 1965ء کی جنگ نہیں دیکھی، جنہوں نے ایوب خان کا مارشل لاء نہیں دیکھا،جنہوں نے 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان ٹوٹ جانے کی بی بی سی کی خبر نہیں سنی اور بقول اندرا گاندھی دو قومی نظرئیے کو خلیج بنگال میں غرق ہوتے نہیں دیکھا۔ مجھے وہ سیاہ دن، وہ سیاہ شام اور وہ سیاہ رات کبھی نہیں بھولی کہ اس رات میرے گھر میں میرے باپ کی سسکیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ایک ایسے شخص کی آہیں، جس نے قائداعظمؒ کی رہنمائی میں جدوجہد آزادی میں اپنا حصہ ڈالا، جو کچھ اس کے بس میں تھا وہ کچھ کیا، پھر پاکستان بننے کے بعد اس قناعت پسند شخص اور اس کے بزرگوں نے الاٹمنٹ کی ”لوٹ مار“ میں حصہ نہیں لیا۔ بھارت سے پاکستان آتے ہوئے وہ جو کچھ وہاں چھوڑ آئے اس کے بدلے انہوں نے یہاں ایک ٹیڈی پیسہ بھی نہیں لیا۔انہوں نے اپنے حق حلال کی کمائی سے اپنی نئی دنیا بسائی۔اس ملک کے لئے ان کی جذباتی کیفیت بیان کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ وہ ان لوگوں میں تھے، جن کو 1971ء کا صدمہ بہت شدید تھا۔ 16 دسمبر 1971ء کے سیاہ دن کے بعد 8 دسمبر 1984ء کو اپنی وفات تک وہ اتنے خوش نظر نہیں آئے جتنے متحدہ پاکستان میں نظر آتے تھے، جیسے 16 دسمبر ان کی خوشیاں لے گیا تھا۔
میں آج یہ لکھتے ہوئے ڈر رہا ہوں کہ 1970ء میں بھی ہمیں یہی کہا گیا کہ سب اچھا ہے، گھبرانا نہیں ہے، سب ٹھیک ہوجائے گا، ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور پھر سب کچھ بگڑ گیا۔آدھا ملک چلا گیا،ایک بھائی نے دوسرے بھائی کا ہاتھ جھٹک دیا، کس نے کس کو دھوکہ دیا؟ تاریخ کی کتابیں پڑھیں تو الزامات کی بھرمار ہے، کوئی اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا۔ آج میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں کہ میں ان حالات کا احاطہ کرسکوں جو نظر نہ آتے ہوئے بھی سب کو نظر آتے ہیں۔ اگر 26 اگست کے بعد کچھ بہتر ہوجاتا تو شاید یہ لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی لیکن سردار اختر مینگل کے استعفے کے بعد ان کی برطانیہ روانگی اور بی بی سی کو دئیے گئے انٹرویو نے بہت زیادہ خوفزدہ کردیا ہے۔ بلوچستان میں بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر چڑھ جانے کا سلسلہ 50ء کی دہائی سے جاری ہے۔ سردار اختر مینگل کے والد سردار عطاء اللہ مینگل، سردار خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو اور جناب ولی خان کی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں گرفتاری کے بعد بھٹو حکومت کے خاتمے تک وہاں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹ کر برسر اقتدار آنے والے جنرل ضیاء الحق نے ان تمام لیڈروں کو رہا کیا، راضی کیا، وعدے وعید ہوئے،لیکن افسوس یہ ہے کہ بلوچوں کی توقعات پر پورا نہ اُترا گیا۔ پھر سیاسی حکومتوں کا دور آ گیا۔ 11 سال انہوں نے بھی حکومت کی، لیکن اپنے بلوچ بھائیوں سے نجانے کیوں ”کنی کتراتے“ رہے۔ پھر جناب جنرل پرویز مشرف تشریف لائے اور ان کے دور میں تنازعہ مزید بڑھا حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ کے قدیمی دوست سابق گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان اکبر بگٹی جنرل پرویز مشرف کے بھیجے دستوں سے جان بچانے کے چکر میں ”پہاڑوں میں“ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ 26اگست کا وہ دن یقینا کوئی اچھا دن نہیں تھا، وہ بھی ایک سیاہ دن تھا اگر اس کے بعد بھی ہم کچھ سبق سیکھ لیتے اور مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور کسی حد تک بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں وجود رکھنے والی جے یو آئی (ف) اپنا کردار ادا کرتیں، یہ چاروں جماعتیں اور ان کے بڑے بڑے قد کاٹھ والے نامور رہنماء صرف اس ایک مسئلے کے لئے اپنی اناؤں کے بت توڑ دیتے اور ”ان“کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کردیتے تو آج یہ نوبت نہ آتی۔
تین مرتبہ کے وزیراعظم میاں نوازشریف، دو دفعہ کے صدرِ مملکت آصف علی زرداری، اڈیالہ جیل میں ”مقیم“ لیڈر عمران خان اور بڑی سیاسی مذہبی جماعت کے رہنما مولانا فضل الرحمن اور ان کی پارٹیوں کی وہ قیادت بھی جو طویل عرصہ سے سیاست کے میدان میں ہے، انہیں رابطوں کے لئے استعمال کیا جاتا اور کچھ ایسے لوگ بھی، جنہیں ”باخبر“ زیادہ جانتے ہیں کہ جن کا بلوچ دوستوں سے اچھا رابطہ ہو،جو ان سے ان کے دِل کی بات کر سکیں اور ان کے دِل کی بات سمجھ سکیں اور پھر وہ بات سمجھ کے ”ان“ تک پہنچا سکیں،جو اس مسئلے کو حل کرنے میں مددگار ہو۔ یہ پراسیس شروع کرنا ہو گا جتنی جلدی کر لیں اتنا اچھا ہو گا بصورت دیگر دیر کرنے میں بہت نقصان ہو جائے گا۔
برطانیہ پہنچنے والے سردار اختر مینگل نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر حکومت بلوچستان میں معاملات کے حل کے لئے بات کرنا چاہتی ہے تو اب اسے ان عناصر سے بات کرنا پڑے گی جو بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”اب حکومت کو پہاڑوں پر موجود نوجوانوں سے بات کرنا ہو گی۔ سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ”بلوچستان کے معاملات میں مستقل مداخلت اور سیاسی جوڑ توڑ ہوتا رہا ہے،جو اب پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی شروع ہو گیا ہے“۔ اس سے زیادہ انٹرویو ”دہرانا“ میرے لئے ممکن نہیں، مجھے صرف ”ان“ کو یاد دلانا ہے۔ ہم کیوں بھولتے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ افغانستان کا طویل بارڈر لگتا ہے۔ وہ افغانستان جس نے پاکستان کو تسلیم کرنا تو دور کی بات اقوام متحدہ میں اس کی ممبر شپ کی مخالفت کی تھی، جس نے پاکستان بننے کے فوراً بعد پختونستان کا مسئلہ کھڑا کیا، دہلی اور ماسکو کی مدد سے پاکستان کے خلاف سازشیں شروع ہوئیں۔ باجوڑ اور دیر پر افغانیوں کی آڑ میں افغان فوج حملہ آور ہوئی، آج بھی وہیں سے در اندازی جاری ہے اور ازلی دشمن یعنی دہلی کا ہندو اس کی مکمل پشت پناہی کررہا ہے، جس کے پاس پاکستان کی تباہی کے لئے خرچ کرنے کے لئے بے شمار پیسہ ہے۔ میں اور مجھ جیسے بے بس بوڑھے تو ”طاقتوروں“ سے یہی التجاء کرسکتے ہیں خدا کا واسطہ ہے رحم رحم رحم…… یہ میری اس نسل کی خواہش ہے جس نے مشترکہ پاکستان دیکھا ہے، متحدہ پاکستان دیکھا ہے، ہم دوبارہ متحد تو نہیں ہو سکتے لیکن چاہتے ہیں کہ گھر کا جو ٹکڑا بچ گیا ہے اس کی دیواروں کو محفوظ کر لیں،اس کے اندر رہنے والوں کو باہر والوں کی سازشوں اور در اندازیوں سے بچالیں۔ بلوچ بھائی بہنوں کو راضی کریں، مگر راضی تبھی کرسکتے ہیں جب سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ اپنے اپنے ذاتی مفادات کے خول سے باہر نکل کر اس مجبور بے بس قوم کی جنگ لڑیں گے۔
شاید کہ اتر جائے ”ان“ کے دل میں میری بات……!